بلوچستان اور کراچی میں صورتحال خراب کرنے کا ہدف ملا گرفتار ’’را‘‘ افسر کا اعترافی بیان
پاکستان کی سالمیت کے خلاف کارروائیوں میں بھی ملوث رہا ہوں، کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان
بلوچستان سے گرفتارہونے والے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ کلبھوشن یادو نے اپنے ویڈیو بیان میں اعتراف کیا ہے کہ اسے بلوچستان اور کراچی میں صورتحال خراب کرنے کا ہدف ملا جب کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف کارروائیوں میں بھی ملوث رہا ہوں۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے پریس کانفرنس کے دوران بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے گرفتار ایجنٹ کے اعترافی بیان کی ویڈیو چلائی جس میں ''را'' کے ایجنٹ نے اپنا نام کلبھوشن یادیو بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ممبئی کا رہائشی اور بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے جس میں اس کا تعلق ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ سے ہے جب کہ نیوی میں اس کا نمبر 41558 زیڈ ہے۔ کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ اس نے 1987 میں نیشنل ڈیفنس اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد جنوری 1991 میں انڈین نیوی میں اس کی شمولیت بطور کمیشن آفیسرہوئی جہاں سے اس کی بطور کمیشن افسر ریٹائرمنٹ 2022 میں ہونا تھی۔
کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ وہ دسمبر2001 تک انڈین نیوی میں خدمات سرانجام دیتا رہا، اس کے بعد بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور یہ وہ وقت تھا جس کے بعد 2002 میں اپنی 14 سالہ نیوی کی سروس کے بعد 2003 میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کے فرائض سرانجام دینا شروع کردیئے جب کہ اس کے لیے اپنا کوڈ نام حسین مبارک پٹیل رکھا جو بھارتی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کی وجہ سے اپنایا۔ بھارتی ایجنٹ نے مزید اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جاسوسی کے لیے ایران چلا گیا اور چاہ بہار میں اپنا ایک چھوٹا کاروبار شروع کردیا، اس دوران 2003 اور 2004 میں اپنے خفیہ نام کے ساتھ کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ''را'' کے لیے کچھ بنیادی اہداف پورے کرنا تھے اور اس کے عوض اسے 2013 کے اوآخر میں بھارت کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ''را'' میں شامل کرلیا گیا۔ کل بھوشن نے بتایا کہ بطور ''را'' آفیسر اسے بلوچستان اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا ہدف بھی دیا گیا تھا جب کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مقصد عوام میں خوف ہراس پھیلانا تھا۔
بھارتی خفیہ ایجنٹ نے اپنے اعتراف میں بتایا کہ وہ ''را'' کے جوائنٹ سیکرٹری انیل کمار گپتا کے ماتحت کام کرتا ہے، انیل کمار گپتا کے پاکستان میں موجود رابطوں خاص طور پر بلوچ اسٹوڈنٹ تحریک کو چلانا اس کا کام تھا، ''را'' کی طرف سے بلوچ باغیوں کے لیے فنڈنگ بھی کی جاتی تھی جب کہ اس کا مقصد بلوچ باغیوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا، ان کی مدد اور اشتراک سے کارروائیاں کروانا تھا، یہ کارروائیاں مجرمانہ اور قومی سالمیت کے خلاف تھیں جنہیں دہشت گردانہ کارروائیاں کہہ سکتے ہیں اوران کا مقصد شہریوں کو ہلاک کرنا یا نقصان پہنچانا تھا۔
کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ اس پورے عرصے میں اسے پتا چلا کہ بلوچ لبریشن کی کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' پوری طرح ملوث ہے اور ان کارروائیوں کی زد میں پاکستان اور ارد گرد کا خطہ بھی شامل ہے، ان تمام تر سرگرمیوں کا زیادہ دائرہ کار اس کی معلومات پر مبنی ہوتا جوکہ گوادر ، پسنی جیونی اور پورٹ کے گرد بہت ساری دوسری تنصیبات پر مشتمل ہوتیں جن کا مقصد بلوچستان میں موجود تنصیبات کو نقصان پہنچانا اور بلوچ لبریشن میں مجرمانہ سرگرمیوں کی ذہنیت کو مضبوط کرنا ہوتا تھا تاکہ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جائے۔
کلبھوشن کے مطابق 3 مارچ کو ''را'' کے افسران کی طرف سے اسے دیئے گئے مختلف اہداف کے حصول کے لیے پاکستان جارہا تھا جہاں داخل ہونے کا بنیادی مقصد بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بلوچستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے میٹنگ کرنا تھا اور وہ پیغامات بھارتی ایجنسیوں کو دینا تھے، میٹنگ کا بنیادی کام یہی تھا کہ ''را'' مستقبل میں بلوچستان میں کچھ بڑی کارروائیاں پلان کرنا چاہتی تھی اورکارروائیوں کے متعلق بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات چیت کرنا تھی لیکن ایران کے ساراوان باڈر سے پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔
بھارتی ایجنٹ نے بتایا کہ اسے پتہ چل گیا کہ اس کے انٹیلی جنس آپریشن ناکام ہوچکے ہیں اور وہ پاکستانی حکام کی حراست میں آچکا ہے جس کے باعث اپنی شناخت ظاہر کردی۔ کلبھوشن کے مطابق دوران تفتیش پاکستانی حکام نے اس کے ساتھ اچھا اور پیشہ وارانہ برتاؤ کیا جب کہ اس نے اپنے بیان میں جو کچھ کہا وہ بغیر کسی دباؤ کے دے رہا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے پریس کانفرنس کے دوران بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' کے گرفتار ایجنٹ کے اعترافی بیان کی ویڈیو چلائی جس میں ''را'' کے ایجنٹ نے اپنا نام کلبھوشن یادیو بتاتے ہوئے کہا کہ وہ ممبئی کا رہائشی اور بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے جس میں اس کا تعلق ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ سے ہے جب کہ نیوی میں اس کا نمبر 41558 زیڈ ہے۔ کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ اس نے 1987 میں نیشنل ڈیفنس اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد جنوری 1991 میں انڈین نیوی میں اس کی شمولیت بطور کمیشن آفیسرہوئی جہاں سے اس کی بطور کمیشن افسر ریٹائرمنٹ 2022 میں ہونا تھی۔
کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ وہ دسمبر2001 تک انڈین نیوی میں خدمات سرانجام دیتا رہا، اس کے بعد بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا اور یہ وہ وقت تھا جس کے بعد 2002 میں اپنی 14 سالہ نیوی کی سروس کے بعد 2003 میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کے فرائض سرانجام دینا شروع کردیئے جب کہ اس کے لیے اپنا کوڈ نام حسین مبارک پٹیل رکھا جو بھارتی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کی وجہ سے اپنایا۔ بھارتی ایجنٹ نے مزید اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جاسوسی کے لیے ایران چلا گیا اور چاہ بہار میں اپنا ایک چھوٹا کاروبار شروع کردیا، اس دوران 2003 اور 2004 میں اپنے خفیہ نام کے ساتھ کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ''را'' کے لیے کچھ بنیادی اہداف پورے کرنا تھے اور اس کے عوض اسے 2013 کے اوآخر میں بھارت کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ''را'' میں شامل کرلیا گیا۔ کل بھوشن نے بتایا کہ بطور ''را'' آفیسر اسے بلوچستان اور کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا ہدف بھی دیا گیا تھا جب کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مقصد عوام میں خوف ہراس پھیلانا تھا۔
بھارتی خفیہ ایجنٹ نے اپنے اعتراف میں بتایا کہ وہ ''را'' کے جوائنٹ سیکرٹری انیل کمار گپتا کے ماتحت کام کرتا ہے، انیل کمار گپتا کے پاکستان میں موجود رابطوں خاص طور پر بلوچ اسٹوڈنٹ تحریک کو چلانا اس کا کام تھا، ''را'' کی طرف سے بلوچ باغیوں کے لیے فنڈنگ بھی کی جاتی تھی جب کہ اس کا مقصد بلوچ باغیوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رکھنا، ان کی مدد اور اشتراک سے کارروائیاں کروانا تھا، یہ کارروائیاں مجرمانہ اور قومی سالمیت کے خلاف تھیں جنہیں دہشت گردانہ کارروائیاں کہہ سکتے ہیں اوران کا مقصد شہریوں کو ہلاک کرنا یا نقصان پہنچانا تھا۔
کلبھوشن یادیو نے بتایا کہ اس پورے عرصے میں اسے پتا چلا کہ بلوچ لبریشن کی کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را'' پوری طرح ملوث ہے اور ان کارروائیوں کی زد میں پاکستان اور ارد گرد کا خطہ بھی شامل ہے، ان تمام تر سرگرمیوں کا زیادہ دائرہ کار اس کی معلومات پر مبنی ہوتا جوکہ گوادر ، پسنی جیونی اور پورٹ کے گرد بہت ساری دوسری تنصیبات پر مشتمل ہوتیں جن کا مقصد بلوچستان میں موجود تنصیبات کو نقصان پہنچانا اور بلوچ لبریشن میں مجرمانہ سرگرمیوں کی ذہنیت کو مضبوط کرنا ہوتا تھا تاکہ پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلا جائے۔
کلبھوشن کے مطابق 3 مارچ کو ''را'' کے افسران کی طرف سے اسے دیئے گئے مختلف اہداف کے حصول کے لیے پاکستان جارہا تھا جہاں داخل ہونے کا بنیادی مقصد بلوچ علیحدگی پسندوں کے ساتھ بلوچستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے میٹنگ کرنا تھا اور وہ پیغامات بھارتی ایجنسیوں کو دینا تھے، میٹنگ کا بنیادی کام یہی تھا کہ ''را'' مستقبل میں بلوچستان میں کچھ بڑی کارروائیاں پلان کرنا چاہتی تھی اورکارروائیوں کے متعلق بلوچ علیحدگی پسندوں سے بات چیت کرنا تھی لیکن ایران کے ساراوان باڈر سے پاکستان کی سرحد عبور کرتے ہوئے پاکستانی حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا۔
بھارتی ایجنٹ نے بتایا کہ اسے پتہ چل گیا کہ اس کے انٹیلی جنس آپریشن ناکام ہوچکے ہیں اور وہ پاکستانی حکام کی حراست میں آچکا ہے جس کے باعث اپنی شناخت ظاہر کردی۔ کلبھوشن کے مطابق دوران تفتیش پاکستانی حکام نے اس کے ساتھ اچھا اور پیشہ وارانہ برتاؤ کیا جب کہ اس نے اپنے بیان میں جو کچھ کہا وہ بغیر کسی دباؤ کے دے رہا ہے۔