ایک کہانی عابدہ حسین کی زبانی 1

سیدہ عابدہ حسین منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پنجاب کے ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئیں


Zahida Hina March 30, 2016
[email protected]

آج قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمیں عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والی اور خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی چنی ہوئی اراکین کی لہر بہر نظر آتی ہے لیکن ایک زمانہ وہ بھی تھا جب مرد اراکین اسمبلی کسی خاتون رکن کے برابر میں بیٹھنے کو اپنی توہین خیال کرتے تھے۔ یہ بات ہمیں ملک کی نہایت اہم خاتون سیاست دان سیدہ عابدہ حسین کی ضخیم خود نوشت Power Failure سے معلوم ہوتی ہے جو 2015 میں شایع ہوئی۔

سیدہ عابدہ حسین منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پنجاب کے ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ سید عابد حسین اور کشور عابد حسین کی اکلوتی بیٹی جس نے اپنی ابتدائی تعلیم سوئٹزر لینڈ میں حاصل کی۔ جسے ہارورڈ میں پڑھنے کی حسرت رہی لیکن والد کی ناوقت موت کے سبب یہ ممکن نہ ہوسکا۔ اپنا یہ خواب انھوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو ہارورڈ یونیورسٹی بھیج کر پورا کیا۔

اپنی کتاب کا آغاز کرتے ہوئے وہ یہ تذکرہ کرنا نہیں بھولتیں کہ انھوں نے برٹش انڈیا میں آنکھ کھولی اور ایک ایسے پاکستان میں ہوش سنبھالا جو برصغیر کے دو شاندار حصوں پر مشتمل تھا جن میں سے ایک وادیء سندھ اور دوسرا برہم پتر کا ڈیلٹا تھا۔ اب مرحوم مشرقی پاکستان کا کون اس دل داری اور درد سے ذکر کرتا ہے۔

وہ سید عابد حسین اور کشور عابد حسین کی اکلوتی اولاد تھیں اور ایک بڑی جاگیر کی وارث ۔ وہ اپنے نانا پر ناز کرتی ہیں جو کاروبار میں اپنی محنت سے اس مقام پر پہنچے کہ انھوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو ایچی سن کالج اور اپنی بیٹیوں کو کوئین میری میں پڑھایا۔ متوسط طبقے کا ایک پڑھا لکھا گھرا نا جب کہ داد یہال کی طرف سے وہ اپنی بارہ پشتوں کا ذکر کرتی ہیں۔ پشتینی زمیندار اور جاگیردار۔

انھوں نے جب لاہور سے او لیول کیا اور انھیں یہ معلوم ہوا کہ اے لیول کے لیے انھیں سوئٹزر لینڈ بھیجا جارہا ہے اور وہ مونیرے میں پڑھیں گی تو ان کی خوشی دیدنی تھی اور وہ اپنے والدین کی بے حد شکر گزار ہوئی تھیں۔ اس وقت انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ انھیں اس لیے ملک سے باہر بھیجا جارہا ہے کہ اس وقت کے صدر جنرل ایوب خاب نے ان کے والد سے عابدہ کا ہاتھ اپنے بیٹے طاہر ایوب خان کے لیے مانگ لیا تھا۔

یہ رشتہ اس وقت کے گورنر پنجاب نواب صاحب کالا باغ لے کر آئے تھے۔ دراصل کچھ دنوں پہلے مری میں عابدہ اور طاہر خان کی ملاقات دونوں گھرانوں کے ایک مشترک دوست کے گھر پر ہوئی تھی۔ یہ 1962 کے دن تھے اور گھر جا کر طاہر نے اپنی خواہش کا اظہار ایوب خان سے کیا تھا۔

یہ بات عابدہ حسین کو بہت دنوں بعد معلوم ہوئی کہ سوئٹزر لینڈ میں تعلیم کا سہرا دراصل طاہر ایوب خان کے سر تھا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ جب ان کے والدین کو اپنی اکلوتی بیٹی میں طاہر کی دلچسپی کا علم ہوا تو انھوں نے فوراً ہی بیٹی کا بوریا بستر لپیٹ کر اسے تعلیم کے لیے یورپ بھیج دیا۔

عابدہ حسین جو اپنے قریبی حلقے میں 'چندی بی بی' کہلاتی ہیں انھوں نے پاکستانی سیاست میں ایک عورت کے سفر کو بہت دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ 'چندی بی بی جو ہمارے مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہیں، جن کی جاگیر ، گھڑپال جاگیر، اعلیٰ نسل کے گھوڑوں اور مویشیوں کے اصطبل پاکستان میں ہی نہیں، باہر بھی شہرت رکھتے ہیں۔

ان کے اعلیٰ نسل گھوڑوں کی شہرت کے سبب ہی ایک ملاقات میں ملکہ الزبتھ نے جب ان سے ان کے گھوڑوں کی عالی نسبی کے بارے میں سوال کیا تو عابدہ حسین نے انھیں یاد دلایا تھا کہ ملکہ کا مشہور گھوڑا Aureole ان کے اصطبل کی کئی گھوڑوں پر نظر کرم کر چکا ہے۔ شاندار اور نجیب الطرفین (جی ہاں شجرئہ نسب رکھنے والے گھوڑے بھی نجیب الطرفین کہلاتے ہیں) گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھی ہوئی خوبرو اور خوش ادا چندی بی بی کو جن لوگوں نے بھی دیکھا ہے انھیں دوبارہ دیکھنے کی آرزو کی ہے۔

عابدہ حسین نے سوئٹزر لینڈ سے اے لیول کیا، فلورنس سے فنون لطیفہ کی تاریخ پڑھی اور جب انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بی اے پاس ہونے کی شرط لگائی گئی تو انھوں نے 2002 میں یہ شرط پوری کی ۔ عابدہ حسین کی یہ خود نوشت پاکستانی سیاست کو سمجھنے میں ہمیں مدد دیتی ہے۔

اس کو پڑھتے ہوئے ہم پر یہ بھی آشکار ہوتا ہے کہ اگر ایک باپ ایسے سربراہ مملکت کو اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کر دے جس نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا، تو جنرل اسے اپنی توہین خیال کرتا ہے۔ اس کا طیش اپنی انتہا کو پہنچتا ہے اور سابق وزیراعظم فیروز خان نون کی بیگم مسز وقار النسا نون کو ان کے گھر پہنچ کر ان کے والدین کو مشورہ دینا پڑتا ہے کہ وہ فوری طور پر عابدہ کو تعلیم کے لیے یورپ بھیج دیں۔ عابدہ حسین نے یہ واقعہ بہت دلچسپ انداز میں لکھا ہے۔

یورپ سے واپسی کے بعد وہ جب کراچی آتی ہیں تو اپنے والد کی ہدایت پر محترمہ فاطمہ جناح سے ملنے موہٹا پیلس جاتی ہیں۔ نحیف و نزار مس جناح کو عابدہ کے باپ پاکستان کی ہیروئن کہتے تھے جب کہ لوگوں نے انھیں بھُلا دیا تھا۔ مس جناح کشور اور عابدہ کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ اگر میرے بھائی کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہوتا کہ بغیر آئین، بغیر انصاف کا ایک ملک جہاں چاپلوس طاقتور ہوجائیں گے اور جہاں عام آدمی شرفِ انسانیت سے محروم کردیا جائے گا ، اگر پاکستان ایک ایسا ملک ہونے والا تھا تو پاکستان قائم کرنا ایک احمقانہ غلطی تھی۔

مس جناح کے یہ تلخ جملے نوجوان عابدہ حسین کے لیے بہت پریشان کن تھے لیکن انھیں اس وقت مزید پریشانی ہوئی جب گھر واپسی پر انھوں نے اپنے والد کو محترمہ فاطمہ جناح کے یہ جملے سنائے اور انھوں نے محترمہ کے خیالات سے اتفاق کیا۔ اگلے صفحوں میں سید عابد حسین اپنی بیٹی کو پاکستانی سیاست کے مدوجزر سے آگاہ کرتے دکھائے دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے قوم پرستانہ خیالات سے چندی بی بی کو آگاہ کر رہے ہیں۔

کچھ کہے بغیر بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جب وہ نہیں ہوں گے اور انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا تو اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کن زاویوں سے دیکھنا ہوگا۔ وہ اپنے خاندان سے تعلق رکھنے والے فخر امام کا ذکر کرتی ہیں جن سے ان کی شادی ہوئی اور دونوں نے پاکستانی سیاست میں اپنا مقام بنایا۔

یہ کتاب پاکستانی سیاست کے الم ناک معاملات اور دلچسپ واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ سوویت یونین کے سرکاری دورے کا تفصیل سے ذکر کرتی ہیں اور ہمیں بتاتی ہیں کہ ہوٹل روسیا میں جب وہ ٹہرائی گئیں تو اس کے غسل خانے کے نل کام نہیں کرتے تھے اور شدید سردی کے موسم میں بھی انھیں ٹھنڈے پانی سے واسطہ پڑا۔ وہ اپنا یہ خیال بھی لکھ دیتی ہیں کہ میں نے سوچا لاہور پہنچ کر میں آنٹی طاہرہ (طاہرہ مظہر علی) اور انکل مظہر علی خان سے پوچھوں گی کہ اگر کمیونزم اور غسل خانوں میں ٹھنڈے اور گرم پانی کا انتظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے تو پھر کمیونزم برصغیر ہندوستان کے لوگوں کی زندگی کا معیار کیسے بلند کرسکتا ہے۔

سوویت یونین کے اس سفر کے دوران اس نوجوان افسر کا تذکرہ کرتی ہیں جو ان سے بہترین اردو اور انگریزی میں بات کرتا رہا۔ اسی نے انھیں بتایا کہ سوویت اسکول آف ڈپلومیسی سے وابستہ ہونے والوں کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ روسی زبان کے علاوہ کم از کم 3 زبانوں میں مہارت رکھتے ہوں اور ڈائریکٹر کے عہدے پر ترقی اسی وقت ہوتی ہے جب چوتھی زبان بھی سیکھ لی گئی ہو۔ وہ ڈائریکٹر تھا اور جو چوتھی زبان اس نے سیکھی وہ 'ہندوستانی' تھی۔ عابدہ حسین نے اسے یاد دلایا کہ یہ زبان 'اردو' کہلاتی ہے لیکن وہ اس پُر مصر رہا کہ ہندوستان کی زبان کو فطری طور پر ہندوستانی کہا جائے گا۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں