کہانی ایک جاسوس کی

اگر پاکستان میں دہشتگردی کو روکنا ہے تو غیر ملکی جاسوس سرعام لٹکانے ہوں گے، یہی ہمارے مسائل کا بنیادی حل ہے۔


عثمان فاروق March 30, 2016
ان تمام تر حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد یہ سمجھنا کسی کیلئے بھی مشکل نہیں کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے بھارت کے خلاف کتنا بڑا ثبوت ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

آپ نے اکثر ایکشن فلموں کے ٹائٹل پر ایک انگریزی فقرہ سنا ہوگا ''One Man Army''۔ یہ اصطلاح ایسے فرد یا فوجی کے لیے استعمال ہوتی ہے جو دشمن کی پوری فوج کے برابر ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ یہ اصطلاح کب اور کس نے استعمال کی؟ تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ بھی بتائے دیے دیتے ہیں کہ پہلی بار اِس اصطلاح کا استعمال اسرائیلی وزیراعظم نے 1965ء میں اُس وقت کیا تھا جب شام نے اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن (Eli Cohen) کو سرعام پھانسی دی تھی۔

ایلی کوہن ایک اسرائیلی تھا مگر اسکو عربی زبان پر عبور حاصل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے شام کی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں اس قدر اثر و رسوخ حاصل کیا کہ اسے شامی وزارت دفاع میں بطور مشیر ذمہ داریاں تک دے دی گئیں، صرف یہی نہیں بلکہ اعزازی طور پر میجر کا عہدہ بھی دیا گیا تھا۔

 

ایلی کوہن اپنا کام انتہائی ذہانت سے کررہا تھا اور شام کو اُس پر بالکل بھی شک نہیں تھا، لیکن مسئلہ تو روس نے خراب کیا۔ یقیناً یہ سوال ذہن میں گردش کررہے ہونگے کہ یہاں روس کا کیا کام؟ جی بالکل، یہاں روس کا کام ہے۔ اصل میں جب بھی ایلی کوہن اپنے ملک اسرائیل بذریعہ سیٹیلائٹ رابطہ کرنے کی کوشش کرتا تو روس کے سگنل بُری طرح متاثر ہوتے۔ جب معاملہ زیادہ پیچیدہ ہوا تو روس نے شام سے شکایت کی، لیکن شام نے واضح طور پر انکار کیا کہ اُن کی طرف سے تو ایسا کچھ نہیں کیا جارہا۔ پھر جب روس نے باقاعدہ ثبوت فراہم کیے تو شام نے تحقیقات کا آغاز کیا تو سراغ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایلی کوہن کے گھر تک پہنچ گئے اور 24 جنوری 1965ء کو ایلی کوہن ریڈیو سگنل بھیجتا ہوا گرفتار ہوگیا۔ شام کی فوجی عدالت سے اسکو سزائے موت سنائی جس کو رکوانے کے لیے دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے مگر 18 مئی 1965ء کو شام کے شہر دمشق میں اسکو سرِعام پھانسی دے دی گئی۔



کہا جاتا ہے کہ 6 دن کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی فتح میں ''ایلی کوہن'' کی جاسوسی سے اکٹھی کی گئی معلومات کا بہت بڑا کردار شامل تھا۔ دفاعی امور کے ماہرین جانتے ہیں کہ جنگ جیتنے میں جاسوسی کا ایک بہت بڑا کردار شامل ہوتا ہے اور کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جنگ تو دارصل ہوتی ہی جاسوسی کے میدان میں ہے، اگر اِس میدان میں اچھا کام کرلیا گیا تو میدان میں دشمن سے لڑنا ہرگز مشکل نہیں ہوتا۔

اِس تمام تر تمہید کے بعد آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ کچھ دن پہلے پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے بھارتی نیوی کا حاضر سروس کمانڈر ''کلبھوشن یادیو'' پکڑا جاتا ہے۔ یادر رہے کہ بھارتی نیوی کا ''کمانڈر'' کا درجہ پاکستان کے ''لیفٹیننٹ کرنل'' کے برابر ہوتا ہے۔ یہ گرفتاری تاریخی اعتبار سے بہت اہم ہے، اور اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زمانہ امن میں کسی ملک کا اتنا ہائی رینک جاسوس اِس سے پہلے کبھی گرفتار نہیں ہوا۔ کمانڈر کلبھوشن یادیو کے مطابق اس کا آرمی نمبر 41558Z ہے اور وہ پچھلے چار سال سے بلوچستان اور کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہا تھا۔ اسکا کور نام ''مبارک حسین پٹیل'' تھا اور وہ مسلمان بن کر کام کررہا تھا۔

گزشتہ دنوں غیر معمولی طور پر وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل عاصم باوجوہ نے غیر معمولی معاملے پر مشترکہ پریس کانفرنس کی اور اِسی پریس کانفرنس کے دوران کلبھوشن یادیو کی ویڈیو منظر عام پر دکھائی جس میں وہ خصوصاً بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کے حوالے سے باتیں بتارہا تھا۔ پھر بتایا یہ بھی گیا کہ مہران بیش پر حملہ بھی اور چوہدری اسلم پر ہونے والے دھماکے میں بھی اِسی کا ہاتھ ہے۔ یہ یہاں اکیلا ہی نہیں بلکہ پورا گروپ کام کررہا ہے جن کا بنیادی مقصد پاکستان کی تباہی ہے۔ اِن سب باتوں سے بڑھ کر یہ بات بہت اہم ہے کہ کلبھوشن براہ راست بھارت سیکورتی کے مشیر اجیت ڈوول سے احکامات لیتے تھے۔ یاد رہے کہ یہ وہی اجیت ڈوول ہیں جو اِس وقت پاک بھارت مذاکرات کے حوالے سے بھارت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ دو ممالک کے درمیان تعلقات کس طرح اچھے ہوسکتے ہیں۔

ان تمام تر حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد یہ سمجھنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے بھارت کے خلاف کتنا بڑا ثبوت ہے۔ بس ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستانی حکومت بھارت کی محبت میں بچھنے کے بجائے تھوڑی سی ہمت دکھائے، اگر ایسا کرلیا گیا تو یہ بات ہمیشہ کے لیے ثابت ہوجائے گی بھارت قیام پاکستان کے وقت سے آج تک پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور دوستی کا صرف کھوکھلا دعوی کیا جاتا ہے جس میں بالکل بھی حقیقت نہیں ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرے گا کون؟ ذرا غور کیجئے گا کہ اگر پاکستان کا کوئی حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل بھارت میں گرفتار ہوتا تو ہندوستان اس وقت تک کیا کچھ نہ کرچکا ہوتا؟ ایسا کہنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں جب بھی کوئی دہشتگردی کا حملہ ہوتا ہے کہ تو بغیر کوئی ٹھوس ثبوت سارا الزام پاکستان پر عائد کردیا جاتا ہے۔ جب زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ ثبوت دیے جائیں تو بتایا یہ جاتا ہے کہ دہشتگرد پاکستانی بسکٹ اور کھانے پینے کا سامان استعمال کرتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ وہ پاکستان فون بھی کرتے ہیں۔ اب ہم زیادہ بہتر اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جاسوس ملنے کی صورت میں بھارت ہمارے ساتھ اب تک کیا کچھ کرچکا ہوتا۔

دوسری طرف پاکستانی میڈیا پر کچھ لوگ قوم کو یہ بتاتے ہیں کہ دیکھیے یہ جو پاکستان میں بم دھماکے ہورہے ہیں یہ ہم اپنا ہی بویا کاٹ رہے ہیں اور اپنی کمزوریوں کا بوجھ ہمیں کسی دوسرے پر نہیں ڈالنا چاہیے۔ ایسے وقت میں جب ہندوستان کا ایک حاضر سروس 'را' کا نیول کمانڈر گرفتار ہوتا ہے اور وہ پاکستان میں دہشتگردی کا اعتراف بھی کرتا ہے تو سب کو ناجانے سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے۔

اِس موقع پر ہمیں شام سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح 1965ء میں شام نے اسرائیلی جاسوس ایلی کوہن کو سرعام لٹکایا تھا ہم کو بھی بھارتی دہشتگرد جاسوس لٹکانے کی ضرورت ہے ورنہ آخری خبریں آنے تک لاہور بم دھماکے میں 74ء لوگ مارے جاچکے ہیں اور نجانے کتنے زخمی ہیں۔ لہذا اگر اس دہشتگردی کو روکنا ہے تو غیر ملکی جاسوس سرعام لٹکانے ہوں گے، یہی ہمارے مسائل کا بنیادی حل ہے۔

[poll id="1039"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں