کیا میں پاکستان کا وزیراعظم بن سکتا ہوں

اگرایسا کرلیا گیا تووہ وقت دورنہیں جب پاکستان کا وزیراعظم بھی ایک غیر سیاسی خاندان سےتعلق رکھنےوالا مڈل کلاس شہری ہوگا

ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ہمارے مڈل کلاس طبقے اور پڑھے لکھے نوجوانوں انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عملی سیاست میں قدم رکھیں۔

جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے پاکستان میں دو سیاسی جماعتوں اور پھر دو سیاسی خاندانوں کا تذکرہ ہی سنا ہے اور اب حالیہ دور میں ایک تیسری سیاسی جماعت عمران خان کی قیادت میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ پاکستان کی عوام نے ہمیشہ وراثتی سیاست کی مخالفت کی ہے لیکن انتخابات کے نتائج اس سے قطعی مختلف نظر آتے ہیں، جہاں پر مکمل طور پر سیاسی خاندانوں کا قبضہ دکھائی دیتا ہے۔ میرا سوال پاکستان کی عوام سے یہ ہے کہ یہ وراثتی سیاست ان پر مسلط کی گئی ہے یا پھر وہ خود اس کے ذمہ دار ہیں؟ اِس کا جواب وہ انتہائی معصومیت سے دیتے نظر آتے ہیں کہ اِس ملک میں دو سیاسی خاندانوں نے سیاست اور اقتدار کو گھر کی باندی بنایا ہوا ہے اور ان دونوں نے آپس میں ''مک مکا'' کر رکھا ہے، اِس وجہ سے اُن کے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود ہی نہیں ہے، لیکن آج میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ اس وراثتی سیاست کے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم عوام ہیں۔

اِس کی مثال میں آپ کو ایسے دے سکتا ہوں کی مان لیجیے کہ آج عمران خان تحریک انصاف سے کسی بھی وجہ سے علیحدگی اختیار کرجائیں یا کسی بھی دوسری وجہ سے وہ پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے قابل نہ رہیں تو تحریک انصاف کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا شاہ محمود قریشی اس جماعت کو سنبھال پائیں گے؟ کیا جہانگیر ترین میں اتنا دم ہے کہ وہ اس کی قیادت کر پائیں؟سب سے پہلی بغاوت تو پارٹی کے اندر سے ہوگی، پھر دوسرا پاکستان کے عوام بھی اس کو مسترد کردیں گے اور تحریک انصاف تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر آدھی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور آدھی پیپلز پارٹی کے ہتھے چڑھ جائے گی۔ یقیناً یہ بھیانک تصویر کشی بہت سے لوگوں کو بُری لگے گی۔ چلیں اِس لیے ایک بالکل متضاد منظر نامہ لے لیتے ہیں کہ عمران خان پارٹی چھوڑتے وقت اس پارٹی کی باگ دوڑ اپنے کسی عزیز بہن یا بیٹوں کے سپرد کردیتے ہیں تو یقین مانیے نہ تو پارٹی میں بغاوت ہوگی اور نہ ہی پاکستان کی عوام اسے رد کریں گے، بلکہ پاکستان تحریک انصاف اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم بھی رہے گی اور کامیابی بھی حاصل کرتی رہے گی۔

پاکستان میں سیاست کو کاروبار کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے جہاں کوئی بھی پارٹی رہنما پارٹی پر پیسہ اِسی وجہ سے لگاتا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنا حصہ وصول کرسکے۔ اب پاکستان تحریک انصاف پر سرمایہ کاری اس لیے بھی ایک اچھا سودا نہیں کہ عمران خان کے بعد پارٹی کا کوئی مستقبل نہیں اور یوں ان کی سرمایہ کاری ڈوبنے کا خدشہ پیدا ہوسکتا ہے، لیکن دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس نواز شریف کے بعد شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کی صورت میں پارٹی کو یکجا رکھنے کی اور طویل بنیادوں پر استوار رکھنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ پر سرمایہ کاری ایک لائف ٹائم ریٹرن ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی میں بے نظیر کی وفات کے بعد آصف علی زرداری پھر بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو کی صورت میں پارٹی کے پاس مستقبل کی قیادت بھی موجود ہے۔

اصل میں سیدھا سادھا معاملہ ی ہے کہ غلامی ہماری گھٹی میں پڑھ چکی ہے اگر آج پیپلز پارٹی کا چئیرمین خورشید شاہ کو لگا دیا جائے تو میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ پارٹی اگلے ہی دن ختم ہوجائے گی جبکہ یہی پارٹی ایک نو عمر نوجوان بلاول بھٹو کے نام کے سہارے ساری عمر چلتی رہے گی۔ وراثتی سیاست ہماری مجبوری ہے اور ہماری غلامانہ ذہنیت کی عکاس ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ایک سابقہ فون آپریٹر کو اپنا چئیرمین نہیں بناسکتی جبکہ اس کی جگہ ایک بچہ جسے سیاست کی 'الف ب' کا بھی نہیں پتا، اُس کی سربراہی میں بلکل ٹھیک چل سکتی ہے۔

افسوس کہ عمران خان جیسا لیڈر جس نے اپنے کرکٹ کے کیرئیر میں میں کئی کامیاب کھلاڑی اور کپتان پاکستان کو دیے، لیکن اُس کے برعکس ایک بھی ایسا سیاسی جانشین نہیں دے سکے جو ان کے بعد تحریک انصاف کو مضبوط بنیادوں پر استور کرسکے۔ سیاسی جانشین تو چلو دور کی بات ایک بھی ایسا سیاست دان نہیں بناسکے جو مڈل کلاس کا پڑھا لکھا نوجوان ہو اور اپنی قابلیت کی بنیاد پر تحریک انصاف میں آیا ہو۔ آج بھی ان کے ارد گرد سیاسی خانزادوں، سجادہ نشینوں اور صنعت کاروں کا جمگھٹا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اگر مارٹن لوتھر کنگ کا بظاہر ناممکن خواب ایک کالے امریکی صدر کی صورت میں پورا ہوسکتا ہے، ہمارے پڑوسی ملک میں ایک غیر سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک چائے بیچنے والا ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے تو آخر پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ اِس کی وجہ بہت واضح ہے، اور وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا مڈل کلاس اور پڑھا لکھا طبقہ سیاست سے یوں دور بھاگتا ہے جیسے یہ کوئی جرم ہے۔ لیکن اپنے سیاست دانوں پر ایسی بے لگام تنقید کرتا ہے کہ جیسے اگر ان کو موقع مل گیا تو پورا پاکستان لمحوں میں تبدیل کردیں گے۔ اسی طرح پاکستان کا نوجوان طبقہ فیس بک، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع پر سیاست دانوں کی کردار کشی اور تنقید کرنے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان میں ''تبدیلی'' کے لیے بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان جو فیس بک پر پڑے بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں اور اپنی مخالف سیاسی پارٹیوں کی جھوٹی سچی کہانیاں بڑے فخر سے لگاتے ہیں اور دوسری طرف اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما کی تصاویر 'لائک' کرکے یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اس طرح وہ اس ملک کی بہت خدمت کر رہے ہیں عملی طور پر بالکل صفر ہیں۔ ہمارے یہ پڑھے لکھے نوجوان جو اپنے گھر، محلے اور کالونی کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں بلکہ اگر آپ ان سے یہ پوچھ لیں کے آپ کے ہمسائے کا نام کیا ہے اور وہ کیا کرتا ہے تو مجھے یقین ہے اس کا نام بھی ان کو معلوم نہیں ہوگا۔


اِس لیے اب وقت کی اولین ضرورت تو یہ ہے کہ ہمارے مڈل کلاس طبقے اور پڑھے لکھے نوجوانوں انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عملی سیاست میں قدم رکھیں اور یہ قدم یونین کونسل کی سیاست سے شروع ہوکر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے گا۔ کوئی بھی پڑھا لکھا نوجوان یونین کونسل کی سیاست نہیں کرنا چاہتا جس کی وجہ سے جاہل اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کے لیے راستہ صاف ہوجاتا ہے اور وہ لوگ باآسانی یونین کونسل کی سیاست میں قدم جما لیتے ہیں اور پھر انہی لوگوں کی وجہ سے یہ سیاسی خاندان اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یقین مانیے پارٹی کوئی بھی ہو اس کے منشور میں کرپشن کا درس نہیں ہوتا بلکہ یہ پارٹی کہ وہ اکثریتی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی ہوس کی وجہ سے پارٹی کو کرپٹ کردیتے ہیں۔

تو آئیے، آج ایک عہد کرتے ہیں کہ مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے کسی بھی سیاسی پارٹی کو جوائن کریں جو بھی ہمیں مناسب لگے اور اپنے گلی محلے کے مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں، اگر ایسا کرلیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا وزیراعظم بھی ایک غیر سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والا مڈل کلاس شہری ہوگا۔

[poll id="1035"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story