ارتھ ڈے

ہم ارتھ ڈے منا رہے ہیں، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہمارا جینا مرنا سب زمین ہی سے وابستہ ہے


Zaheer Akhter Bedari March 28, 2016
[email protected]

ہم ارتھ ڈے منا رہے ہیں، یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ہمارا جینا مرنا سب زمین ہی سے وابستہ ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم زمین کو دھرتی ماں کہتے ہیں تو یہ ہماری زمین سے عقیدت کی ایک علامت ہے لیکن اس دھرتی ماں کو جب انسانوں کی تقسیم انسانوں کے درمیان نفرت اور تعصب پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو ہم زمین کا احترام نہیں کرتے بلکہ زمین کی توہین کرتے ہیں۔

زمین بے شک دھرتی ماں کہلانے کی مستحق ہے لیکن اس کے حوالے سے نفرتیں پھیلانے والوں کو ہرگز انسان نہیں کہا جاسکتا۔ ہم نے اس دھرتی ماں پر جغرافیائی لکیریں کھینچ کر اسے ملکوں میں تقسیم کیا۔

انسانوں کی شناخت کی حد تک یہ تقسیم گوارا ہوسکتی ہے لیکن ان جغرافیائی لکیروں کے حوالے سے انسانوں کو تقسیم کرکے ملک اور ملکی مفاد اور جغرافیائی سالمیت کے نام پر ہم جب اربوں ڈالر خرچ کرکے لاکھوں کی فوج تیار کرتے ہیں اور ملکی سالمیت کے نام پر بے ہودہ جنگیں لڑ کر اس مقدس زمین کے بیٹوں کو مرواتے ہیں تو یہ دھرتی ماں کی خدمت نہیں بلکہ توہین ہوتی ہے۔ کیا زمین سارے انسانوں کے لیے یکساں طور پر قابل احترام نہیں ہوسکتی، کیا زمین کا تحفظ زمین پر بسنے والوں کی اجتماعی ذمے داری نہیں ہے؟

زمین کی حرمت پر ڈاکا ڈالنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ایک طبقے نے ہزاروں بلکہ لاکھوں ایکڑ زمین پر قبضہ جمائے رکھا ہے، اس طبقے کو ہم جاگیردار طبقہ کہتے ہیں۔ زمین کی بے حرمتی کا ایک شرمناک طریقہ یہ ہے کہ زمین پر ہل یا ٹریکٹر چلا کر زمین کی کوکھ سے غلہ اگانے والا ہاری اور کسان دو وقت کی روٹی سے محروم رہتا ہے اور نسلاً آرام کرنے والا جاگیردار اور وڈیرہ ہاریوں اور کسانوں کی محنت کو ہڑپ کرجاتا ہے۔

زمین کی توہین کا ایک طریقہ یہ ہے کہ زمین کے حقیقی وارثوں کو رہنے کے لیے زمین کا 50-40 گز کا ٹکڑا میسر نہیں ہوتا جب کہ لٹیرے طبقات ہزاروں گز بلکہ ایکڑوں پر بڑی بڑی کوٹھیاں بنگلے بناکر زمین کا اپمان کرتے ہیں۔ آج زمین ہی کے نام پر فلسطین اور کشمیر میں خون بہایا جارہا ہے اور لاکھوں انسان اس احمقانہ جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ زمین کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ان ٹکڑوں کے نام پر جنگیں لڑی جاتی رہیں اور لڑی جارہی ہیں، یہ اشرف المخلوقات کے ایسے ذلت آمیز کارنامے ہیں جن کی مذمت کی جانی چاہیے۔

دنیا میں بہت سارے دن منائے جاتے ہیں، ان میں ارتھ ڈے، مدر ڈے اور ویلنٹائن ڈے، بنیادی اہمیت بلکہ عالمی اہمیت کے حامل ڈے ہیں۔ ڈے منانے کا آغاز اور اہتمام ترقی یافتہ قوموں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے لیکن اب یہ اہتمام عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے جو انسانوں کی اجتماعی بھلائی کی علامت سمجھا جاسکتا ہے۔ 19 مارچ کو ارتھ آور منایا گیا ۔ کہا تو اسے ارتھ آور جاتا ہے لیکن یہ بہرحال ارتھ ڈے ہی ہوتا ہے اور اسے ہونا چاہیے۔

ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ارتھ آور مناتے تو ہیں لیکن 90 فیصد سے زیادہ انسانوں کو یہ پتا ہی نہیں کہ ارتھ آور یا ارتھ ڈے ہے کیا۔ جو لوگ ارتھ آور کو معنوی طور پر جانتے ہیں وہ خواب میں بھی ارتھ یعنی زمین کی تاریخ سے واقف ہیں، نہ اس کی اقسام اور اس کے انجام سے۔ ہم آسمان کو ہزاروں سال سے مانتے آرہے ہیں، ہم عقائد کو ہزاروں سال سے مانتے آرہے ہیں، ہم چاند اور سورج کو ہزاروں سال سے جانتے آرہے ہیں، لیکن ہمیں اب پتا چل رہا ہے کہ ان سب کی حقیقت کیا ہے۔

مثلاً چاند کو لے لیں، ہزاروں سال سے ہم چاند کو ایسی قندیل سمجھتے آرہے ہیں جس کا کام رات میں روشنی بکھیرنا ہے، ہم ہزاروں سال سے چاند کے داغوں کی عجیب و غریب تاویلیں کرتے آرہے ہیں، ہمارے عشاق چاند میں اپنی محبوباؤں کے چہرے تلاش کرتے آرہے ہیں، ہمارے شاعر چاند کے حسن کو اپنی محبوباؤں کے حسن سے تشبیہ دیتے آرہے ہیں، لیکن جب بیسویں صدی میں ایک امریکی چاند گاڑی میں سفر کرکے چاند کی سرزمین پر اترا تو ہمارے سارے مفروضے ہماری ساری تشبیہات ہوا میں اڑ گئے۔

پتا چلا کہ چاند زمین سے چھوٹا ایک ایسا بے آب و گیاہ سیارہ ہے جہاں پرہول اور دل دہلا دینے والے سناٹوں کے علاوہ کچھ نہیں، حتیٰ کہ وہ ہوا تک نہیں جو زندگی کی اولین شرط اور سانس لینے کا ذریعہ ہوتی ہے۔ ہم ہزاروں سال سے آسمان کو احترام کی نظروں سے دیکھتے آرہے ہیں، کیونکہ یہ کرہ ارض پر بسنے والے ہر انسان کے عقائد کا مرکز ہے، لیکن پتہ چلا کہ آسمان نام کی کوئی شے کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ نہ سورج چاند ستارے آسمان سے جڑے ہوئے ہیں، آسمان صرف حد نگاہ ہے، باقی سب خلا ہی خلا ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ آسمان سے آگے جہاں اور بھی ہیں، عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔

یہ تو ہوئی زمین کی بے حرمتی کی داستانیں، اب ذرا آئیے دیکھیں کہ زمین ہے کیا، آئی کہاں سے، جائے گی کہاں؟ سورج ہمارے نظام شمسی کا سرتاج ہے۔ سورج لاکھوں کروڑوں سال سے نہیں بلکہ اربوں سال سے ''جل رہا ہے'' اور اپنی ہی آگ میں جل رہا ہے۔ سورج میں بھڑکنے والی اس آگ کے طوفانی لاوے کی شکل میں سورج سے نکل کر خلا میں پھیل جاتے ہیں اور یہ لاوا لاکھوں سال تک خلا میں گردش کرنے کے بعد ٹھوس شکل اختیار کرلیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہی لاوا کوئی چار ارب سال پہلے ٹھوس شکل میں تبدیل ہوکر زمین کی شکل اختیار کرگیا۔

سورج سے اٹھنے والے آگ کے اس طوفان نے جب کروڑوں سال کی گردش کے بعد ٹھوس شکل اختیار کی تو ہمارا نظام شمسی وجود میں آیا جس کا زمین ایک چھوٹا سا سیارہ ہے۔ زمین پر تین حصے پانی یعنی سمندر ہے اور ایک حصہ خشکی یعنی زمین ہے، جس پر 7 ارب انسان رہتے ہیں۔ ماہرین ارض کا کہنا ہے کہ اگر کوئی کائناتی حادثہ نہ ہوا تو ہماری زمین ابھی تین ارب سال تک زندہ رہ سکتی ہے، جب سورج ٹھنڈا ہوجائے گا یعنی اپنی حدت کھو دے گا تو زمین کی طبعی موت واقع ہوجائے گی۔

اور سیارے جب اپنی طبعی موت مرجاتے ہیں تو خلا میں موجود بلیک ہولز انھیں اپنے غار میں کھینچ لیتے ہیں۔ ویسے تو خلا میں کئی بلیک ہولز موجود ہیں جنھیں ہم مردہ سیاروں کا قبرستان کہہ سکتے ہیں، لیکن حال ہی میں خلائی ماہرین نے ایک اس قدر بڑا بلیک ہول دریافت کیا ہے جس کا حجم سورج کے حجم سے 121 ارب گنا بڑا ہے۔ جی ہاں 121 ارب گنا بڑا۔ بلیک ہول دراصل خلا میں پائے جانے والے وہ غار ہوتے ہیں جن کی لمبائی چوڑائی کا اندازہ نئے دریافت شدہ بلیک ہول کی لمبائی چوڑائی سے کیا جاسکتا ہے۔

جب سورج اپنی حرارت کھو دے گا تو ہماری زمین اپنی طبعی موت مر جائے گی لیکن اگر کوئی سیارہ، کوئی بڑا شہاب ثاقب دوران گردش زمین سے ٹکرا گیا تو زمین حادثاتی موت کا شکار ہوجائے گی۔ زمین جس فضائی آلودگی کا شکار ہو رہی ہے اس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کرہ ارض پر بسنے والے جاندار یا تو گرمی سے مر جائیں گے یا پانی میں ڈوب کر مرجائیں گے، لیکن زمین بہرحال تین ارب سال زندہ رہے گی اور جاندار دوبارہ پیدا ہوتے رہیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں