رجحانات بچوں کے۔۔۔ انہیں اعتماد کی راہ پر گامزن کیجیے
چھو ٹے بچے اپنی پسندکا اظہار اپنی ڈرائنگ، کھلونوں اور دیگر افعال سے کر تے رہتے ہیں
ماؤں کو اللہ نے ایسی حس سے نوازا ہے کہ وہ نومولود بچے کی ہر بات اس کے رونے، ہنسنے، سونے، جاگنے سے بھی سمجھ لیتی ہے، خاص طور پر اس کی ہر تکلیف، درد اور خوشی کو فوراً ہی پہچان سکتی ہے۔ یہ مائیں ہی ہوتی ہیں، جو اپنے بچے میں پوشیدہ اس کے ہنر، قابلیت اور صلاحیتوں کے ساتھ اس کی کمزوریوں سے بھی بہ آسانی آگاہ ہوسکتی ہیں۔ ضرورت صرف حقیقت پسندی سے توجہ دینے کی ہوتی ہے۔
چھو ٹے بچے اپنی پسندکا اظہار اپنی ڈرائنگ، کھلونوں اور دیگر افعال سے کر تے رہتے ہیں، جیسے کسی بچے کو ٹیچر بننے کا شوق ہے، تو وہ ایک تصوراتی استاد کا روپ لے کر اپنے بہن بھائیوں اور ہم جولیوں کو اپنا شاگرد تصور کرلے گا اور پھر انہیں پڑھانے کی نقل کرے گا۔ اگر کسی بچے کو میوزک اچھا لگتا ہے، تو اس کے انتخاب میں ایسے ہی کھلونے ہوں گے۔
جن کا تعلق موسیقی سے ہو مثلا پیانو، گٹار اور ڈرم وغیرہ۔ اگر کسی بچے کو کوکنگ کا شوق ہے، تو ماں کے ساتھ روٹی بیلنے کی کوشش کرتا ہے، کچھ بچے اپنی تصوراتی دنیا میں کھو کر اپنے آپ کو ڈاکٹر تصور کر تے ہیں۔ کچھ ذرا بڑے ہوتے ہیں، تو وکیل بننے کا سپنا سجاتے ہیں، تو کچھ پائلٹ۔ کہتے ہیں کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔ بس آپ کو ان کی خو شی، رجحان اور ان کی بہتری مدنظر رکھتے ہو ئے اُن کی راہ نمائی کرنا ضروری ہے۔
ماؤں کو بچے کے رجحان سے آگاہ ہونا ضروری ہے، کیوں کہ وہی بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہے۔ انہیں اپنی خواہشات پر بچوں کی خوشی اور خواہش کو فوقیت دینی چاہیے، کیوں کہ آپ کسی کو زور زبردستی سے کسی کشتی میں تو بٹھا سکتی ہیں، لیکن اس سے وہ ناؤ اچھی طرح چلوا نہیں سکتے۔ جن بچوں کو ان کی مر ضی اور صلاحیتوں کے برعکس زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے، وہ ایک مشکل زندگی گزارتے ہیں اور اگر ناکام نہ بھی ہوں، تو کام یاب زندگی نہیں گزار پاتے اور ان بچوں کی کشتی عموماً بیچ منجدھار میں پھنس جاتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ آپ بچے کو خود رو پودے کی طرح چھوڑ دیں، بلکہ اسے زندگی میں آگے بڑ ھنے کا حوصلہ دیتے ہوئے، کسی بھی کام یا صلاحیت کے استعمال میں اچھی اور بری ہر بات سے آگاہ کریں۔ اس طرح بچے کو آپ کی دل چسپی کا احساس رہے گا۔ اس طرح اس میں خود اعتمادی سے اپنے فیصلے کر نے کی صلاحیت آئے گی، جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کی معاون ہوگی۔ اس بچے کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو کام وہ کرنے والا ہے۔ اس سے اسے کیا فائدہ ہوگا اور کیا نقصان۔ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ نیکی کے کام کر نے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے اور برے کام سے کیوں باز رہنا چاہیے۔
بچے کو صرف جھڑک کر بغیر کسی وجہ بتائے انکار کر دینا، اس میں ضد اور غصے کو پروان چڑھانے میں مدد دیتا ہے، اس لیے ہمیشہ پیار اور دلیل سے اپنی بات پر قائل کریں۔ اس طرح اگلی بار بچہ آپ کی بات کی اہمیت کو بھی سمجھے گا اور ذہنی طور پر بھی مطمئن رہے گا۔ اس طرح اسے بچپن سے اچھے اور برے کی پہچان کرائیں۔ جیسے آگ خطرناک ہے، تو اسے سمجھائیں کہ یہ کس وجہ سے خطرناک ہے، تاکہ وہ خود اس سے دور رہے، اسی طرح بچے اگر کسی کھلونے یا چیز کی فرمائش کریں اور آپ کو وہ نامناسب معلوم ہو، تو انہیں سمجھائیں کہ اس چیز سے آپ کو یہ نقصان ہوگا اس کی جگہ آپ یہ دوسری چیز لیں گے، تو اس سے آپ کو یہ نئی بات سیکھنے کو ملے گی اور اگر وہ پھر بھی اپنی بات پر بضد ہوں، تو صرف ایک بار ان کی اس فرمائش کو، جو کم نقصان دہ ہو، پورا کر دیں، بعد میں انہیں دوبارہ پیار سے سمجھائیں کہ اگر آپ نے ہماری بات مان لی ہو تی، تو یہ کتنا اچھا ہوتا۔
کم عمری سے ہی بچوں کو دوسروں سے ملنے اور بات کرنے کے آداب سکھائیں اور اپنے ملنے جلنے والوں کا ایک حلقہ بناتے ہوئے، انہیں لوگوں سے میل جول اور برتاؤ کے طریقے بتائیں۔ اس طرح ان میں سے جھجک ختم ہوگی، اعتماد بڑھے گا اور وہ کسی سے بات کرتے ہوئے گھبرائیں گے نہیں۔ آپ کے سامنے کسی اجنبی سے بات کرتے ہوئے انہیں یہ اندازہ بھی ہوگا کہ اس نے کیا غلطی کی، کسی سے کس طرح بات کرنی چاہیے اور کیسے نہیں۔
یہ ایک بہت اہم عمل ہے، کیوں کہ معذرت کے ساتھ بعض اوقات کئی بڑے بھی بچوں سے بات کرنے میں زیادتی کر جاتے ہیں یا الفاظ کا مناسب استعمال نہیں کر پاتے۔ شاید اس لیے کہ انہیں بچپن سے سکھایا ہی نہیں گیا ہوتا، یا وہ اس کے عادی نہیں ہوتے، اسی طرح چار لوگوں کے درمیان کیسے بیٹھنا ہے۔ اس بات کی بھی تربیت دینا ضروری ہے۔
انہیں دوسروں کے سامنے کوئی دعا، نظم، کہانی، حکایت یا لطیفہ وغیرہ جو اسے یاد ہو، سنانے کو کہیں اور اسے سراہیں۔ یہ عمل اسے خود اعتمادی بخشے گا۔ اس عمل کے ذریعے وہ بچہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لاتے ہوئے کبھی ہچکچا ئے گا نہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ کبھی بچے کی کسی ناکامی یا کمزوری کو دنیا کے سامنے برے الفاظ میں سامنے نہ لائیں۔ اس سے اس بچے میں احساس کم تری بڑھ جائے گا اور وہ کبھی اپنی اس کم زوری پر قابو نہیں کر پائے گا۔ بچے میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے اس سے والدین کی دوستی ہونا بے انتہا ضروری ہے، تب ہی وہ اپنے دل کی بات آپ سے کہہ پائے گا اور آپ اسے صحیح اور غلط میں فرق بتا پائیں گی۔
بچہ اگر کبھی آپ کو اپنی کی ہوئی غلطی بتائے، جیسے کسی دوسرے بچے کی کوئی چیز اٹھا کر رکھ لینا۔ مثلا پینسل، شاپنر، ربڑ یا کوئی کتاب وغیرہ جو عموماً بچے کوئی بری بات نہیں سمجھتے اور شرارتاً ایسا کرتے ہیں، تو اسے پیار سے سمجھائیں کہ یہ بہت بری بات ہے، ہم آپ کو ہر چیز دلوا دیتے ہیں۔ اس طرح بلا اجازت کسی کی چیز کو ہاتھ لگانا بھی غلط ہے۔ اس لیے کل آپ اس بچے کو یہ چیز واپس دیں اور اس سے سوری کریں۔ اس معذرت سے اسے احساس ہوگا کہ یہ کام کتنا غلط ہے اور آیندہ ایسا نہیں کرنا۔
بطور ماں اگر آپ اس سے دوطرفہ گفتگو کے سلسلے کو دراز نہیں کریں گی، تو اس سے ایک طرف تو اس کے رجحانات سے اچھی طرح واقف نہ ہوں گی، دوسرا یہ کہ اس کے معمولات اور خرابیوں سے آگاہی بھی بروقت نہیں ہوگی، جس سے ان خرابیوں میں اضافے کا اندیشہ ہوگا۔
چھو ٹے بچے اپنی پسندکا اظہار اپنی ڈرائنگ، کھلونوں اور دیگر افعال سے کر تے رہتے ہیں، جیسے کسی بچے کو ٹیچر بننے کا شوق ہے، تو وہ ایک تصوراتی استاد کا روپ لے کر اپنے بہن بھائیوں اور ہم جولیوں کو اپنا شاگرد تصور کرلے گا اور پھر انہیں پڑھانے کی نقل کرے گا۔ اگر کسی بچے کو میوزک اچھا لگتا ہے، تو اس کے انتخاب میں ایسے ہی کھلونے ہوں گے۔
جن کا تعلق موسیقی سے ہو مثلا پیانو، گٹار اور ڈرم وغیرہ۔ اگر کسی بچے کو کوکنگ کا شوق ہے، تو ماں کے ساتھ روٹی بیلنے کی کوشش کرتا ہے، کچھ بچے اپنی تصوراتی دنیا میں کھو کر اپنے آپ کو ڈاکٹر تصور کر تے ہیں۔ کچھ ذرا بڑے ہوتے ہیں، تو وکیل بننے کا سپنا سجاتے ہیں، تو کچھ پائلٹ۔ کہتے ہیں کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔ بس آپ کو ان کی خو شی، رجحان اور ان کی بہتری مدنظر رکھتے ہو ئے اُن کی راہ نمائی کرنا ضروری ہے۔
ماؤں کو بچے کے رجحان سے آگاہ ہونا ضروری ہے، کیوں کہ وہی بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہے۔ انہیں اپنی خواہشات پر بچوں کی خوشی اور خواہش کو فوقیت دینی چاہیے، کیوں کہ آپ کسی کو زور زبردستی سے کسی کشتی میں تو بٹھا سکتی ہیں، لیکن اس سے وہ ناؤ اچھی طرح چلوا نہیں سکتے۔ جن بچوں کو ان کی مر ضی اور صلاحیتوں کے برعکس زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے، وہ ایک مشکل زندگی گزارتے ہیں اور اگر ناکام نہ بھی ہوں، تو کام یاب زندگی نہیں گزار پاتے اور ان بچوں کی کشتی عموماً بیچ منجدھار میں پھنس جاتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ آپ بچے کو خود رو پودے کی طرح چھوڑ دیں، بلکہ اسے زندگی میں آگے بڑ ھنے کا حوصلہ دیتے ہوئے، کسی بھی کام یا صلاحیت کے استعمال میں اچھی اور بری ہر بات سے آگاہ کریں۔ اس طرح بچے کو آپ کی دل چسپی کا احساس رہے گا۔ اس طرح اس میں خود اعتمادی سے اپنے فیصلے کر نے کی صلاحیت آئے گی، جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کی معاون ہوگی۔ اس بچے کو معلوم ہونا چاہیے کہ جو کام وہ کرنے والا ہے۔ اس سے اسے کیا فائدہ ہوگا اور کیا نقصان۔ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ نیکی کے کام کر نے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے اور برے کام سے کیوں باز رہنا چاہیے۔
بچے کو صرف جھڑک کر بغیر کسی وجہ بتائے انکار کر دینا، اس میں ضد اور غصے کو پروان چڑھانے میں مدد دیتا ہے، اس لیے ہمیشہ پیار اور دلیل سے اپنی بات پر قائل کریں۔ اس طرح اگلی بار بچہ آپ کی بات کی اہمیت کو بھی سمجھے گا اور ذہنی طور پر بھی مطمئن رہے گا۔ اس طرح اسے بچپن سے اچھے اور برے کی پہچان کرائیں۔ جیسے آگ خطرناک ہے، تو اسے سمجھائیں کہ یہ کس وجہ سے خطرناک ہے، تاکہ وہ خود اس سے دور رہے، اسی طرح بچے اگر کسی کھلونے یا چیز کی فرمائش کریں اور آپ کو وہ نامناسب معلوم ہو، تو انہیں سمجھائیں کہ اس چیز سے آپ کو یہ نقصان ہوگا اس کی جگہ آپ یہ دوسری چیز لیں گے، تو اس سے آپ کو یہ نئی بات سیکھنے کو ملے گی اور اگر وہ پھر بھی اپنی بات پر بضد ہوں، تو صرف ایک بار ان کی اس فرمائش کو، جو کم نقصان دہ ہو، پورا کر دیں، بعد میں انہیں دوبارہ پیار سے سمجھائیں کہ اگر آپ نے ہماری بات مان لی ہو تی، تو یہ کتنا اچھا ہوتا۔
کم عمری سے ہی بچوں کو دوسروں سے ملنے اور بات کرنے کے آداب سکھائیں اور اپنے ملنے جلنے والوں کا ایک حلقہ بناتے ہوئے، انہیں لوگوں سے میل جول اور برتاؤ کے طریقے بتائیں۔ اس طرح ان میں سے جھجک ختم ہوگی، اعتماد بڑھے گا اور وہ کسی سے بات کرتے ہوئے گھبرائیں گے نہیں۔ آپ کے سامنے کسی اجنبی سے بات کرتے ہوئے انہیں یہ اندازہ بھی ہوگا کہ اس نے کیا غلطی کی، کسی سے کس طرح بات کرنی چاہیے اور کیسے نہیں۔
یہ ایک بہت اہم عمل ہے، کیوں کہ معذرت کے ساتھ بعض اوقات کئی بڑے بھی بچوں سے بات کرنے میں زیادتی کر جاتے ہیں یا الفاظ کا مناسب استعمال نہیں کر پاتے۔ شاید اس لیے کہ انہیں بچپن سے سکھایا ہی نہیں گیا ہوتا، یا وہ اس کے عادی نہیں ہوتے، اسی طرح چار لوگوں کے درمیان کیسے بیٹھنا ہے۔ اس بات کی بھی تربیت دینا ضروری ہے۔
انہیں دوسروں کے سامنے کوئی دعا، نظم، کہانی، حکایت یا لطیفہ وغیرہ جو اسے یاد ہو، سنانے کو کہیں اور اسے سراہیں۔ یہ عمل اسے خود اعتمادی بخشے گا۔ اس عمل کے ذریعے وہ بچہ اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لاتے ہوئے کبھی ہچکچا ئے گا نہیں۔
یہ بات بھی یاد رکھیں کہ کبھی بچے کی کسی ناکامی یا کمزوری کو دنیا کے سامنے برے الفاظ میں سامنے نہ لائیں۔ اس سے اس بچے میں احساس کم تری بڑھ جائے گا اور وہ کبھی اپنی اس کم زوری پر قابو نہیں کر پائے گا۔ بچے میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے اس سے والدین کی دوستی ہونا بے انتہا ضروری ہے، تب ہی وہ اپنے دل کی بات آپ سے کہہ پائے گا اور آپ اسے صحیح اور غلط میں فرق بتا پائیں گی۔
بچہ اگر کبھی آپ کو اپنی کی ہوئی غلطی بتائے، جیسے کسی دوسرے بچے کی کوئی چیز اٹھا کر رکھ لینا۔ مثلا پینسل، شاپنر، ربڑ یا کوئی کتاب وغیرہ جو عموماً بچے کوئی بری بات نہیں سمجھتے اور شرارتاً ایسا کرتے ہیں، تو اسے پیار سے سمجھائیں کہ یہ بہت بری بات ہے، ہم آپ کو ہر چیز دلوا دیتے ہیں۔ اس طرح بلا اجازت کسی کی چیز کو ہاتھ لگانا بھی غلط ہے۔ اس لیے کل آپ اس بچے کو یہ چیز واپس دیں اور اس سے سوری کریں۔ اس معذرت سے اسے احساس ہوگا کہ یہ کام کتنا غلط ہے اور آیندہ ایسا نہیں کرنا۔
بطور ماں اگر آپ اس سے دوطرفہ گفتگو کے سلسلے کو دراز نہیں کریں گی، تو اس سے ایک طرف تو اس کے رجحانات سے اچھی طرح واقف نہ ہوں گی، دوسرا یہ کہ اس کے معمولات اور خرابیوں سے آگاہی بھی بروقت نہیں ہوگی، جس سے ان خرابیوں میں اضافے کا اندیشہ ہوگا۔