کاشتکار کی آمدنی پیداواری لاگت سے کم
بلاواسطہ اور بالواسطہ ساٹھ فیصد سے زائد لوگوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ چنانچہ آج بھی یہ پس ماندہ ہے کیونکہ اس کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک صنعتی بن چکے ہیں اور اب ان کی معیشت کا زیادہ انحصار صنعتوں پر ہے۔ پاکستان میں زراعت قوی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔
بلاواسطہ اور بالواسطہ ساٹھ فیصد سے زائد لوگوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔ جب کہ فی ایکڑ پیداوار بھارت اور دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وجہ مہنگی کھاد مہنگی بجلی اور ناقص بیج ہے۔ جب کہ ہمسایہ ملک میں یہ سب چیزیں رعایتی نرخوں پر دستیاب ہیں۔ پاکستان میں جب فصل تیار ہوتی ہے تو کسان اور زمیندار کو جو آمدنی ہوتی ہے وہ اس کی پیداواری لاگت سے کہیں کم ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسان دیوالیہ ہو رہے ہیں اور کاشت کاری خسارے کا سودا بن چکی ہے۔ نسل در نسل کاشت کاری کرنے والوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔
کبھی کپاس کی پیداوار میں پاکستان بھارت سے آگے تھا۔ باسمتی چاول کی مارکیٹ پر پاکستان کی اجارہ داری تھی۔ پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کے باوجود ہم خشک دودھ امپورٹ کر رہے ہیں۔ لائیو اسٹاک میں پاکستان دسواں بڑا ملک ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بکرے کا گوشت اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ غریب اسے اب خواب میں ہی کھا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں درخت اور جنگلات ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں۔ جنگلات کو ختم کر کے نہ صرف ہم اپنے آپ پر بلکہ آنے والی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں۔
پوری دنیا میں جنگلات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کی ترقی اور حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں الٹ ہو رہا ہے۔ حکومت اول تو توجہ دیتی ہی نہیں اگر دیتی ہے تو بلند بانگ نعروں اور دعوؤں کے سوا کچھ نہیں۔ جن لوگوں کے لیے سیکڑوں ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا جاتا ہے اس کے فوائد ان تک پہنچتے ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر پہنچتے ہیں۔ ضلعی تحصیل سطح کے اہلکاروں کی کرپشن اس میں بڑی رکاوٹ ہے تو دوسری طرف سیاسی پسند اور نا پسند آڑے آ جاتی ہے۔ اس طرح اپنوں کو نوازا جاتا ہے غیروں کو دھتکارا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ہیلتھ کارڈ کا اعلان کیا گیا۔ لگا کہ غریبوں کو درپیش صحت کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے لیکن اسلام آباد سے لوگ بتاتے ہیں کہ جب وہ یہ ہیلتھ کارڈ لے کر اسپتال جاتے ہیں تو انھیں کسی بھی قسم کی سہولت دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے حکمران صرف اعلان ہی نہ کریں بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ ان کے احکامات پر کتنا عمل درآمد ہو رہا ہے۔ یہ اعلانات صرف میڈیا تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ اس کے ثمرات غریبوں تک بھی پہنچیں۔
زرعی معاشرے کی سب سے بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ وہ مستقل طور پر عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ سب کچھ قدرت پر منحصر ہوتا ہے۔ وقت پر بارشیں' موافق موسمی حالات ہوں تو کیا ہی بات ہے لیکن اگر تیار شدہ فصل پر بے وقت کی بارش یا اولے پڑ جائیں تو سب کچھ تباہ و برباد۔ ایک مستقل طور پر غیر یقینی کی سی کیفیت رہتی ہے جو ان کی نفسیات اور سوچ پر نہ صرف اثر انداز ہوتی ہے بلکہ اس کی تشکیل کرتی ہے۔
یعنی قدامت پرستی سے محبت اور وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھلنے سے خوفزدہ۔ سائنسی سوچ اپنانے سے ہر ممکن گریز بلکہ اس کے خلاف آخر دم تک مزاحمت کرنا... طویل مدت تک مسلسل مزاحمت کے بعد آخر کار نئی سوچ نئی ایجادات کو باامر مجبوری اپنانا یہاں تک کہ دنیا ان سے کوسوں دور آگے ترقی کر چکی ہوتی ہے۔ زرعی معاشرے قدامت پرستی کے حامل ہوتے ہیں جس سے مذہبی جنونیت پیدا ہوتی ہے جو دہشت گرد گروہ پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں فرد مذہب کے نام پر قانون اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرے کے امن و امان کو تباہ کر دیتا ہے۔
صنعتی معاشرے ایک طرف غربت اور جہالت میں کمی لاتے ہیں جو دہشت گردی کی جڑ ہے تو دوسری طرف مذہب کے حوالے سے اعتدال پسندانہ رویہ پیدا کرتے ہیں۔ صنعتی معاشرے میں کار خانے موسمی شدائد سے محفوظ رہتے ہوئے اپنی پیداوار جاری رکھتے ہیں۔ جب کہ زرعی معاشرے سراسر قدرت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں نتیجے میں ہر طرح کی توہم پرستی کا شکار ہوتے ہوئے ذہنی طور پر پس ماندہ رہ جاتے ہیں۔
یعنی آپ رہ اکیسویں صدی میں رہے ہوتے ہیں لیکن سوچ قرون وسطی کی ہوتی ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ صنعتی معاشرے بھی کبھی زرعی معاشرے تھے تو مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو کروڑوں کی تعداد میں قتل کرتے رہے۔ معیشت کا زراعت پر انحصار اور جاگیرداری مذہبی شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان میں بھی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ زراعت پر انحصار کم اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے جس کو سامراجی قوتوں نے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اب تک برقرار رکھا ہوا ہے۔
سرداری نظام ہو یا جاگیرداری یا بادشاہت... یہ اس خون آشام عفریت کے مختلف چہرے ہیں جس کی مرغوب غذا ہزاروں سال سے انسانی خون ہے۔
پاکستانی کرکٹ 2017ء میں اپنے طویل ''نیگٹیو فیز'' سے باہر نکل آئے گی۔
سیل فون:۔0346-4527997
بلاواسطہ اور بالواسطہ ساٹھ فیصد سے زائد لوگوں کا روز گار اس سے وابستہ ہے۔ جب کہ فی ایکڑ پیداوار بھارت اور دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ وجہ مہنگی کھاد مہنگی بجلی اور ناقص بیج ہے۔ جب کہ ہمسایہ ملک میں یہ سب چیزیں رعایتی نرخوں پر دستیاب ہیں۔ پاکستان میں جب فصل تیار ہوتی ہے تو کسان اور زمیندار کو جو آمدنی ہوتی ہے وہ اس کی پیداواری لاگت سے کہیں کم ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسان دیوالیہ ہو رہے ہیں اور کاشت کاری خسارے کا سودا بن چکی ہے۔ نسل در نسل کاشت کاری کرنے والوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔
کبھی کپاس کی پیداوار میں پاکستان بھارت سے آگے تھا۔ باسمتی چاول کی مارکیٹ پر پاکستان کی اجارہ داری تھی۔ پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کے باوجود ہم خشک دودھ امپورٹ کر رہے ہیں۔ لائیو اسٹاک میں پاکستان دسواں بڑا ملک ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بکرے کا گوشت اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ غریب اسے اب خواب میں ہی کھا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں درخت اور جنگلات ہر گزرتے دن کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں۔ جنگلات کو ختم کر کے نہ صرف ہم اپنے آپ پر بلکہ آنے والی نسلوں پر ظلم کر رہے ہیں۔
پوری دنیا میں جنگلات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کی ترقی اور حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ جب کہ ہمارے ہاں الٹ ہو رہا ہے۔ حکومت اول تو توجہ دیتی ہی نہیں اگر دیتی ہے تو بلند بانگ نعروں اور دعوؤں کے سوا کچھ نہیں۔ جن لوگوں کے لیے سیکڑوں ارب روپے کے منصوبوں کا اعلان کیا جاتا ہے اس کے فوائد ان تک پہنچتے ہی نہیں یا نہ ہونے کے برابر پہنچتے ہیں۔ ضلعی تحصیل سطح کے اہلکاروں کی کرپشن اس میں بڑی رکاوٹ ہے تو دوسری طرف سیاسی پسند اور نا پسند آڑے آ جاتی ہے۔ اس طرح اپنوں کو نوازا جاتا ہے غیروں کو دھتکارا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ہیلتھ کارڈ کا اعلان کیا گیا۔ لگا کہ غریبوں کو درپیش صحت کے بیشتر مسائل حل ہو جائیں گے لیکن اسلام آباد سے لوگ بتاتے ہیں کہ جب وہ یہ ہیلتھ کارڈ لے کر اسپتال جاتے ہیں تو انھیں کسی بھی قسم کی سہولت دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے حکمران صرف اعلان ہی نہ کریں بلکہ یہ بھی دیکھیں کہ ان کے احکامات پر کتنا عمل درآمد ہو رہا ہے۔ یہ اعلانات صرف میڈیا تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ اس کے ثمرات غریبوں تک بھی پہنچیں۔
زرعی معاشرے کی سب سے بڑی خامی یہ ہوتی ہے کہ وہ مستقل طور پر عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ سب کچھ قدرت پر منحصر ہوتا ہے۔ وقت پر بارشیں' موافق موسمی حالات ہوں تو کیا ہی بات ہے لیکن اگر تیار شدہ فصل پر بے وقت کی بارش یا اولے پڑ جائیں تو سب کچھ تباہ و برباد۔ ایک مستقل طور پر غیر یقینی کی سی کیفیت رہتی ہے جو ان کی نفسیات اور سوچ پر نہ صرف اثر انداز ہوتی ہے بلکہ اس کی تشکیل کرتی ہے۔
یعنی قدامت پرستی سے محبت اور وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھلنے سے خوفزدہ۔ سائنسی سوچ اپنانے سے ہر ممکن گریز بلکہ اس کے خلاف آخر دم تک مزاحمت کرنا... طویل مدت تک مسلسل مزاحمت کے بعد آخر کار نئی سوچ نئی ایجادات کو باامر مجبوری اپنانا یہاں تک کہ دنیا ان سے کوسوں دور آگے ترقی کر چکی ہوتی ہے۔ زرعی معاشرے قدامت پرستی کے حامل ہوتے ہیں جس سے مذہبی جنونیت پیدا ہوتی ہے جو دہشت گرد گروہ پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں فرد مذہب کے نام پر قانون اپنے ہاتھ میں لے کر معاشرے کے امن و امان کو تباہ کر دیتا ہے۔
صنعتی معاشرے ایک طرف غربت اور جہالت میں کمی لاتے ہیں جو دہشت گردی کی جڑ ہے تو دوسری طرف مذہب کے حوالے سے اعتدال پسندانہ رویہ پیدا کرتے ہیں۔ صنعتی معاشرے میں کار خانے موسمی شدائد سے محفوظ رہتے ہوئے اپنی پیداوار جاری رکھتے ہیں۔ جب کہ زرعی معاشرے سراسر قدرت کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں نتیجے میں ہر طرح کی توہم پرستی کا شکار ہوتے ہوئے ذہنی طور پر پس ماندہ رہ جاتے ہیں۔
یعنی آپ رہ اکیسویں صدی میں رہے ہوتے ہیں لیکن سوچ قرون وسطی کی ہوتی ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ صنعتی معاشرے بھی کبھی زرعی معاشرے تھے تو مذہب کے نام پر ایک دوسرے کو کروڑوں کی تعداد میں قتل کرتے رہے۔ معیشت کا زراعت پر انحصار اور جاگیرداری مذہبی شدت پسندی کو جنم دیتی ہے۔ پاکستان میں بھی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ زراعت پر انحصار کم اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے جس کو سامراجی قوتوں نے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اب تک برقرار رکھا ہوا ہے۔
سرداری نظام ہو یا جاگیرداری یا بادشاہت... یہ اس خون آشام عفریت کے مختلف چہرے ہیں جس کی مرغوب غذا ہزاروں سال سے انسانی خون ہے۔
پاکستانی کرکٹ 2017ء میں اپنے طویل ''نیگٹیو فیز'' سے باہر نکل آئے گی۔
سیل فون:۔0346-4527997