پنجاب اپوزیشن کیمپ میں انتشار کیوں
الیکشن 2013 ء سے پہلے ق لیگ کے کئی جغادری سیاست دان قلازی کھا کے پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے
الیکشن 2013 ء سے پہلے ق لیگ کے کئی جغادری سیاست دان قلازی کھا کے پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ۔ سوچ ان کی یہ تھی کہ2008ء کے الیکشن میں ق لیگ کے ٹکٹ کی وجہ سے ہار گئے تھے ، اب جب کہ ان کے پاس پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہو گا تو بہ آسانی جیت جائیں گے۔ ان میں سے بعض وہ تھے، جنھوں نے ن لیگ میں شمولیت کی کوشش بھی کی مگر ادھر ہاوس فل ہو چکا تھا۔ اور بعض وہ تھے ،جو ضلعی سیاست کی مجبوری کی وجہ سے ن لیگ کی مخالف پارٹي ہی میں جا سکتے تھے۔ یہ 'خوبی' البتہ ہر دومیںمشترک تھی کہ ق لیگ جب تک برسراقتدار تھی، یہ سیاست دان چوہدری برادران کا اسی طرح وفاداری کا دم بھرتے تھے، جس طرح آج عمران خان کا بھرتے ہیں۔
مطلب یہ کہ ق لیگ سے جو لوگ پی ٹی آئی میں آئے ہیں ، ان کے پیش نظر پی ٹی آئی کا ' انقلابی ایجنڈا ' نہ تھا ، نہ ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح جیت کر اسمبلی میں پہنچا جائے۔ لیکن الیکشن2013 ء اور اس کے بعد ہونے والا ہر ضمنی الیکشن یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ جو امید لگا کے یہ لوگ پی ٹی آئی میں پہنچے تھے، وہ پوری نہیں ہو سکی ہے، اور لگتا ہے کہ اس لیے کچھ بریک بھی لگ گئی ہے۔
بریگیڈئر اعجاز شاہ ق لیگ کے سرپرست جنرل مشرف کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ ننکانہ صاحب سے 2013 ء کا الیکشن انھوں نے ق لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار کے طور پر لڑا مگر چند ہزار ووٹ سے ہار گئے۔ چوہدری پرویزالٰہی نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب ننکانہ صاحب کو ضلع کا درجہ دیا تھا۔ بے پناہ ترقیاتی کام کرائے تھے۔ سکھ یاتریوں کے لیے امرت سر سے ننکانہ صاحب تک براہ راست سڑک تعمیر کرکے دی تھی۔ مگر ان کی ان تمام خدمات کو فراموش کرکے اعجاز شاہ پی ٹی آئی میں جا پہنچے ۔ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی بھرپور حمایت حاصل کرنے میں بھی کام یاب ہو گئے ۔ عمران خان خود ان کے انتخابی جلسے میں پہنچے۔
پورا دن یہ جلسہ ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا۔ انتخابی نتیجہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کی حمایت ان کے کسی کام نہیں آ سکی ہے، اور وہ ن لیگ کے نسبتاً نئے امیدوار سے بھی لگ بھگ چالیس ہزار ووٹوں سے ہار چکے ہیں۔ عبدالعلیم خاں2002ء کا الیکشن ہار چکے تھے ۔ بظاہر ان کا کریئر ختم ہوچکا تھا۔ چوہدری پرویزالٰہی نے ضمنی الیکشن میں انکو ق لیگ کا ٹکٹ دیا ۔ ان کی بھرپور حمایت کی۔ عبدالعلیم خان کام یاب ہو گئے تو انکو صوبائی وزیر بھی بنا دیا۔ ان کی انتخابی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ان کی سفارش پر ان کے حلقہ میں ہر طرح کے ترقیاتی کام کرائے گئے۔ صوبائی دارالحکومت میں ان کو چوہدری پرویزالٰہی کا چہیتا وزیر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن 2008 ء کے الیکشن کے بعد جب ق لیگ چاروں طرف سے مشکلات میں گھر گئی توعبدالعلیم خان نے چوہدری پرویزالٰہی کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا اور پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
لطف یہ ہے کہ عمران خان کے بھی وہ اتنے ہی قریب ہیں ، جتنے کبھی چوہدری پرویزالٰہی کے قریب تھے۔ لیکن تبدیلی ِجماعت اور بھرپور مالی وسائل خرچ کرنے کے باوجود 2013 ء کا الیکشن ہار گئے، بلکہ اس نشست پر ہونے والا ضمنی الیکشن بھی ہا ر چکے ہیں۔ امتیاز الدین ڈار ق لیگ کے ٹکٹ پر تحصیل سیالکوٹ کے ناظم بنے ۔ چوہدری پرویزالٰہی کے دور ِ وزارت اعلیٰ میں ان کی سرپرستی سے ہی وہ سیالکوٹ شہر میں ابھر سکے تھے۔ ان کے دونوں بیٹے عمر ڈار اور عثمان ڈار بھی ق لیگ کی قیادت کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ عمرڈار نے 2008ء کا الیکشن ق لیگ کے ٹکٹ پر لڑا مگر کام یاب نہ ہو سکے۔
اگر 2008 ء میں ق لیگ کام یاب ہو جاتی تو اس خاندان کے ق لیگ چھوڑنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن جیت کی لگن انکو بھی پی ٹی آئی میں لے گئی ۔ 2013 ء کا الیکشن عثمان ڈار نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑا لیکن وہ ہار گئے۔ وزیر آباد کے حالیہ ضمنی الیکشن میں حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے کی ناکامی تازہ ترین مثال ہے۔ ق لیگ کے دورحکومت میں حامد ناصر چٹھہ نے اپنی ' لیگ'چوہدری برادران کی ق لیگ میں ضم کر دی تھی۔
ان کے بیٹے گوجرانوالہ کے 'ناظم' منتخب کیے گئے۔ 2008ء میں حامد ناصر چٹھہ ق لیگ کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر ہار گئے۔2013 ء میں بھی کام یاب نہ ہو سکے۔ اتفاق سے ن لیگ کے رکن اسمبلی کی نااہلی سے یہ نشست خالی ہو گئی۔ حامد ناصر چٹھہ نے بھی وہی سستا نسخہ آزمانے کا فیصلہ کیا ۔ پی ٹی آئی میں اس شرط پر شامل ہو گئے کہ ضمنی الیکشن میں ان کے بیٹے کو اور2018 ء میں انکو پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا جائے گا۔ عمران خان نے دونوں شرائط تسلیم کر لیں۔
ان کے بیٹے کے لیے انتخابی جلسہ کرنے بھی گئے۔ ن لیگ کو اس ضمنی الیکشن میں مقامی مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی بوجوہ شدید مخالفت کا سامنا تھا اور اس کے خلاف مسجدوں سے اعلانات بھی کیے جاتے رہے۔ مگر نتیجہ اس کے باوجود حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے کی شکست کی صورت میں ہی نکلا ہے۔ پی ٹی آئی میں ق لیگ کے جہانگیر ترین استثنا قرار پا سکتے ہیں۔
یہ تو الیکشن2013 اورضمنی الیکشن کے انتخابی نتائج تھے۔ بلدیاتی الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جو لوگ خاص بلدیاتی الیکشن کے تناظر میں ق لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں گئے تھے، وہ بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ گوجرانوالا کے چیمے ، مریدکے کے ملک اور اوکاڑہ کے نکئی بھی ہار گئے۔ اس طرح ق لیگ سے جو لوگ پی ٹی آئی میں گئے ، اس کا ق لیگ کو جو نقصان ہوا، سو ہوا ، مگر پی ٹی آئی کو بھی فائدہ نہیں ہوا۔
اس کے برعکس گجرات ، بہاولپور اور بعض دوسرے اضلاع میں ق لیگ کے جن امیدواروں نے بدترین حالات میں بھی پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑا ، وہ جیت گئے ہیں۔ صوبہ میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی نشستیں قریب قریب برابر ہو چکی ہیں۔ ق لیگ سے پی ٹی آئی میں جانے والے ق لیگ کے جو لوگ اس طرح ہارے ہیں ، ان کے ہارنے کی دو وجوہات بڑی واضح ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ضلعی سطح پرجو نوجوان ووٹر اس امید پر پی ٹی آئی کی طرف لپکا تھا کہ ضلعی سطح پر اس کے آس پاس بھی چہرے تبدیل ہوں گے، اس نے جب دیکھا کہ وہی اس کے جانے پہچانے چہرے، جنکو وہ بدلنا چاہتے تھا، اب پی ٹی آئی کی سٹمپ لگوا کر اس سے ووٹ مانگنے آ گئے ہیں تو وہ بددل ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔
ق لیگ کے لوگ تو ہارے ہیں، پیپلزپارٹی کے اس طرح کے کئی لوگ ضمانتیں ضبط کروا بیٹھے ہیں۔ جہانگیر ترین کی طرح پیپلزپارٹی کے شاہ محمود قریشی بھی استثنا ہیںکہ موصوف مسلم لیگ میں ہوں، پیپلزپارٹی میںہوں یا پی ٹی آئی میں ، خاص اپنے اثرورسوخ سے کام یاب ہوتے ہیں۔ پارٹی کا محض تڑکا لگا ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے یکے بعد دیگرے اتنے یوٹرن لیے ہیں کہ دوسری پارٹیوں کا جو سنجیدہ ووٹر ہر طرف سے مایوس ہو کر ان کی طرف کھنچا تھا ، وہ بھی تذبذب کا شکار ہو گیا ہے۔
عمران خان کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ اپنے سوا ، وہ کسی اور کے ساتھ چل ہی نہیں سکتے ہیں ۔ پرانی باتوں کا تذکرہ نہ بھی کریں ، پارٹی الیکشن میں اپنے قائم کردہ الیکشن کمیشن کے ساتھ وہ نبھا نہیں کر سکے ہیں ۔ پہلے پارٹی الیکشن کے بعد جسٹس ( ر ) وجیہ الدین سے الجھ گئے، اب تسنیم نورانی احتجاجاً استعفا دے کر گھر جا چکے ہیں۔ لوگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ آج آپ ڈھنگ سے پارٹی الیکشن نہیں کرا پا رہے ہیں،کل آپکو جنرل الیکشن کرانے پڑ گئے تو کیا کریں گے۔ یوں دوسری پارٹیوں سے ٹوٹ کر آنے والا سنجیدہ ووٹر واپس اپنی پارٹیوں کی طرف کوچ کر چکا ہے۔
الیکشن 2013ء کے بعد ق لیگ دھاندلی کے حوالہ سے یکساں موقف رکھنے کی وجہ سے میں پی ٹی آئی کے قریب آ گئی ۔ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پنجاب میں دونوں اکٹھی ہو کر بطور اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہیں۔ حکومت کے خلاف دھرنا تحریک نے دونوں کو مزید قریب کر دیا ۔ مگر اس دوران بھی پی ٹی آئی کی حکمت عملی یہی رہی کہ ق لیگ کی قیادت کو بائی پاس کرکے اس کے مضبوط امیدواروں کو براہ راست اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔ یہ حکمت عملی اس وقت بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی، جب خود عمران خان نے ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دے دی۔
طارق بشیر چیمہ نے مگر انکار کر دیا ۔ بعد اس کے چوہدری برادران عمران خان کے بارے میں مزید محتاط ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی اس حکمت عملی کا سارے کا سارا نقصان فی الحال پنجاب میں اپوزیشن کیمپ کو ہوا ہے کہ اس کے متحد ہونے کا خواب بکھر کے رہ گیا ہے،اور فائدہ سارے کا سارا ن لیگ کو پہنچا ہے، جسکو وہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔عمران خان اپوزیشن کی سیاست کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا ،
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
مطلب یہ کہ ق لیگ سے جو لوگ پی ٹی آئی میں آئے ہیں ، ان کے پیش نظر پی ٹی آئی کا ' انقلابی ایجنڈا ' نہ تھا ، نہ ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح جیت کر اسمبلی میں پہنچا جائے۔ لیکن الیکشن2013 ء اور اس کے بعد ہونے والا ہر ضمنی الیکشن یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ جو امید لگا کے یہ لوگ پی ٹی آئی میں پہنچے تھے، وہ پوری نہیں ہو سکی ہے، اور لگتا ہے کہ اس لیے کچھ بریک بھی لگ گئی ہے۔
بریگیڈئر اعجاز شاہ ق لیگ کے سرپرست جنرل مشرف کے دست راست سمجھے جاتے تھے۔ ننکانہ صاحب سے 2013 ء کا الیکشن انھوں نے ق لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار کے طور پر لڑا مگر چند ہزار ووٹ سے ہار گئے۔ چوہدری پرویزالٰہی نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب ننکانہ صاحب کو ضلع کا درجہ دیا تھا۔ بے پناہ ترقیاتی کام کرائے تھے۔ سکھ یاتریوں کے لیے امرت سر سے ننکانہ صاحب تک براہ راست سڑک تعمیر کرکے دی تھی۔ مگر ان کی ان تمام خدمات کو فراموش کرکے اعجاز شاہ پی ٹی آئی میں جا پہنچے ۔ ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی بھرپور حمایت حاصل کرنے میں بھی کام یاب ہو گئے ۔ عمران خان خود ان کے انتخابی جلسے میں پہنچے۔
پورا دن یہ جلسہ ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا۔ انتخابی نتیجہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ پی ٹی آئی کی حمایت ان کے کسی کام نہیں آ سکی ہے، اور وہ ن لیگ کے نسبتاً نئے امیدوار سے بھی لگ بھگ چالیس ہزار ووٹوں سے ہار چکے ہیں۔ عبدالعلیم خاں2002ء کا الیکشن ہار چکے تھے ۔ بظاہر ان کا کریئر ختم ہوچکا تھا۔ چوہدری پرویزالٰہی نے ضمنی الیکشن میں انکو ق لیگ کا ٹکٹ دیا ۔ ان کی بھرپور حمایت کی۔ عبدالعلیم خان کام یاب ہو گئے تو انکو صوبائی وزیر بھی بنا دیا۔ ان کی انتخابی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ان کی سفارش پر ان کے حلقہ میں ہر طرح کے ترقیاتی کام کرائے گئے۔ صوبائی دارالحکومت میں ان کو چوہدری پرویزالٰہی کا چہیتا وزیر سمجھا جاتا تھا۔ لیکن 2008 ء کے الیکشن کے بعد جب ق لیگ چاروں طرف سے مشکلات میں گھر گئی توعبدالعلیم خان نے چوہدری پرویزالٰہی کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا اور پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے۔
لطف یہ ہے کہ عمران خان کے بھی وہ اتنے ہی قریب ہیں ، جتنے کبھی چوہدری پرویزالٰہی کے قریب تھے۔ لیکن تبدیلی ِجماعت اور بھرپور مالی وسائل خرچ کرنے کے باوجود 2013 ء کا الیکشن ہار گئے، بلکہ اس نشست پر ہونے والا ضمنی الیکشن بھی ہا ر چکے ہیں۔ امتیاز الدین ڈار ق لیگ کے ٹکٹ پر تحصیل سیالکوٹ کے ناظم بنے ۔ چوہدری پرویزالٰہی کے دور ِ وزارت اعلیٰ میں ان کی سرپرستی سے ہی وہ سیالکوٹ شہر میں ابھر سکے تھے۔ ان کے دونوں بیٹے عمر ڈار اور عثمان ڈار بھی ق لیگ کی قیادت کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ عمرڈار نے 2008ء کا الیکشن ق لیگ کے ٹکٹ پر لڑا مگر کام یاب نہ ہو سکے۔
اگر 2008 ء میں ق لیگ کام یاب ہو جاتی تو اس خاندان کے ق لیگ چھوڑنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن جیت کی لگن انکو بھی پی ٹی آئی میں لے گئی ۔ 2013 ء کا الیکشن عثمان ڈار نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑا لیکن وہ ہار گئے۔ وزیر آباد کے حالیہ ضمنی الیکشن میں حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے کی ناکامی تازہ ترین مثال ہے۔ ق لیگ کے دورحکومت میں حامد ناصر چٹھہ نے اپنی ' لیگ'چوہدری برادران کی ق لیگ میں ضم کر دی تھی۔
ان کے بیٹے گوجرانوالہ کے 'ناظم' منتخب کیے گئے۔ 2008ء میں حامد ناصر چٹھہ ق لیگ کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑے مگر ہار گئے۔2013 ء میں بھی کام یاب نہ ہو سکے۔ اتفاق سے ن لیگ کے رکن اسمبلی کی نااہلی سے یہ نشست خالی ہو گئی۔ حامد ناصر چٹھہ نے بھی وہی سستا نسخہ آزمانے کا فیصلہ کیا ۔ پی ٹی آئی میں اس شرط پر شامل ہو گئے کہ ضمنی الیکشن میں ان کے بیٹے کو اور2018 ء میں انکو پی ٹی آئی کا ٹکٹ دیا جائے گا۔ عمران خان نے دونوں شرائط تسلیم کر لیں۔
ان کے بیٹے کے لیے انتخابی جلسہ کرنے بھی گئے۔ ن لیگ کو اس ضمنی الیکشن میں مقامی مذہبی حلقوں کی طرف سے بھی بوجوہ شدید مخالفت کا سامنا تھا اور اس کے خلاف مسجدوں سے اعلانات بھی کیے جاتے رہے۔ مگر نتیجہ اس کے باوجود حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے کی شکست کی صورت میں ہی نکلا ہے۔ پی ٹی آئی میں ق لیگ کے جہانگیر ترین استثنا قرار پا سکتے ہیں۔
یہ تو الیکشن2013 اورضمنی الیکشن کے انتخابی نتائج تھے۔ بلدیاتی الیکشن میں بھی ایسا ہی ہوا۔ جو لوگ خاص بلدیاتی الیکشن کے تناظر میں ق لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں گئے تھے، وہ بھی سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ گوجرانوالا کے چیمے ، مریدکے کے ملک اور اوکاڑہ کے نکئی بھی ہار گئے۔ اس طرح ق لیگ سے جو لوگ پی ٹی آئی میں گئے ، اس کا ق لیگ کو جو نقصان ہوا، سو ہوا ، مگر پی ٹی آئی کو بھی فائدہ نہیں ہوا۔
اس کے برعکس گجرات ، بہاولپور اور بعض دوسرے اضلاع میں ق لیگ کے جن امیدواروں نے بدترین حالات میں بھی پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑا ، وہ جیت گئے ہیں۔ صوبہ میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی نشستیں قریب قریب برابر ہو چکی ہیں۔ ق لیگ سے پی ٹی آئی میں جانے والے ق لیگ کے جو لوگ اس طرح ہارے ہیں ، ان کے ہارنے کی دو وجوہات بڑی واضح ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ضلعی سطح پرجو نوجوان ووٹر اس امید پر پی ٹی آئی کی طرف لپکا تھا کہ ضلعی سطح پر اس کے آس پاس بھی چہرے تبدیل ہوں گے، اس نے جب دیکھا کہ وہی اس کے جانے پہچانے چہرے، جنکو وہ بدلنا چاہتے تھا، اب پی ٹی آئی کی سٹمپ لگوا کر اس سے ووٹ مانگنے آ گئے ہیں تو وہ بددل ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔
ق لیگ کے لوگ تو ہارے ہیں، پیپلزپارٹی کے اس طرح کے کئی لوگ ضمانتیں ضبط کروا بیٹھے ہیں۔ جہانگیر ترین کی طرح پیپلزپارٹی کے شاہ محمود قریشی بھی استثنا ہیںکہ موصوف مسلم لیگ میں ہوں، پیپلزپارٹی میںہوں یا پی ٹی آئی میں ، خاص اپنے اثرورسوخ سے کام یاب ہوتے ہیں۔ پارٹی کا محض تڑکا لگا ہوتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان نے یکے بعد دیگرے اتنے یوٹرن لیے ہیں کہ دوسری پارٹیوں کا جو سنجیدہ ووٹر ہر طرف سے مایوس ہو کر ان کی طرف کھنچا تھا ، وہ بھی تذبذب کا شکار ہو گیا ہے۔
عمران خان کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ اپنے سوا ، وہ کسی اور کے ساتھ چل ہی نہیں سکتے ہیں ۔ پرانی باتوں کا تذکرہ نہ بھی کریں ، پارٹی الیکشن میں اپنے قائم کردہ الیکشن کمیشن کے ساتھ وہ نبھا نہیں کر سکے ہیں ۔ پہلے پارٹی الیکشن کے بعد جسٹس ( ر ) وجیہ الدین سے الجھ گئے، اب تسنیم نورانی احتجاجاً استعفا دے کر گھر جا چکے ہیں۔ لوگ یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ آج آپ ڈھنگ سے پارٹی الیکشن نہیں کرا پا رہے ہیں،کل آپکو جنرل الیکشن کرانے پڑ گئے تو کیا کریں گے۔ یوں دوسری پارٹیوں سے ٹوٹ کر آنے والا سنجیدہ ووٹر واپس اپنی پارٹیوں کی طرف کوچ کر چکا ہے۔
الیکشن 2013ء کے بعد ق لیگ دھاندلی کے حوالہ سے یکساں موقف رکھنے کی وجہ سے میں پی ٹی آئی کے قریب آ گئی ۔ امکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ پنجاب میں دونوں اکٹھی ہو کر بطور اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہیں۔ حکومت کے خلاف دھرنا تحریک نے دونوں کو مزید قریب کر دیا ۔ مگر اس دوران بھی پی ٹی آئی کی حکمت عملی یہی رہی کہ ق لیگ کی قیادت کو بائی پاس کرکے اس کے مضبوط امیدواروں کو براہ راست اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔ یہ حکمت عملی اس وقت بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی، جب خود عمران خان نے ق لیگ کے طارق بشیر چیمہ کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دے دی۔
طارق بشیر چیمہ نے مگر انکار کر دیا ۔ بعد اس کے چوہدری برادران عمران خان کے بارے میں مزید محتاط ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی اس حکمت عملی کا سارے کا سارا نقصان فی الحال پنجاب میں اپوزیشن کیمپ کو ہوا ہے کہ اس کے متحد ہونے کا خواب بکھر کے رہ گیا ہے،اور فائدہ سارے کا سارا ن لیگ کو پہنچا ہے، جسکو وہ نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ۔عمران خان اپوزیشن کی سیاست کو سمجھ ہی نہیں سکے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا ،
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی