بے اختیار بلدیاتی نظام

کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی KDA بحال ہوگئی،اب کے ڈی اے حکومت سندھ کی نگرانی میں کام کرے گی


Dr Tauseef Ahmed Khan March 30, 2016
[email protected]

کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی KDA بحال ہوگئی،اب کے ڈی اے حکومت سندھ کی نگرانی میں کام کرے گی۔ حکومت سندھ کراچی واٹر سیوریج بورڈ کا نظام پہلے ہی سنبھال چکی ہے۔کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو پہلے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کیا گیا اور حکومت سندھ کی براہ راست نگرانی میں متحرک ہے۔کے ڈی اے کو 60 کی دہائی میں قائم کیا گیا۔ مغربی پاکستان کی بیوروکریسی لاہور سے کے ڈی اے کوکنٹرول کرتی رہی تھی۔

1969 میں صوبہ سندھ کی بحالی کے بعد یہ سندھ سیکریٹریٹ ، بلدیاتی سیکشن کا حصہ بن گئی۔ ذوالفقارعلی بھٹو کے دور حکومت میں جام صادق علی بلدیات کے وزیر بنائے گئے، انھوں نے کراچی میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی ایک نئی روایت قائم کی تھی۔ سینئر صحافی کہتے ہیں کہ جام صاحب پلاٹ الاٹ کرنے کے پیسے نہیں لیتے تھے مگر منظور نظر لوگوں کو سیکڑوں پلاٹ دریا دلی سے دے رہے تھے، یوں ظاہر ہے جام صادق نے نہ صرف پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اورکارکنوں کو پلاٹ دیے تھے بلکہ حزب اختلاف والوں کو بھی مایوس نہیں کیا تھا،ان کے دور میں صحافیوں کو بھی خاصے پلاٹس ملے تھے۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں جنرلز، بیوروکریٹس اور سیاسی رہنماؤں کو کے ڈی اے والوں نے پلاٹ دیے۔ جب جنرل ضیاء الحق نے بلدیاتی انتخابات کروائے، تو جماعت اسلامی کے عبدالستارافغانی، پیپلزپارٹی کے امیدوارعبدالخالق اللہ والا کو شکست دے کر میئر بنے مگر فوجی حکومت نے کے ڈی اے کو منتخب نمایندوں کی نگرانی میں نہیں دیا۔ یہی صورتحال ایم کیو ایم کے میئر ڈاکٹر فاروق ستارکے دور میں بھی رہی۔

بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دور اقتدار میں کے ڈی اے بیوروکریسی کی کنٹرول میں رہا، جب جنرل (ر) پرویز مشرف کے فلسفی مشیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ تنویر نقوی نے نچلی سطح کے اختیارکا بلدیاتی نظام نافذ کیا تو اس نظام میں پہلی دفعہ اس تصورکو حقیقت میں تبدیل کیا گیا کہ شہرکے تمام ترقیاتی ادارے منتخب نمایندوں کی نگرانی میں ہونے چاہیے، یوں کے ڈی اے کو سٹی ڈسٹرکٹ حکومت میں ضم کردیا گیا۔

یہی وجہ تھی کہ اس نظام کے تحت منتخب ہونے والے ناظمین نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال نے شہر میں نئے ترقیاتی منصوبے شروع کیے ۔کراچی میں نئی سڑکوں اوور ہیڈ برجز، انڈر پاسزکا جال بچھ گیا ۔مصطفیٰ کمال کے دور میں متحدہ قومی موومنٹ کو سٹی ڈسٹرکٹ کارپوریشن کونسل اور ٹاؤن کی کونسلوں میں قطعی اکثریت حاصل تھی اور ایم کیو ایم اپنی عسکری قوت کو بھی استعمال کرتی تھی۔

اس لیے منتخب کونسلروں پر مشتمل کونسل کو وہ کردار ادا کرنے کا موقع نہیں ملا جس کے تحت وہ منتخب ناظم کا احتساب کرتے اور ناظم ترقیاتی منصوبوں کو بحث کے لیے ایوان کے سامنے پیش کرتے۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں خاص طور پر لیاری سمیت قدیم گوٹھوں اور پنجابی پختون اکثریتی آبادی کی بستیوں میں ترقیاتی کام نہیں کیے گئے، اسی طرح کراچی ماس ٹرانزٹ منصوبے کا آغاز بھی نہیں ہوا۔بلدیاتی نظام پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جنرل نقوی کا تیارکردہ نچلی سطح تک اختیارات کا نظام برقرار رہتا اور شہر میں سیاسی موسم تبدیل ہوتا توکونسل کے اراکین زیادہ فعال ہوجاتے۔

جنرل(ر) پرویز مشرف کے نظام کی بنیادی خامی یہ تھی کہ ٹاؤن اور سٹی گورنمنٹ اسلام آباد سے کنٹرول ہوتے تھے جس کی وجہ سے صوبائی خود مختاری پامال ہورہی تھی اور صوبے اپنی حیثیت کھورہے تھے۔

پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیربھٹو نے 1988 میں نئے سوشل کنٹریکٹ کو اپنے منشور میں شامل کیا تھا،یہ سوشل کنٹریکٹ ، برطانیہ کاؤنٹی کے طرز پر ٹاؤن جیسا منصوبہ تھا مگر بینظیر بھٹوکو اپنی دونوں حکومتوں میں اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے کا موقع نہیں ملا تھا مگر جب پیپلز پارٹی نے 2008 میں اقتدارسنبھالا ، تو زرداری اور ان کے ساتھیوں کے ذہن میں بلدیاتی نظام کا کوئی خاکہ نہیں تھا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت بلدیاتی نظام کو اپنے عزائم کی عملی تعبیر میں رکاوٹ سمجھتی ہے، یوں پہلے تو بلدیاتی نظام کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے وزراء نچلی سطح تک اختیارات کے اس نظام کو فوجی ڈکٹیٹر جنرل (ر) مشرف کا تحفہ قرار دیتے رہے مگر پھر خاموشی سے اپنے جماعت کے قائد ذوالفقارعلی بھٹو کے قاتل جنرل ضیاء الحق کے بلدیاتی نظام کو سندھ میں نافذکردیا۔اس نظام میں منتخب نمایندوں کے پاس انتظامی ومالی اختیارات نہیں ہیں۔

اس کے بعد مجوزہ کراچی میونسپل کارپوریشن کے محکمے چھیننے کا عمل شروع ہوا سب سے پہلے کراچی بلڈنگ کنٹرولر اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ضم کیا گیا ۔ وزیر بلدیات نے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا نظام سنبھال لیا اور سندھ اسمبلی کے رکن کو واٹر بورڈکا چیئرمین مقرر کیا۔ واٹر بورڈ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پسندیدہ افراد کو تعینات کیا گیا۔ حکومت سندھ کے ان اداروں کے نظام سنبھالنے کے بعد ان کی کارکردگی مزید خراب ہوتی چلی گئی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ناقص پالیسی کے نتیجے میں شہر بلند عمارتوں کے جنگل میں تبدیل ہوگیا۔

کراچی یونیورسٹی، شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر مطاہراحمد جوکراچی کے متوسط طبقے کی قدیم آبادی پی سی ای ایچ ایس میں پیدا ہوئے ہیں ۔کہتے ہیں کہ جب ٹی وی اسٹیشن سے خالد بن ولید روڈ پر داخل ہوتے ہیں تو سڑک کے دونوں کناروں پر اتنی بلند عمارتیں تعمیر ہوگئی ہیں ایک لمحے کو آدمی خوف کا شکار ہوجاتا ہے۔

سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے پی سی ای ایچ ایس، بہادر آباد' گلستان جوہر' ناظم آباد کی مرکزی شاہراہوں پر دس اور بیس منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت تو دے رہے ہیں ، مگر اندرونی علاقوں میں ایک سے زیادہ منزل کی تعمیر کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں اتنی لوٹ مار ہوئی کہ نیب ، ایف آئی اے اور رینجرزکو مداخلت کا موقع ملا۔ اتھارٹی کے سابق سربراہ عدالت کا سامنا کرنے کے بجائے کینیڈا بھاگ گئے، دوسرے سربراہ کے تقررکو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا۔

واٹر بورڈ کی نااہلی کی بنا پر آدھے شہرکو پانی میسر نہیں ہے اور شہر کے ہر علاقے میں سیوریج لائن کا بند ہونا عام سی بات بن گئی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ ان محکموں کی ناقص کارکردگی کی ذمے داری ملک کے مختلف علاقوں سے ہونے والی ہجرت پر عاید کرتے ہیں وہ کسی صورت اچھی طرز حکومت کی اہمیت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ بلدیات کی امور پر تحقیق کرنے والے ماہرین کہتے ہیںکہ پنجاب کی حکومت نے بھی بلدیاتی اداروں سے اہم محکمے چھین لیے اور مختلف قسم کی اتھارٹیز بنا دی ہیں۔

ان میں سے سالڈ مینجمنٹ بورڈ ' فوڈ کنٹرول اتھارٹی قابل ذکر ہیں۔ فوڈ کنٹرول اتھارٹی کی خاتون سربراہ کے اقدامات کا پورے ملک میں چرچا ہوتا ہے ۔ حکومت پنجاب کی اچھی طرز حکومت کی بنا پر وہاں بلدیاتی اداروں کو بے اختیار کرنے کا معاملہ کوئی سنجیدہ موضوع نہیں بن سکا ، مگر سندھ میں شہری ودیہی علاقوں کے درمیان تضادات گہرے ہیں۔

سندھ حکومت کا انتظام چلانے والی بیوروکریسی نے شہری علاقوں کے افسروں کی نمایندگی بہت کم ہوگئی ہے۔ سندھ کابینہ میں شہری علاقوں کی کوئی نمایندگی نہیں ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے ووٹرز کومطمئن کرنے کے لیے کراچی صوبے کا نعرہ لگایا۔ محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی قیادت کی اسی پالیسی کی وجہ سے ایم کیو ایم کو ہمدردی کا تحفہ مل رہا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی اندرون سندھ ایم کیو ایم کا خوف دلا کر اپنی مقبولیت قائم کرنا چاہتی ہے اور ایسے ہی بینیفیٹ ایم کیو ایم کو بھی دے رہی ہے ، مگر یہ انتہائی خطرناک سوچ ہے، ایم کیو ایم کے کراچی صوبے کے انتہائی خطرناک مضمرات برآمد ہوسکتے ہیں۔

بعض وکلاء کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے سامنے آج کل بلدیاتی اداروں کے اختیارات کی منتقلی کا معاملہ زیرغور ہے۔

سندھ حکومت آئین کے آرٹیکل 104کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ سپریم کورٹ بلدیاتی اداروں کو اختیارات دینے کے معاملے پر جامع فیصلہ کرے گی یوں پیپلز پارٹی کو مجبوراً بلدیاتی اداروں کو یہ محکمے واپس کرنے پڑیں گے ۔کیا پیپلز پارٹی میں کوئی ایسا رہنما موجود نہیں جو اپنی قیادت کو سمجھا سکے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پہلے وہ خود کیوں نہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنی پالیسی تبدیل کرلیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں