’’کسان ورلڈ‘‘ ایک بے مثل مجلہ

یہ ہمارے لیے بالکل ہی نئی اطلاع ہے کہ دنیا میں اور دنیا کے اس ’’نکرے‘‘ میں ’’کسان‘‘ بھی ہوتا ہے

barq@email.com

ہمارے سامنے اس وقت ایک بالکل نیا اور منفرد قسم کا مجلہ پڑا ہوا ہے، نام ہے ''کسان ورلڈ'' اور ہم بقول غالب،

وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

یہ ہمارے لیے بالکل ہی نئی اطلاع ہے کہ دنیا میں اور دنیا کے اس ''نکرے'' میں ''کسان'' بھی ہوتا ہے اور اس کا کوئی ''ورلڈ'' بھی ہوتا ہے ہم تو سمجھ رہے تھے کہ اس ملک میں اس نام کی کوئی چیز پائی ہی نہیں جاتی اور اگر پائی جاتی ہے تو پھر بھی نہیں پائی جاتی، یہاں باقی سب کچھ پایا جاتا ہے کرکٹ پائی جاتی ہے، ہاکی پائی جاتی ہے، ثانیہ مرزا پائی جاتی ہے، میرا اور ایان علی پائی جاتی ہے اور سب سے بڑھ کر ملک قوم کے وہ ''محسن'' بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں جن کی خدمت اور احسانوں تلے اس قوم و ملک کی گذشتہ و آیندہ سات پشتیں تک دبی ہوئی ہیں ۔

محتاط اندازے کے مطابق کم از کم چار پشتیں تو بلاشک و شبہ ان احسانوں کو چکانے میں صرف ہوں گی جو انھوں نے آئی ایم ایف، انکم سپورٹ اسکیموں اور ترقیاتی کاموں کی شکل میں کر رکھی ہیں، لیکن ''کسان'' ؟؟؟ اس کے بارے میں تو ابھی کسی کو ۔۔۔کم از کم حکومتوں کو یہ بھی علم نہیں ہے کہ یہ کوئی پرندہ ہے، کیڑا ہے یا درخت ہے، نام سنا ہوا ضرور لگتا ہے کیوں کہ کبھی کبھی ''استعمال'' کرنے کے لیے یہ نام لینا ضروری ہو جاتا ہے لیکن عملاً ہر چند کہیں ہے نہیں ہے۔

اب ایسے میں اگر کوئی افتخار احمد سندھو جیسا ''بھولا'' کسان اور پھر اس کی دنیا کا ٹپہ الاپے تو اسے اور کیا کہا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ ۔۔۔۔ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو ۔۔۔ دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا ۔۔۔ اندھوں کے شہر میں آئینے بیچنے اور بہروں کے شہر میں گانے گانے والے اور ہو بھی کیا سکتے ہیں، سوائے اکبر الہ آبادی کے

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

ہمارے سامنے اس وقت کسان ورلڈ کا شمارہ پڑا ہوا ہے لیکن صرف پڑھا نہیں بلکہ ہم نے اسے ''پڑھا'' ہوا بھی ہے، ویسے یہ مجلہ چھ سال سے چل رہا ہے اور ہم اسے اپنی بدنصیبی سمجھ رہے ہیں کہ یہ اتنی دیر سے ہمیں کیوں ملا ؟ ایک پشتو ٹپہ ہے کہ

سترگے دے وے وتلے نہ وے

چہ پہ محلت دے لوئیدم نہ دے لیدمہ

یعنی تمہاری آنکھیں تو پھوٹی ہوئی نہیں تھیں کہ میں تمہارے محلے میں جواں ہو رہی تھی اور تم نے دیکھا تک نہیں تھا، یوں کہیے کہ اتنا اچھا خوب صورت مور ''جنگل'' میں ناچ رہا تھا اور ہم نے دیکھا تک نہیں، اس کے باوجود کہ ہم بھی اسی جنگل کے باسی ہیں، رہے شہروں کے لوگ تو وہ تو نو من تیل والی ''رادھا'' کی ناچ میں اتنے ''محو'' ہیں کہ مور کے وجود تک سے ناواقف ہیں

ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

وہ تو ہر نئے سورج کے طلوع کے ساتھ زمین اور زمین زادے دونوں کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں، زمین کو تو طرح طرح کی رہائشی اسکیموں، سیمنٹ اور سرے کے جنگلوں اور دس دس ایکڑ کے فلاں ہاؤس اور فلاں ہاؤس کے ذریعے ختم کر رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب اس ملک میں ''سبزہ'' صرف ملک کے جھنڈے میں اور عمارتوں کے رنگ و روغن تک محدود ہو جائے گا اور کسان یعنی زمین زادے کو بے پناہ لاتعلقی بے قدری اور ناپرسی کے ذریعے ختم کر رہے ہیں بلکہ اسے ایک ایسے نظام کا ''بندی'' بنایا جارہا ہے بلکہ بنایاجاچکا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں مارنے کے قریب پہنچ چکا ہے، پڑوسی ملک میں ایک اصطلاح مروج ہے ''بندھوا مزدور'' یہ بندھواں مزدور پشتہا پشت سے حاکموں کے قبضے میں چلے آرہے ہیں۔

ان کے پیروں میں قرضے کی زنجیریں اتنی مضبوطی سے باندھی ہوئی ہیں کہ صرف ان کے ہاتھوں کو ''کام'' کرنے کی آزادی حاصل ہے وہ کام جو مالکوں کے لیے کرتے ہیں، ہمارے ہاں کچھ عرصے پہلے یہ سلسلہ خرکاروں کے ہاں مروج تھا دن بھر کام لینے کے بعد محکوموں کو زنجیروں سے باندھا جاتا تھا کہ وہ بھاگ نہ لیں، بیمار زخمی یا باغی ہونے کی صورت میں اسے تودے یا گڑھے میں گاڑ دیا جاتا تھا ، آج کل اینٹوں کے بھٹوں اور کچھ دوسرے مقامات پر بندھوا مزدور پائے جاتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کے پیروں میں لوہے کے بجائے دوسری قسم کی زنجیریں باندھی جاتی ہیں ۔

بڑے بڑے کبھی ختم نہ ہونے والے قرضے ۔ بال بچوں کو یرغمال بنانے اور پیاروں کی موت جیسی زنجیریں، اگر موازنہ کیا جائے تو اس ملک کا کسان بھی ایک بندھوا مزدور ہی ہے کہ وہ کام تو کرتا ہے لیکن اپنی پیداوار اس کے ہاتھ میں نہیں ہوتی یہ ہم ان کسانوں کی بات نہیں کر رہے ہیں جو بڑے بڑے جاگیر داروں، چوہدریوں، وڈیروں، ریئسوں اور خان خوانین کے زیر تسلط ہیں بلکہ اس کسان کی بات کر رہے ہیں جو بظاہر آزاد نظر آتا ہے لیکن پھر بھی ایک ایسے نظام کی نادیدہ زنجیر میں جکڑا ہوا ہے اور ایسا جکڑا ہوا ہے کہ اپنے ہاتھوں پیروں کو کیا اپنے خیالات کو بھی اپنی مرضی ہلا چلا نہیں سکتا۔

معاشرے کے دوسرے کسی بھی فرد کو لے لیجیے حتیٰ کہ مزدور، ہنر مند، کارکن یہاں تک کہ پالش کرنے والا بھی اپنی ''محنت اور پیداوار'' کے نرخ طے کر سکتا ہے لیکن کسان واحد ایسا مجبور بندہ ہے کہ نہ اپنی مرضی سے خرید سکتا ہے اور نہ بیچ سکتا ہے اپنی اور زرعی ضروریات کے لیے اسے جو کچھ بھی خریدنا پڑتا ہے، بیچنے والوں کی مرضی کے نرخوں پر خریدتا ہے لیکن جب یہ خریدار سے ''بیچنے'' والا ہو جاتا ہے تو اس کی پیداوار جس میں اس کا خون پسینہ بھی شامل ہوتا ہے اس کے نرخ بھی ''دوسرے'' طے کرتے ہیں چاہے یہ روئے یا ہنسے ۔۔۔ اور جو کچھ یہ پیدا کر کے بیچ دیتا ہے کل انھی چیزوں کو بھی دوسرے کے طے کردہ نرخوں پر خریدے گا کیوں کہ اب وہ بیچ کے درمیانی لوگوں کے مقدس ہاتھوں میں ہوتا ہے۔

دوسروں کی مرضی سے خرید کر جب وہ کوئی چیز ''بوتا'' ہے اور اس میں اپنا خون پسینہ، دنوں کا چین اور راتوں کا آرام شامل کر کے بیچنے نکلتا ہے تو اس خوں خوار سرمایہ دارانہ نظام کے جبڑوں میں ہوتا ہے جو بیٹھے بٹھائے ۔۔۔ کچھ بھی نہ کر کے سارا فائدہ بٹورتا ہے، ایک عجیب سا چکر ہے بلکہ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا ۔ کہ جو سب سے بڑا محسن ہے سب سے بڑا پالن ہار ہے سب سے زیادہ ''پیدا'' کرنے والا ہے وہی سب سے زیادہ مجبور ہے، سب سے زیادہ محکوم اور سب سے زیادہ مظلوم ہے، اگر آج ''انسانی معاشرے'' پر زمین اور زمین زادے کی پیدا کردہ خوراک بند کی جائے تو اس سارے تام چھام کی چیخ نکل جائے۔

ایسا کون ہے جو پیدا کر کے انسان کا پیٹ بھرتا ہے اور ایسا کیا ہے جو انسان کی بھوک مٹا سکتا ہے وہ نہ یہ سیاستیں ہیں نہ جمہوریتیں ہیں، نہ بڑے بڑے فلسفے ہیں نہ کارخانے ہیں نہ بھرے پرے بینک ہیں نہ سائنسی ایجادات ہیں بلکہ زمین اور زمین زادے کا دیا ہوا جس کے بغیر انسان جی ہی نہیں سکتا، ''کسان ورلڈ'' ایک نہایت ہی اہم مجلہ ہے بلکہ واحد مجلہ ہے جو اس فی الارض خلیفہ کی آواز ہے جس کی آواز انتہائی ظالمانہ طریقے پر دبائی گئی تھی دبائی گئی ہے اور دبائی جارہی ہے۔
Load Next Story