بھارت کی جواہرلعل یونیورسٹی نے ہولی کی خوفناک حقیقت بتادی
ہولی نچلی ذات سے وابستہ خاتون کی عزت سے کھیلے جانے والے واقعے کی یاد دلاتا ہے، پوسٹروں میں تحریر
KARACHI:
بھارت سمیت دنیا بھر میں ہندو برادری ہولی کے تہوار کو انتہائی جوش و جذبے سے مناتی ہے لیکن بھارت کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہولی کے خلاف پوسٹر لگائے گئے ہیں جس کے مطابق ہولی کا تہوار درحقیقت خواتین کے خلاف ایک تہوار ہے جو ایک دلت خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بعد شروع ہوا۔
نئی دلی میں واقع جواہر لعل یونیورسٹی میں چسپاں پوسٹروں میں کہا گیا ہے کہ ہولی اصل میں خاتون مخالف تہوار ہے جو ایک ایسے واقعے کی یاد دلاتا ہے جس میں نچلی ذات سے وابستہ خاتون کی عزت سے کھیلا گیا تھا اور اسی بنیاد پر یہ 'خواتین مخالف' رسم وجود میں آئی۔
''?What is holy about Holi'' کے نام سے پوسٹر ہوٹلوں، اسکولوں، بازاروں اور دیگر عوامی مقامات پر بھی لگائے گئے ہیں اس کے علاوہ یہ پوسٹر بہت تیزی سے سوشل میڈیا پر شیئر بھی ہورہے ہیں۔ پوسٹر میں لکھا گیا ہے کہ برہمن بھارت آخر ہولیکا نامی ایک بہوجن خاتون کو جلانے پر ہولی کا تہوار کیوں منایا جاتا ہے۔ پوسٹر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ہولی کے نام سے جو تقریبات منعقد کی جاتی ہیں وہ ایک دلت خاتون کی بے عزتی اور بے حرمتی کا ایک واقعہ بھی ہے۔
واضح رہے کہ جواہر لعل یونیورسٹی سے اس وقت اظہار رائے کی آزادی کی ایک تحریک جاری ہے جب کہ گزشتہ ماہ بھارتی پارلیمنٹ پرمبینہ طور پر حملہ کرنے والے افضل گورو کی پھانسی کے ایک سال مکمل ہونے پر منعقدہ یادگاری تقریب بھی اسی جامعہ میں منعقد کی گئی تھی۔
بھارت سمیت دنیا بھر میں ہندو برادری ہولی کے تہوار کو انتہائی جوش و جذبے سے مناتی ہے لیکن بھارت کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ہولی کے خلاف پوسٹر لگائے گئے ہیں جس کے مطابق ہولی کا تہوار درحقیقت خواتین کے خلاف ایک تہوار ہے جو ایک دلت خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بعد شروع ہوا۔
نئی دلی میں واقع جواہر لعل یونیورسٹی میں چسپاں پوسٹروں میں کہا گیا ہے کہ ہولی اصل میں خاتون مخالف تہوار ہے جو ایک ایسے واقعے کی یاد دلاتا ہے جس میں نچلی ذات سے وابستہ خاتون کی عزت سے کھیلا گیا تھا اور اسی بنیاد پر یہ 'خواتین مخالف' رسم وجود میں آئی۔
''?What is holy about Holi'' کے نام سے پوسٹر ہوٹلوں، اسکولوں، بازاروں اور دیگر عوامی مقامات پر بھی لگائے گئے ہیں اس کے علاوہ یہ پوسٹر بہت تیزی سے سوشل میڈیا پر شیئر بھی ہورہے ہیں۔ پوسٹر میں لکھا گیا ہے کہ برہمن بھارت آخر ہولیکا نامی ایک بہوجن خاتون کو جلانے پر ہولی کا تہوار کیوں منایا جاتا ہے۔ پوسٹر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ہولی کے نام سے جو تقریبات منعقد کی جاتی ہیں وہ ایک دلت خاتون کی بے عزتی اور بے حرمتی کا ایک واقعہ بھی ہے۔
واضح رہے کہ جواہر لعل یونیورسٹی سے اس وقت اظہار رائے کی آزادی کی ایک تحریک جاری ہے جب کہ گزشتہ ماہ بھارتی پارلیمنٹ پرمبینہ طور پر حملہ کرنے والے افضل گورو کی پھانسی کے ایک سال مکمل ہونے پر منعقدہ یادگاری تقریب بھی اسی جامعہ میں منعقد کی گئی تھی۔