کراچی پولیس نے دہشت گردوں کیخلاف لڑنے سے انکار کر دیا

وسائل نہیں ہیں، جدید اسلحہ، بکتربند گاڑیاںاور بلٹ پروف جیکٹس فراہم، نفری میں اضافہ کیا جائے


Staff Reporter November 12, 2012
دہشتگردوں نے مختلف علاقوں میں مورچے بنالیے،9 تھانوں کی حدود میں شدید مزاحمت ہے، پولیس حکام کا موقف فوٹو: فائل

کراچی پولیس نے دستیاب وسائل میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کامقابلہ کرنے سے انکار کردیا ہے اور فوری طور پرجدید اسلحہ ، بلٹ پروف جیکٹس ، پولیس نفری میں اضافے ، تربیت کی فراہمی اور آپریشنل گاڑیوں کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے ۔

ذرائع کے مطابق پولیس کے اعلیٰ حکام نے سندھ حکومت کی اہم شخصیات پر واضح کردیا ہے کہ شہرکے حالات ٹھیک کرنے کیلیے پولیس میں بھرتیاں شروع کی جائیں، پروٹوکول ڈیوٹیوں سے عملے کو واپس بلایا جائے اور وی آئی پیز کی ڈیوٹیزکیلیے علیحدہ عملہ نجی سیکیورٹی ایجنسیوں سے کرایے پر حاصل کرکے مہیاکیا جائے ، ذرائع نے بتایا کہ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا تھا جس میں کراچی میں امن وامان کی صورتحال اور اس سلسلے میں کیے جانے والے انتظامات کا جائزہ لیاگیا۔

اجلاس میں پولیس حکام نے مختلف مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس جو وسائل ہیں ان وسائل میں شہرمیں امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہے اس حوالے سے پولیس حکام نے مختلف مثالیں بھی دیں ایک مثال میں انھوں نے اجلاس کو بتایا کہ اورنگی ٹاؤن میں800 سے زائد پولیس نفری کی ضرورت ہے لیکن وہاں صرف400 پولیس افسران و اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں ، منگھو پیر تھانے میں مجموعی طور پرصرف2بلٹ پروف جیکٹس ہیں جو کہ1985ء سے بھی پہلے کی ہیں جن کے معیاد کی مدت بھی ختم ہوچکی ہے۔

جبکہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوںکے پاس جدید اسلحہ اور اسٹیل کی گولیاں موجود ہیں ، تھانوں میں بکتر بند گاڑیاں تک موجود نہیں اور اگر کسی تھانے میں بکتر بند گاڑی موجود بھی ہے تو وہ چلنے کے قابل نہیں جبکہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے پہاڑیوں اور اولڈ سٹی ایریا کی تنگ گلیوں میں مورچے قائم کررکھے ہیں جہاں پر خصوصی تربیت یافتہ شوٹرز بیٹھے ہیں جومسلسل پولیس کونشانہ بنا رہے ہیں ، ذرائع کے مطابق اعلیٰ حکام کوبتایاگیا ہے کہ منگھو پیرکے علاقے میں ایک سیمنٹ فیکٹری سے ایک لاکھ روپے بھتہ طلب کیاگیا نہ دینے پر مذکورہ فیکٹری پر فائرنگ کرکے ایک شخص کو قتل کردیا گیا۔

جبکہ دوسرے ہی روز جب پولیس حکام نے2 دہشت گردوں کو گرفتارکیا توگرفتار کرنے والے پولیس کےASI کو فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا جبکہ پولیس اہلکاروں کو بیان دینے کی صورت میں قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور نہ دینے کی صورت میں خاندان کے کفالت کی یقین دہانی کرائی گئی جس کی وجہ سے پولیس کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے ، ذرائع کے مطابق سندھ حکومت کے ذمہ داران کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بعض علاقوں میں انتہا پسند مسجدوں میں فیصلے کررہے ہیں جبکہ انتہا پسندوں کے درمیان بھی گروپنگ قائم ہے بعض انتہا پسند بھتہ خوری سے روک رہے۔

جبکہ بعض انتہا پسند بھتہ نہ دینے والوں کو قتل کر رہے ہیں ، پولیس حکام نے سندھ حکومت کے ذمہ داران کو یہ بھی بتایا ہے کہ ضلع غربی کے 9 تھانوں ، گڈاپ ٹاؤن کے3 تھانوں ، لانڈھی ٹاؤن کے2 تھانوں ، گلشن ٹاؤن کے3 تھانوں ، صدر ٹاؤن کے2 اور لیاری ٹاؤن کے4 تھانوں میں دہشت گردوں ، بھتہ خوروں اور انتہا پسندوں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے اور پولیس دستیاب وسائل کی وجہ سے ان کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ انتہا پسند وہاں روز بروز منظم ہو رہے ہیں ، ذرائع کے مطابق اعلیٰ حکام کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انتہا پسند زیادہ تر مذکورہ تندور ، موچی ، مونگ پھلی اور چائے کے ہوٹلوں پر کام کرتے تھے جو کہ اب بعض علاقوں کے کمانڈر بن گئے ہیں جبکہ انھوں نے اپنی جائیدادیں بھی بنا لی ہیں ، مذکورہ دہشت گردوں نے قبائلی علاقوں سے دیگر انتہا پسندوں کو طلب کرکے شہر کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔

جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور خفیہ اطلاعات فراہم کرنے والوں کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق بعض تاجروں نے بھی حکومت کی اہم شخصیات کو بتایا ہے کہ بنارس کے علاقے میں کچھ طالبان داخل ہوئے ہیں جو کہ طالبان کے نام پر بھتہ لینے والوں کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں اور طالبان کے نام پر بھتہ لینے والوں سے رقوم کی واپسی بھی کرائی گئی ہے اس لیے حکومت بروقت کارروائی کے لیے پولیس کو بھرپور وسائل فراہم کرکے فوری ایکشن شروع کردے بصورت دیگر کراچی کے مختلف علاقوں میں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے کنٹرول میں اضافہ ہوگا اور قانون کی رٹ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں