فضیلہ سرکی کہاں ہے

فضیلہ سرکی سمندر میں گری ہوئی سوئی کی طرح گم ہوچکی ہے


حسین مسرت March 28, 2016

ایک یا دو نہیں، دس بیس بھی نہیں، سو پچاس بھی نہیں پوری 3ہزار 250 راتیں اور دن انتظار کی آگ اور بے بسی کے آنسوؤں سے بھیگے شب و روز گزر گئے ہیں اور زندگی کی کربلا میں بھٹکتی، روتی، بلکتی، رُلتی ہوئی سکینہ سرکی کو اپنی بیٹی نہیں ملی۔ 9 سال سے وہ خوش ہونا بھول چکی ہے۔

ماں کے سامنے بچے پرورش پاکر بڑھتے ہیں، جوان ہوتے ہیں لیکن سکینہ وہ ماں ہے جس نے تصور کی آنکھ سے اپنی بیٹی کو بڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ''اب وہ اتنی بڑی ہوگی'' ہاتھ زمین سے اوپر کرکے وہ اس کے قد کا اندازہ کرتی ہے۔ دوسری بچیوں کے کپڑے بناتی ہے اور فضیلہ سرکی کے کپڑوں کا بھی اندازہ کرتی ہے۔

فضیلہ سرکی سمندر میں گری ہوئی سوئی کی طرح گم ہوچکی ہے۔ چھوٹا سا ٹھل کا علاقہ ہے ضلع جیکب آباد میں جہاں سے فضیلہ 6 سال کی عمر میں 23 مارچ 2007 کو اغوا کی گئی۔ ضلع جیکب آباد سندھ کا سرحدی علاقہ ہے جہاں سے بلوچستان کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں، ان علاقوں میں سرداروں کا راج ہے، قبائلی لوگ علاقے کی رسموں کو قانون سے زیادہ معتبر سمجھتے ہیں۔ علاقے کا سردار لوگوں کا ناخدا ہوتا ہے۔

ٹھل کے علاقے میں سرکی سرداروں کا راج ہے، جیکب آباد ٹھل، کندھکوٹ، شکارپور کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں ڈاکو حکومت کرتے ہیں۔ سرداروں کی ذاتی فوج ہوتی ہے، عام لوگ ان کے سامنے سر اٹھا کر بات بھی نہیں کرسکتے، لوگوں کا جینا مرنا، برتنا سب کچھ گروی ہوتا ہے، زندگی کا چھوٹے سے چھوٹا کام اور بڑے سے بڑا کام سردار کی اجازت کے بنا اور اس کے علم میں لائے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔

قبائلی لوگوں کے جھگڑے چاہے زمین کے مسائل پر ہوں یا گھریلو سطح پر، اس کا فیصلہ سردار جرگے کے ذریعے کرتا ہے، کبھی کبھی تو قبائلی جھگڑوں میں سیکڑوں لوگ مارے جاتے ہیں، ان کے قتل کے کروڑوں روپے جرگے کے ذریعے لے کر خون معاف کردیے جاتے ہیں۔ سردار اور ڈاکو دونوں خوف و دہشت کی علامت بنے ہیں۔ لوگ سب کچھ سہتے ہیں اور قانون نام کی کسی چیز کو جانتے ہی نہیں۔ جانیں بھی کیسے۔ ان کے لیے تو ان کا کرتا دھرتا سردار ہی ہوتا ہے، اگر وہ ووٹ بھی دینگے تو اسی سردار کو دینے کے پابند ہوتے ہیں۔

آج کی منتخب اسمبلی میں بھی ان علاقوں کے سردار ہی بیٹھے ہوتے ہیں۔ سکینہ سرکی کو 9 سال ہوچکے ہیں، اس نے کوئی در چھوڑا نہیں۔ بار بار سرداروں کے در پر گئی ہے، احتجاج کیا ہے، علامتی بھوک ہڑتال کی ہے۔ کئی درخواستیں جمع کروائی ہیں لیکن اس کی بیٹی فضیلہ سرکی کا کوئی پتہ نہیں چل سکا۔ علاقے کے لوگ کہتے ہیں کہ فضیلہ کو سرداروں نے اغوا کروایا تھا پھر اس معصوم لڑکی کو اس علاقے کے بدنام ڈاکو کے ہاتھوں بیچ دیا گیا مختلف گروہوں کے ہاتھوں بیچے جانے کے بعد اب ذرایع بتاتے ہیں کہ فضیلہ شکارپور کے کچے کے علاقے میں ہے جوکہ جرائم اور ڈاکوؤں کا گڑھ ہے۔

فضیلہ سرکی کی تلاش کے سلسلے میں جب بھی کوئی پیشرفت ہوتی ہے تو اس علاقے میں پولیس کو آنے ہی نہیں دیا جاتا۔ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جوکہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی دسترس سے دور ہیں۔ 2010 میں سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیا تھا اور پندرہ دن کے اندر فضیلہ کو بازیاب کروانے کا حکم بھی دیا تھا پھر اس کیس کو اینٹی وائلنس کرائم سیل (CAVEC) کو منتقل کردیا گیا۔ باخبر ذرایع بتاتے ہیں کہ جب پولیس نے کچھ مشکوک لوگوں کو گرفتار کیا تو ان کے بیان کے مطابق لڑکی فضیلہ کو بڈھو سرکی ڈاکو کو بیچ دیا گیا تھا اور اس ڈاکو نے ایک آدمی سے فضیلہ کا سودا کر لیا۔ یہ قبیلہ اس علاقے کا بااثر اور سیاسی اثرورسوخ رکھنے والا قبیلہ ہے۔

علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ عام طور پر یہ بات کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اس بچی کا ملنا ناممکن ہے کیوں کہ اب یہ انا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ حاکمیت اور سرداری کے گھمنڈ میں چور لوگ کسی بھی طرح اپنی ہار نہیں چاہیں گے۔ کسی پولیس افسر کو اس علاقے میں گھسنے نہیں دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ اس جاگیرداری نظام میں عورت کی حیثیت کسی بے جان چیز سے بڑھ کر ہے ہی نہیں۔ جیکب آباد، ٹھل، شکارپور اور دوسرے قبائلی علاقے اس وقت جرائم کا گڑھ بنے ہوئے ہیں عورتوں کی خرید و فروخت ایک بہت بڑی انڈسٹری کی صورت اختیار کرچکی ہے۔

معصوم کمسن لڑکیاں نکاح کے نام پر بھی بیچی جارہی ہیں اور اغوا کرکے بھی بیچی جاتی ہیں۔ شکارپور کے علاقے میں بیگار کیمپ بھی موجود ہے، جہاں عورتیں جبری طور پر قید رکھی جاتی ہیں اور پھر ان کی قیمت وصول کی جاتی ہے، انھی علاقوں سے لڑکیاں بلوچستان اور پنجاب بھی اسمگل کی جاتی ہیں۔ان قبائلی رسوم اور روایات کے مطابق تو عورت کو بیچنا اور مارنا کوئی جرم ہے ہی نہیں، اس لاقانونیت کی وجہ سے عام لوگ ملک کے قانون کا احترام نہیں کرتے، ملک کے قانون کو جانتے تک نہیں، وہ صرف علاقے کے سردار کا کہا مانتے ہیں۔

ان کے ذہن غلام بن چکے ہیں۔ اسی جاگیرداری نظام کے طاقتور ہونے کی وجہ سے عورتوں پر ظلم، تشدد، قتل، اغوا، زیادتی، سب کچھ عام ہوچکا ہے۔ آواز اٹھانے والے جتنی بھی کوشش کر لیں اس نظام کی جڑیں مضبوط ہیں۔ جمہوری اقدار اور جمہوریت کی دعویدار ہماری حکومت خود ان کے آگے گھٹنے ٹیکتی جارہی ہے، اسمبلی میں موجود ان علاقوں کے سردار بھی اس نظام کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ کچھ دن پہلے گھوٹکی میں پولیس نے فضیلہ سرکی کی بازیابی کے لیے آپریشن کیا، اس آپریشن کے نتیجے میں دو لڑکیاں بازیاب کی گئیں لیکن فضیلہ کے والدین نے کہا کہ ان میں سے کوئی بھی فضیلہ نہیں ہے۔ اب پولیس پھر بھی DNA ٹیسٹ کے لیے زور دے رہی ہے۔

اس آپریشن کے دوران کچھ بیگناہ لوگ بھی مارے گئے۔ ان علاقوں میں جتنے بھی جرائم کے نیٹ ورک بنے ہوئے ہیں وہ بہت طاقتور ہیں کیونکہ سب نیٹ ورک ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے چھوٹا جرائم پیشہ بندہ بھی کسی نہ کسی بڑے صاحب حیثیت سردار، زمیندار یا جاگیردار کا ووٹر ہے جو عادی جرائم پیشہ ہیں وہ ڈاکوؤں کے گروہوں کا حصہ ہیں، ان ڈاکوؤں کے سرپرست اعلیٰ بھی سبھی بااثر ہیں۔

اب یہ سردار سیاسی پارٹیوں میں بھی شمولیت رکھتے ہیں، ان کی مرضی کے بغیر ان کے علاقے میں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ قبائلی علاقوں کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر کسی سردار نے یا کسی بھی شخص نے کسی کے سر پر ہاتھ رکھ لیا، کسی سے حفاظت کا وعدہ کرلیا تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس سے اس شخص کو نہیں چھین سکتی، قبائلی روایات کے مطابق جان کی بازی لگاکر اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ عورتوں کے لیے بھی ان کے قانون اور روایات بہت ظالم اور انسانی حقوق کی نفی کرنیوالے ہیں۔

عورتوں کے معاملے میں یہ قبائلی ملک کے کسی بھی قانون کو نہیں مانتے۔ مارنا، جان سے مارنا، کاری کرکے مارنا، بیچنا، کم عمری میں شادی کرنا، یہ سب ان کی نظر میں جرم ہی نہیں۔ عورت کیونکہ اپنی ملکیت سمجھی جاتی ہے، ایک غلام کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے بیچنا اور خریدنا مرد اپنا حق سمجھتا ہے۔ شادی کے بعد بھی مرد عورت پر ہاتھ اٹھانا اپنا حق سمجھتا ہے، ہزاروں عورتیں بے موت ماری جارہی ہیں۔

ہزاروں عورتیں اس جاگیرداری نظام کے ہاتھوں میں پستی جارہی ہیں اور ریاست جس کا پہلا فرض تحفظ فراہم کرنا ہے، وہ اپنے پہلے فرض کی بجا آوری میں بھی ناکام ہوتی جارہی ہے۔ ریاست کے اندر کئی متبادل ریاستیں کامیابی اور مضبوطی سے اپنا کام کررہی ہیں اور مجبور عوام اس نظام میں یرغمال بن چکے ہیں۔ نجات کا راستہ کہیں ہے ہی نہیں۔

اگر ریاست چاہے تو فضیلہ سرکی بازیاب ہوسکتی ہے، قانون سب کے لیے ہے۔ دہشت و ظلم کے نیٹ ورک ختم کرنے کا بھی ایک نظام ہونا چاہیے۔ سکینہ اور عبدالرزاق اپنے اپنے علاقے کے رسوم و روایات کو جانتے ہیں، اپنی معصوم بیٹی کی بازیابی کے لیے وہ 9 سال سے مسلسل سندھ کی شاہراہوں پر بھٹکتے چلے جارہے ہیں، امید کی شمعیں روشن ہیں، کوئی ظلم، کوئی اندھیرا ہمیشہ تو نہیں رہتا، اب بال ریاست کی کورٹ میں ہے، انصاف کی منتظر سکینہ سرکی، فضیلہ سرکی کی بازیابی کی منتظر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں