ارکان پارلیمنٹ کے بعد بیورو کریسی سے بھی دہری شہریت کا حلف نامہ طلب
ڈی ایم جی اور سیکریٹریٹ گروپ کے تمام افسر جلد از جلد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو دہری شہریت پر وضاحت پیش کریں، سرکلر جاری
سیاسی قوتوں کے بڑھتے دبائو کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایک غیر متوقع اور اہم قدم اٹھاتے ہوئے سول سروس کے افسروں سے دہری شہریت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بیان حلفی طلب کرلیا ہے۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو اپنے ذرائع سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے سول بیورو کریسی کو بجھوائے گئے سرکلر کی کاپی موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سروسز گروپ جسے پہلے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کہا جاتا تھا اور سیکریٹریٹ گروپ کے تمام افسر جلد از جلد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تحریری طور پر آگاہ کریں کہ کیا وہ صرف پاکستانی شہری ہیں یا اس کے علاوہ بھی کسی ملک کی شہریت کے حامل ہیں۔ سرکلر میں بیورو کریسی کو حلف نامے جمع کرانے کیلیے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی بلکہ اس کیلیے جلد ازجلد کی ڈھیلی ڈھالی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
تین صفحات پر مشتمل سرکلر کے آخری صفحے پر ہر سرکاری افسر اس بات کا حلف دیگا کہ اس کے پاس صرف پاکستان کی شہریت ہے اور اگر وہ دہری شہریت کے حامل ہیں تو ان کے پاس کس ملک کی شہریت ہے اور یہ شہریت انھوں نے کب لی تھی، اس کے علاوہ اگر کسی سرکاری افسر نے کبھی کسی ملک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے درخواست دی ہو تو اسے اس کی بھی تفصیلات جمع کرانا ہونگی۔ دہری شہریت کا معاملہ کئی ماہ سے ایک بڑے تنازعے کی شکل میں موجود ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر اب تک کم از کم11ارکان پارلیمنٹ نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔
دہری شہریت کے حامل کئی دیگر ارکان ابھی اس خوف سے دوچار ہیں کہ کہیں ان کی حقیقت سپریم کورٹ میں عیاں نہ ہو جائے۔ بیورو کریسی کے حلف ناموں کا سرکلر تمام صوبائی حکومتوں کے علاوہ چیف کمشنر اسلام آباد، چیف سیکریٹری آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کو بجھوایا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں سول بیورو کریسی سے حلف نامے مانگنا ایک بڑی پیشرفت قرار دی جا رہی ہے تاہم سرکاری افسر اپنی شہریت کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حالیہ اقدام کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیورو کریسی سے شہریت کے حلف نامے طلب کرنے سے نہ صرف سراسیمگی پھیلے گی بلکہ اس کی کارکردگی پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو اپنے ذرائع سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی طرف سے سول بیورو کریسی کو بجھوائے گئے سرکلر کی کاپی موصول ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سروسز گروپ جسے پہلے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کہا جاتا تھا اور سیکریٹریٹ گروپ کے تمام افسر جلد از جلد اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو تحریری طور پر آگاہ کریں کہ کیا وہ صرف پاکستانی شہری ہیں یا اس کے علاوہ بھی کسی ملک کی شہریت کے حامل ہیں۔ سرکلر میں بیورو کریسی کو حلف نامے جمع کرانے کیلیے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی بلکہ اس کیلیے جلد ازجلد کی ڈھیلی ڈھالی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔
تین صفحات پر مشتمل سرکلر کے آخری صفحے پر ہر سرکاری افسر اس بات کا حلف دیگا کہ اس کے پاس صرف پاکستان کی شہریت ہے اور اگر وہ دہری شہریت کے حامل ہیں تو ان کے پاس کس ملک کی شہریت ہے اور یہ شہریت انھوں نے کب لی تھی، اس کے علاوہ اگر کسی سرکاری افسر نے کبھی کسی ملک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے درخواست دی ہو تو اسے اس کی بھی تفصیلات جمع کرانا ہونگی۔ دہری شہریت کا معاملہ کئی ماہ سے ایک بڑے تنازعے کی شکل میں موجود ہے، سپریم کورٹ کے حکم پر اب تک کم از کم11ارکان پارلیمنٹ نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔
دہری شہریت کے حامل کئی دیگر ارکان ابھی اس خوف سے دوچار ہیں کہ کہیں ان کی حقیقت سپریم کورٹ میں عیاں نہ ہو جائے۔ بیورو کریسی کے حلف ناموں کا سرکلر تمام صوبائی حکومتوں کے علاوہ چیف کمشنر اسلام آباد، چیف سیکریٹری آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کو بجھوایا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں سول بیورو کریسی سے حلف نامے مانگنا ایک بڑی پیشرفت قرار دی جا رہی ہے تاہم سرکاری افسر اپنی شہریت کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حالیہ اقدام کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیورو کریسی سے شہریت کے حلف نامے طلب کرنے سے نہ صرف سراسیمگی پھیلے گی بلکہ اس کی کارکردگی پر منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔