وہ نہ آئیںگے پلٹ کر
آخرکار وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کسی نہ کسی جتن سے بیرون ملک چلے جانے میں کامیاب ہوگئے
آخرکار وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کسی نہ کسی جتن سے بیرون ملک چلے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ بعض تجزیہ نگاروں نے تو بہت پہلے، بالکل شروع ہی میں کہہ دیا تھا کسی کی مجال نہیں جو ان کا بال بیکا کرسکے۔ ایسا کہنے والے نہ تو کوئی جوتشی تھے نہ ستارہ شناس۔ ان کی یہ پیش گوئی کسی غیر معمولی، غیر مرئی روحانی قوت کا کرشمہ بھی نہیں کہی جاسکتی۔ یہ ایک ماہرانہ تجزیہ تھا جس کے پس پشت بہت سے عوامل کارفرما تھے۔ سیدھی سی بات یہ تھی کہ جنرل صاحب کے سر پر مہربانوں کا دست شفقت تھا اور وہ کوئی بے بس یا لاوارث شخص نہیں تھے۔
اب ان کی روانگی کے بعد بہت کچھ کہا جارہا ہے۔ جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سب سے بڑی حریف سیاسی جماعت یعنی پیپلزپارٹی، اسے بہت بڑا ایشو بناکر کیش کرنا چاہ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے متعدد قائدین بیان پر بیان داغنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ہر کوئی دور کی کوڑی لانے میں مصروف ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے باہر پیپلزپارٹی ویمن ونگ کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ کیا کسی ان دیکھی قوت کی جانب سے، کسی دباؤ کے تحت مشرف کو اچانک باہر بھیج دیا گیا یا یہ اقدام کسی ڈیل کا نتیجہ تھا۔ ان کا کہناتھا کہ جب تک ہمیں اس کی اصلیت معلوم نہیں ہوجاتی تب تک ہم کسی بھی آمر کو قوم کا مذاق اڑانے سے نہیں روک سکتے۔ انھوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ مشرف کے اس طرح ملک سے باہر چلے جانے کے نہایت خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ مشرف نے نہ صرف حکومت بلکہ پارلیمنٹ اور تمام سیاسی قوتوں کا مذاق اڑایا ہے، مشرف نے اپنی واپسی کے لیے کوئی تحریری ضمانت بھی نہیں دی ہے۔
سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ نواز شریف نے آئین شکن مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے کر ثابت کردیا ہے کہ وہ آمریت کی پیداوار ہیں۔ مشیر اطلاعات سندھ مولابخش چانڈیو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ شریف برادران نے مشرف کو بیرون ملک بھیج کر احسان کا بدلہ چکادیا ہے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے ایک انٹرویو میں کہاکہ مشرف کے باہر جانے کے بعد حکومت پر صرف ترس ہی کھایا جاسکتا ہے۔ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ حکمراں اس سارے معاملے میں عدالتی فیصلے کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ادھر جواب آں غزل کے طور پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی پیپلزپارٹی والوں کے لتے لینے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور حکمرانی میں جنرل مشرف کے ساتھ این آر او والی دوستی نبھائی، انھوں نے کہاکہ جنرل مشرف پی پی کے دور حکومت میں چار مرتبہ بیرون ملک گئے، کیا اس وقت حکمرانوں کا جمہوری پن سویا ہوا تھا؟
انھوں نے یہ بھی کہاکہ 2009 میں تحقیقاتی کمیٹی نے یہ سفارش کی تھی کہ بی بی کے قتل کے مقدمے میں جنرل مشرف ملوث ہوسکتے ہیں، مگر اس وقت کے حکمرانوں نے جنرل مشرف کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔ حد تو یہ ہے کہ 2011 میں ایف آئی آر میں نام آنے کے باوجود بی بی کی حکومت نے مشرف کا نام ای سی ایل پر نہیں ڈالا اور نہ ہی ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی اور وہ کھلے عام ملک میں آتے جاتے رہے۔
بلوچستان کے سرکردہ رہنما سردار اختر مینگل نے کہاہے کہ جمہوریت کے دعوے دار بتائیں کہ مشرف کہاں گیا؟ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئین شکنی کوئی گناہ نہیں، حق مانگنا گناہ ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل اور جنرل(ر) پرویز مشرف کے ترجمان ڈاکٹر محمد امجد نے کہاہے کہ احمد رضا قصوری کے اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں کہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے حکومت سے ڈیل کے نتیجے میں بیرون ملک سفر کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم سپریم کورٹ نے دیا اور حکومت نے اس کی تعمیل کی۔
زیر التوا بلوں کی منظوری کے لیے طلب کردہ پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں بھی پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا معاملہ چھایا رہا۔ حزب اختلاف کے سرکردہ رہنما سید خورشید شاہ اور پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے ایجنڈے سے ہٹ کر نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے پر حکومت کو اپنی شدید تنقید کا ہدف بناتے ہوئے خوب طعنے دیے۔
اپوزیشن نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی ایوان میں موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کی دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ خورشید شاہ نے اس موقع پر کہاکہ ہم مشترکہ اجلاس میں ایسے وقت پر قانون سازی کرنے جارہے ہیں جب ایک آئین شکن شخص کو بری کرکے بیرون ملک بھیج دیاگیا ہے۔ محمود خان اچکزئی نے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہاکہ ڈکٹیٹر کا بیرون ملک جانا ہمارے منہ پر طمانچہ ہے۔
سندھ کے سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے کہاہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آئین سے غداری کے مرتکب پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دے کر سہولت کار کا کردار ادا کرکے غداری کا ارتکاب کیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ اگر پرویز مشرف کو فوری طور پر ملک واپس نہیں لایا گیا تو سندھ بھر کے گلی گلی اور چپے چپے میں گو نواز گو کا نعرہ لگے گا۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے پیپلزپارٹی کے اراکین سندھ اسمبلی کے ہمراہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دیے جانے کے عمل کے خلاف سندھ اسمبلی کی سیڑھیوں پر احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اپوزیشن پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کے معاملے پر چاہے جتنا بھی احتجاج کرے مگر عملاً یہ سب کچھ سعی لاحاصل ہے۔ اور اس کہاوت کے مترادف ہے کہ سانپ گزر گیا اب لکیر پیٹنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
رہی بات پرویز مشرف اور ان کی آیندہ سیاست کی تو بعض دیگر سیاسی قائدین کی طرح وہ ملک سے باہر رہ کر بھی ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ملک کی سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں۔ خود موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جنھوں نے پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں جلاوطنی کے زمانے میں سعودی عرب میں بیٹھ کر اپنی سیاسی جماعت کی باگ ڈور سنبھالی ہوئی تھی۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے چوہدری برادران کو دبئی میں ملاقات کی جو دعوت دی ہے، اس سے اس بات کی جانب بالکل واضح اشارہ ملتا ہے کہ وہ بیرون ملک سے آیندہ سیاست کریں گے۔
حکومت بپھری ہوئی اپوزیشن کو یہ یقین دہانی کراکر مطمئن کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ انٹرپول کی مدد سے ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو وطن واپس بلوالے گی۔ مگر ماضی کا تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے، کیوں کہ انٹرپول نے سابقہ فوجی آمر کو پاکستان کے حوالے کرنے کی درخواست رد کردی تھی، اس طرح کی درخواست محض ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین بار مسترد کی گئی تھی، پرویز مشرف کی واپسی کے بارے میں غالب امکان یہی کہ:
وہ نہ آئیں گے پلٹ کر
انھیں لاکھ ہم بلائیں