پشاور میں ایک اور شاہراہ ورسک
اس کے علاوہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ ایک اور مقام بھی مچنی پوسٹ کے نام سے مشہور ہے
تاریخی شہر پشاور کو متعدد عوامل کی بنا پر انفرادیت حاصل رہی ہے جو اسے دیگر ہم عصر شہروں کی صف میں نمایاں حیثیت کا حامل بنانے میں محرک بنتے ہیں، حالیہ ادوار میں اس شہر سے متصل ورسک روڈ کو اس کے اطراف میںقائم تعلیمی اداروں اور ان میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی تعداد کے اعتبار سے عالمی سطح پر منفرد مقام حاصل ہو گیا ہے۔
دنیا بھر میں شائد ہی ایسا علاقہ ہو جہاں اس قدر محدود رقبے میں اتنی بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے اور ان میں بچے اور بچیاںزیر تعلیم ہوں، پشاور چھاونی سے شمال مغرب میں خیبر روڈ سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ ورسک اور مچنی کے مقامات پر قبائلی علاقوں میں داخل ہوتی ہے۔چنانچہ اسی بنا پراسے ورسک روڈ سے موسوم کیا گیا ہے اور خیبر روڈ پر جس مقام سے اس کا آغاز ہوتا ہے وہ مچنی پوسٹ کے نام سے موسوم ہے،تقریباً تیس کلو میٹر طویل اس شاہراہ کو ما ضی میں اس وقت قومی اور عالمی سطح پر شہرت حا صل ہو ئی جب، ورسک کے مقام پر دریا ئے کابل پر ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا،مچنی گا ؤں، دریائے سوات اور دریائے کابل کے سنگم کے قریب واقع ہے جو خوبصورتی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔
اس کے علاوہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ ایک اور مقام بھی مچنی پوسٹ کے نام سے مشہور ہے، بہر طور ایک طویل عرصے تک ورسک روڈ محض قبائلی علاقہ جات کی مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں کے ساتھ ایک عمومی متبادل راستے کے طور پر استعمال کی جا تی رہی ہے۔پشاور شہر سے متصل محض تین کلو میٹر کے حصے میں تین درجن سے زائد بڑے بڑے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جہاں شہر بھر سے بچے روزانہ حصول علم کے لیے آتے ہیں۔انتہائی محدود علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں تعلیمی اداروں کا وجود دنیا بھر میں غیر معمولی خاصیت گردانی جاتی ہے۔صبح اور سہ پہر کے اوقات میں اس شاہراہ پر ٹریفک کا اژدھام دیدنی ہو تا ہے۔
آرمی پبلک اسکول بھی جہاں 16 دسمبر2014 کو دھشت گردوں کے ایک گروہ نے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی ناپاک جسارت کی تھی، اسی شاہراہ سے متصل واقع ہے۔اب تو ورسک کے مقام پر فرنٹیئر کور کے زیر اہتمام ایک شاندار کیڈٹ کالج بھی بھرپور انداز سے سرگرم عمل ہے جب کہ مچنی سے متصل فاٹا کا پہلا صنعتی علاقہ ، مہمند ماربل سٹی قائم ہے۔ بڑی تعداد میں ماربل کے کارخانے اور شو رومز بھی اس شاہراہ کے کنارے مو جود ہیں جن میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے،ان حقائق کے تناظر میں 1980 کی دہائی کے اواخر اور 1990 کے مکمل عشرے کے دوران نہ صرف ورسک روڈ بلکہ پشاور چھاؤنی کی خیبر روڈ پربھی ٹریفک کا رش جان گسل حد تک بڑھ گیا تھا۔
لہٰذا ان دونوں شاہراؤں کی تعمیر و توسیع کے لیے عوامی مطالبات آئے روز اخبارات کی زینت بنتے۔ اکیسویں صدی کا آغاز اس حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت کا حامل ثابت ہوا۔گو کہ اس شاہراہ کی تعمیر و توسیع، شہری ترقی کے حوالے سے اس وقت کی حکومت کی ایک بڑی کامیابی تصور ہوتی ہے، تاہم بعد میں آنیوالی حکومتوںنے بھی نہ صرف مرکزی شاہراہ بلکہ اس کے دائیں بائیں نکلنے اور ملنے والی سڑکوں کی تعمیر نو و تو سیع کا سلسلہ جا ری رکھا، ان تمام تر کاوشوں کے با وجود آج بھی اس شاہراہ کا شما ر پشاور کے چند ایک مصروف ترین علاقوں میں ہو تا ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران شہری آبادی میں روز افزوں اضافے کے پیش نظر ہر جانب ایک نئی شاہراہ ورسک بنتی دکھا ئی دیتی ہے، اس ضمن میں نمایاں نام دلہ زاک روڈ کا آتا ہے جو ایک جانب ھشتنگری اور دوسری طرف باچا خان چوک سے شروع ہو کر رنگ روڈ اور ناردرن بائی پاس سے ہو تی ہو ئی دریائے کابل سے متصل واقع علاقوں میاںگجر اوردیگر کئی دیہات کو شہر سے ملا تی ہے۔
یہی نہیں بلکہ دریائے کابل کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ آگے چل کر سر دریاب کے مقام پر ، پشاور، چارسدہ روڈ سے جا ملتی ہے جو خا ص طور پرموسم گرما کے دوران تفریح کے لیے بے پناہ شہرت کا حامل علاقہ ہے ۔پشاور رنگ روڈ سے متصل دلہ زاک روڈ کے حصے کے اطراف جس تیزی کے ساتھ نئے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آرہا ہے اور آچکا ہے، اس لحاظ سے اسے مکمل طور پر ورسک روڈ کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک عام پرائمری اسکول سے لے کر یونیورسٹی سطح کے ایک درجن سے زائد تعلیمی ادارے محض چند برسوں میںاس شاہراہ پرسر گرم عمل ہیں جو ہر لحاظ سے ورسک روڈ کی تصویر کشی کرتے ہیں۔لا محالہ اس علاقے میں شہری آبادی میں روز افزوں اضافہ بھی ایک فطری امر ہے جو خاطر خواہ حد تک پشاور شہر کا توسیعی علاقہ بن چکا ہے۔
چنانچہ قابل توجہ پہلو اس شاہراہ پر بڑھتا ہوا ٹریفک کا رش اور اطراف میںنئی تعمیرات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔انھی حقائق کے پیش نظر اس شاہراہ پرٹریفک کا بے پناہ رش آئے روز حادثات اور عوام کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے۔شاہراؤں کی تعمیر نو اور توسیع کے لیے بر وقت اقدامات بلاشبہ دیرپا بنیادوں پر وسائل کے درست استعمال کے لیے پیش خیمہ ثابت ہو تے ہیں اور یوں حکومتی خزانہ مستقبل میںاس بھا ری بوجھ سے محفوظ رہتا ہے جو عمومی طور پر اس نو ع کے منصوبوںکے ضمن میں درپیش ہوتا ہے۔
اس امر میں کو ئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ پشاور رنگ روڈ کی تعمیر نو و توسیع کے منصوبے کی تکمیل موجودہ صو با ئی حکومت کا ایک قابل ذکر کارنامہ ہے تاہم یہ کامیابی نئی تعمیرات میں یک لخت بے پناہ اضافے کی صورت میں مختلف النوع نوعیت کے نئے چیلنجوں کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔
جن میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں نکاسی آب کے نظام کی ترقی اور سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر و تو سیع سر فہرست ہیں۔معروضی حقائق کی روشنی میں پشاور شہر سے متصل تمام علاقے خا ص طور پر ورسک روڈ ، چارسدہ روڈ، دلہ زاک روڈ، کوہاٹ روڈ، باڑہ روڈ اور خصو صا رنگ روڈ اور ناردرن بائی پاس سے متصل علاقے ہنگامی بنیادوں پر دیر پا حکمت عملی اختیار کرنے کے متقاضی محسوس ہو تے ہیں۔
ان حقائق کے تنا ظر میں خیبر پختون خوا کے علاقہ جات، گلیات میں املاک کے ریکارڈ، تجارتی و سرکاری اثاثہ جات، تعمیر و ترقی اور خوبصورتی کے حوالے سے اقدامات کی کمپیوٹرائزیشن کی خبر یقیناً ایک خوش آیند پیش رفت محسوس ہو تی ہے۔سیر و سیاحت کے لیے مشہور یہ علاقے صوبے کا گرمائی دارالحکومت بھی تصور کیے جا تے ہیں۔
گو کہ اراضی کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے دعوے ماضی میں بھی سنے جا تے رہے اور اس حوالے سے مو جو دہ حکومت کی خواہشات بھی وقتاً فوقتاً سا منے آتی رہی ہیں، لیکن جس ٹھوس انداز سے گلیات کی املاک کے ریکارڈ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ضمن میں کامیابی کے دعوے ذرایع ابلاغ کے ذریعے سا منے آئے ہیں، وہ منفرد ہے،اس طرح کی اسکیم کے اجراء کے حوالے سے بلا شبہ پشاور سب سے زیادہ مستحق ہے۔
دنیا بھر میں شائد ہی ایسا علاقہ ہو جہاں اس قدر محدود رقبے میں اتنی بڑی تعداد میں تعلیمی ادارے اور ان میں بچے اور بچیاںزیر تعلیم ہوں، پشاور چھاونی سے شمال مغرب میں خیبر روڈ سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ ورسک اور مچنی کے مقامات پر قبائلی علاقوں میں داخل ہوتی ہے۔چنانچہ اسی بنا پراسے ورسک روڈ سے موسوم کیا گیا ہے اور خیبر روڈ پر جس مقام سے اس کا آغاز ہوتا ہے وہ مچنی پوسٹ کے نام سے موسوم ہے،تقریباً تیس کلو میٹر طویل اس شاہراہ کو ما ضی میں اس وقت قومی اور عالمی سطح پر شہرت حا صل ہو ئی جب، ورسک کے مقام پر دریا ئے کابل پر ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا،مچنی گا ؤں، دریائے سوات اور دریائے کابل کے سنگم کے قریب واقع ہے جو خوبصورتی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔
اس کے علاوہ پاک افغان سرحد سے ملحقہ ایک اور مقام بھی مچنی پوسٹ کے نام سے مشہور ہے، بہر طور ایک طویل عرصے تک ورسک روڈ محض قبائلی علاقہ جات کی مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں کے ساتھ ایک عمومی متبادل راستے کے طور پر استعمال کی جا تی رہی ہے۔پشاور شہر سے متصل محض تین کلو میٹر کے حصے میں تین درجن سے زائد بڑے بڑے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جہاں شہر بھر سے بچے روزانہ حصول علم کے لیے آتے ہیں۔انتہائی محدود علاقے میں اتنی بڑی تعداد میں تعلیمی اداروں کا وجود دنیا بھر میں غیر معمولی خاصیت گردانی جاتی ہے۔صبح اور سہ پہر کے اوقات میں اس شاہراہ پر ٹریفک کا اژدھام دیدنی ہو تا ہے۔
آرمی پبلک اسکول بھی جہاں 16 دسمبر2014 کو دھشت گردوں کے ایک گروہ نے معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلنے کی ناپاک جسارت کی تھی، اسی شاہراہ سے متصل واقع ہے۔اب تو ورسک کے مقام پر فرنٹیئر کور کے زیر اہتمام ایک شاندار کیڈٹ کالج بھی بھرپور انداز سے سرگرم عمل ہے جب کہ مچنی سے متصل فاٹا کا پہلا صنعتی علاقہ ، مہمند ماربل سٹی قائم ہے۔ بڑی تعداد میں ماربل کے کارخانے اور شو رومز بھی اس شاہراہ کے کنارے مو جود ہیں جن میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے،ان حقائق کے تناظر میں 1980 کی دہائی کے اواخر اور 1990 کے مکمل عشرے کے دوران نہ صرف ورسک روڈ بلکہ پشاور چھاؤنی کی خیبر روڈ پربھی ٹریفک کا رش جان گسل حد تک بڑھ گیا تھا۔
لہٰذا ان دونوں شاہراؤں کی تعمیر و توسیع کے لیے عوامی مطالبات آئے روز اخبارات کی زینت بنتے۔ اکیسویں صدی کا آغاز اس حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت کا حامل ثابت ہوا۔گو کہ اس شاہراہ کی تعمیر و توسیع، شہری ترقی کے حوالے سے اس وقت کی حکومت کی ایک بڑی کامیابی تصور ہوتی ہے، تاہم بعد میں آنیوالی حکومتوںنے بھی نہ صرف مرکزی شاہراہ بلکہ اس کے دائیں بائیں نکلنے اور ملنے والی سڑکوں کی تعمیر نو و تو سیع کا سلسلہ جا ری رکھا، ان تمام تر کاوشوں کے با وجود آج بھی اس شاہراہ کا شما ر پشاور کے چند ایک مصروف ترین علاقوں میں ہو تا ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران شہری آبادی میں روز افزوں اضافے کے پیش نظر ہر جانب ایک نئی شاہراہ ورسک بنتی دکھا ئی دیتی ہے، اس ضمن میں نمایاں نام دلہ زاک روڈ کا آتا ہے جو ایک جانب ھشتنگری اور دوسری طرف باچا خان چوک سے شروع ہو کر رنگ روڈ اور ناردرن بائی پاس سے ہو تی ہو ئی دریائے کابل سے متصل واقع علاقوں میاںگجر اوردیگر کئی دیہات کو شہر سے ملا تی ہے۔
یہی نہیں بلکہ دریائے کابل کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ آگے چل کر سر دریاب کے مقام پر ، پشاور، چارسدہ روڈ سے جا ملتی ہے جو خا ص طور پرموسم گرما کے دوران تفریح کے لیے بے پناہ شہرت کا حامل علاقہ ہے ۔پشاور رنگ روڈ سے متصل دلہ زاک روڈ کے حصے کے اطراف جس تیزی کے ساتھ نئے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آرہا ہے اور آچکا ہے، اس لحاظ سے اسے مکمل طور پر ورسک روڈ کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک عام پرائمری اسکول سے لے کر یونیورسٹی سطح کے ایک درجن سے زائد تعلیمی ادارے محض چند برسوں میںاس شاہراہ پرسر گرم عمل ہیں جو ہر لحاظ سے ورسک روڈ کی تصویر کشی کرتے ہیں۔لا محالہ اس علاقے میں شہری آبادی میں روز افزوں اضافہ بھی ایک فطری امر ہے جو خاطر خواہ حد تک پشاور شہر کا توسیعی علاقہ بن چکا ہے۔
چنانچہ قابل توجہ پہلو اس شاہراہ پر بڑھتا ہوا ٹریفک کا رش اور اطراف میںنئی تعمیرات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔انھی حقائق کے پیش نظر اس شاہراہ پرٹریفک کا بے پناہ رش آئے روز حادثات اور عوام کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے۔شاہراؤں کی تعمیر نو اور توسیع کے لیے بر وقت اقدامات بلاشبہ دیرپا بنیادوں پر وسائل کے درست استعمال کے لیے پیش خیمہ ثابت ہو تے ہیں اور یوں حکومتی خزانہ مستقبل میںاس بھا ری بوجھ سے محفوظ رہتا ہے جو عمومی طور پر اس نو ع کے منصوبوںکے ضمن میں درپیش ہوتا ہے۔
اس امر میں کو ئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ پشاور رنگ روڈ کی تعمیر نو و توسیع کے منصوبے کی تکمیل موجودہ صو با ئی حکومت کا ایک قابل ذکر کارنامہ ہے تاہم یہ کامیابی نئی تعمیرات میں یک لخت بے پناہ اضافے کی صورت میں مختلف النوع نوعیت کے نئے چیلنجوں کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔
جن میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں نکاسی آب کے نظام کی ترقی اور سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر و تو سیع سر فہرست ہیں۔معروضی حقائق کی روشنی میں پشاور شہر سے متصل تمام علاقے خا ص طور پر ورسک روڈ ، چارسدہ روڈ، دلہ زاک روڈ، کوہاٹ روڈ، باڑہ روڈ اور خصو صا رنگ روڈ اور ناردرن بائی پاس سے متصل علاقے ہنگامی بنیادوں پر دیر پا حکمت عملی اختیار کرنے کے متقاضی محسوس ہو تے ہیں۔
ان حقائق کے تنا ظر میں خیبر پختون خوا کے علاقہ جات، گلیات میں املاک کے ریکارڈ، تجارتی و سرکاری اثاثہ جات، تعمیر و ترقی اور خوبصورتی کے حوالے سے اقدامات کی کمپیوٹرائزیشن کی خبر یقیناً ایک خوش آیند پیش رفت محسوس ہو تی ہے۔سیر و سیاحت کے لیے مشہور یہ علاقے صوبے کا گرمائی دارالحکومت بھی تصور کیے جا تے ہیں۔
گو کہ اراضی کے ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کے دعوے ماضی میں بھی سنے جا تے رہے اور اس حوالے سے مو جو دہ حکومت کی خواہشات بھی وقتاً فوقتاً سا منے آتی رہی ہیں، لیکن جس ٹھوس انداز سے گلیات کی املاک کے ریکارڈ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے ضمن میں کامیابی کے دعوے ذرایع ابلاغ کے ذریعے سا منے آئے ہیں، وہ منفرد ہے،اس طرح کی اسکیم کے اجراء کے حوالے سے بلا شبہ پشاور سب سے زیادہ مستحق ہے۔