شاہی پروٹوکول اور عوام
وزندگی کے ساز پر امید جب اپنا نغمہ چھیڑتے ہیں توانسان کو ریگزاروں سے بوئے گل کی مہکار اٹھتی محسوس ہوتی ہے
وزندگی کے ساز پر امید جب اپنا نغمہ چھیڑتے ہیں توانسان کو ریگزاروں سے بوئے گل کی مہکار اٹھتی محسوس ہوتی ہے۔ زندگی کے صحرائی سفر میں امید کے بادل جب مسافر کے سر سے اپنی چادر کھینچ لیتے ہیں تو زندگی ویران ہو جاتی ہے اور انسان کا جب کوئی اپنا ناگہانی موت کا شکار ہو جاتا ہے تو قیامت گزرتی ہے، سانحہ اقبال ٹاؤن کی صورت میں دلوں پر چھائی ویرانی کو بیان کرنا مشکل ہے۔ اور نہ جانے کب اُس جرات مند لیڈر کی آواز بلند ہوگی جو عوام کے درد کو اپنا درد سمجھے گا یا اُس کی آواز بنے گا۔ بقول شاعر
چوٹ پڑتی ہے تو پتھر بھی صدا دیتے ہیں
سانحہ اقبال ٹاؤن ہوگیا جیسے سانحہ پشاور ہوگیا تھا، جیسے سانحہ چارسدہ ہوگیا تھا، جیسے سانحہ بلدیہ ٹاؤن ہو گیا تھا، جیسے سانحہ صفورہ چوک ہوگیا تھا اور اس جیسے سیکڑوں سانحات رونما ہوگئے ہیں۔ ذمے دار کون ہے؟ جن کے مر جاتے ہیں ان کا سہاراکون ہے؟ عوام کا رکھوالا کون ہے؟ کون ان کے جان و مال کا تحفظ کرنے والا ہے؟ کون ان کو مصیبت سے نجات دلانے والا ہے؟۔ کیا ان سب کی نجات دھندہ ہماری پولیس ہے؟ چلیں مان لیجیے پولیس ہی ہوگی۔
اس پولیس کی ''کریم'' کہاں ہے ؟ اسپیشل برانچ کے اہلکار کہاں ہیں؟ ایلیٹ فورس کہاں ہے؟ قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے کہاں ہیں؟ کیا یہ سب عوامی خدمت کے بجائے لیڈروں کی خدمت میں اپنی توانائیاں ضایع کر رہے ہیں؟صدر، وزیراعظم، وفاقی اورصوبائی وزراء، اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی، صوبائی اوروفاقی سیکریٹریز، بیوروکریٹس، پولیس اورفوج کے بڑے بڑے افسران، جرنیل، ججز، بڑے بڑے وکلاء، اہم سیاست دان اوران کے کارندے، سیاسی مولوی، مختلف محکموںمیں تعینات آفیسر، تاجر، بڑے بڑے نواب، جاگیر دار، چوہدری، خان، وڈیرے اورنہ جانے اس قبیل کے کتنے اور لوگ ہیں، جو شاہانہ طرززندگی گزارتے ہیں اوران کی اولاد شہزادوں کی طرح دولت سے کھیلتی ہے ۔ ریاست کی پوری مشینری ان کی خدمت گزاری میں لگی رہتی ہے۔
انھی نواب زادوں کا چال چلن ''پروٹوکول'' کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ پروٹوکول ہی ہے جس سے عوام اورخواص کے درمیان تفاوت کا آغاز ہوتاہے اور پھر بتدریج اس کی شدت میں اضافہ ہوتاہے، یہاں تک کہ وزیراعظم تک پہنچتے پہنچتے یہ پروٹوکول شاہانہ ہو جاتا ہے۔ پچاس پچاس گاڑیوں کاقافلہ، دودوہیلی کاپٹر، سیکڑوں پولیس اہلکار ایک ہی وقت میں وزیراعظم کے پروٹوکول میں شامل ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے افراد۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کا پروٹوکول۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پنجاب میں ایلیٹ فورس کے جوانوں کی تعداد 12,500ہے جن میں سے 8500صرف حکمرانوں کی سیکیورٹی پر مامور ہیں ، ایسی صورت میں سانحہ اقبال ٹاؤن ہو جانا اتنی بھی حیرت کی بات نہیں ۔ آپ یہ جان کر بھی حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ گزشتہ سال ہی کا ایک واقعہ ہے کہ ایک پروٹوکول مری سے اسلام آباد آرہے تھے' ان کے لیے دو روٹس لگے تھے۔ انچارج پروٹوکول سے غلطی ہوئی اور گاڑیوں کا قافلہ رش میں پھنس گیا، اس سنگین جرم کی پاداش میں ایس پی رینک کے افسر کو معطل کرکے انکوائری کا حکم دے دیا گیا۔
اسی طرح ایک بار وزیر اعظم کی گاڑی لاہور کے کلب چوک میں کچھ دیر کے لیے پھنس گئی اس ''جرم'' میں بھی ڈی ایس پی اور ایک انسپکٹر کو معطل کرکے انکوائری کا حکم دیا گیا۔ ان دونوں واقعات کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی پروٹوکول کی شخصیت کا ٹریفک میں پھنس جانا ایک سنگین 'جرم' ہے۔
جب کہ دوسری طرف پنجاب میں ایک سال میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد کیس درج ہوئے، کوئی ایس پی معطل نہیں ہوا۔ دو لاکھ مقدمات کے چالان پیش ہوئے کوئی ایس پی معطل نہیں ہوا۔ پولیس 33ہزار مقدمات کا سراغ نہیں لگا سکی، کوئی ایس پی معطل نہیں ہوا۔ قتل کے 6 ہزار واقعات، اقدام قتل کے 7ہزار، اغواء کے 14ہزار، ریپ کے ڈھائی ہزار، گینگ ریپ کے 140واقعات، ڈکیتی اور چوری کی 21ہزار وارداتیں اور نقب زنی کی 14ہزار وارداتیں ہوئیں لیکن کوئی ایس پی یا ڈی ایس پی معطل نہیں ہوا۔ مزید آگے کا ریکارڈ دیکھیں تو پنجاب میں ایک سال میں 21ہزار گاڑیاں چوری ہوئیں، 6ہزار گن پوائنٹ پر چھین لی گئیں لیکن کوئی ایس پی معطل نہیں ہوا۔
حقیقت میں ملک کے تمام سرکاری اداروں کا صرف ایک کام رہ گیا ہے کہ حکمرانوں کی خدمت کرنا، ان کے راستے صاف کرنا ان کے نخرے برداشت کرنا، ان کی خدمت کرنا اور ان کے بچوں کو بھی پروٹوکول جیسی نعمت فراہم کرنا۔ یہ وہ آمرانہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ملک میں دہشت پسند اور ملک دشمن قوتیں جنم لیتی ہیں اور اقبال ٹاؤن جیسے سانحات سے عوام موت کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ بقول شاعر
چمن ویرانوں کا روپ دھار رہے ہیں تو دھارتے رہیں
روش روش خاک اڑتی ہے تو اڑتی رہے
یہ بیماری ہمارے پنجاب میں ہی نہیں دوسروں صوبوں میں بھی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے پروٹوکول میں کم و بیش 30سے زائد سرکاری گاڑیاں اور 10غیر سرکاری گاڑیاں ہوتی ہیں اور انتظامیہ ذرایع کے مطابق اس موقعے پر ضلع بھر میں ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ آپ بلاول بھٹو زرداری کو دیکھ لیں کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے ان کے پاس، اس کے باوجود سرکاری فورس، سرکاری گاڑیاں اور سرکاری پولیس آفیسر ان کی آؤ بھگت کے ساتھ ان کو وسیع تر پروٹوکول فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے اور انھوں نے وی آئی پی کلچر کے خلاف ایک دھواں دار بیان میں یہ کہا تھا کہ اب ان کی نقل حرکت کے وقت ان کے ساتھ صرف 2 سے چار کاریں ہوا کریں گی لیکن اس کے چند ہی روز بعد جب وہ اسلام آباد سے کراچی آئے تو میڈیا نے ان کے قافلے کو دکھایا اور گن کر بتایا کہ اس میں پوری 104 گاڑیاں شامل ہیں۔
اسی طرح اپنی صدارت کے زمانے میں آصف زرداری جب کوئٹہ پہنچے تھے تو ان کے پروٹوکول اور سیکیورٹی کے نام پہ بہت دیر سے روکے گئے ٹریفک میں میٹرنٹی ہوم جاتی ہوئی ایک خاتون نے رکشے ہی میں ایک بچے کو جنم دیا تھا، پرویز مشرف جب ایک بار بحیثیت صدر کراچی آئے تھے تو بند کیے گئے راستے میں اسپتال سے واپس آتی ایک خاتون کو اس کے فوت ہوئے بچے کی لاش کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک سڑک کنارے رکنے پہ مجبور کیا گیا تھا جب کہ اسے گھر جانے کے لیے صرف شارع فیصل پار کرنی تھی۔
یہ محض نمونے کے چند واقعات ہیں، اس وی آئی پی کلچر اور پروٹوکول کے ہاتھوں آئے دن عوام کی ہرطرح کی تذلیل اب معمول کی بات ہے ، اس کے مظاہر آئے دن دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے کہ جو بلحاظ ترقی اقوام متحدہ کے 200 سے زائد رکن ممالک میں 147 ویں نمبر پہ ہے۔
سچائی یہ ہے کہ اس وقت دنیا کے جتنے بھی دولتمند اور ترقی یافتہ ممالک ہیں، وہ اس وی آئی کلچر کو افورڈ کرسکنے کے باوجود اس سے قطعی دور ہیں ، برطانوی وزیراعظم جیسے طاقتور رہنماء کے ساتھ صرف 2 کاریں چلتی ہیں اور وہ اپنی رہائش گاہ سے کافی فاصلے پہ واقع اپنے دفتر پیدل جاتے ہیں۔ اربابِ حکومت موروثی ہوں، نیم موروثی ہوں یا غیر موروثی۔جمہوری ہوں، نیم جمہوری یا غیر جمہوری ہوں۔ منتخب ہوں، نیم منتخب ہوں یا غیر منتخب۔ عسکری ہوں، نیم عسکری ہوں یا مخلوط عسکری، انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ صبحِ عروج کو شامِ زوال میں ڈھلتے دیر نہیں لگا کرتی۔ شجرِاقتدارپر بہار بعد میںآتی ہے اور پت جھڑ کا گھن اس میں اپنا نشیمن پہلے بناتا ہے۔
ہرشجر اقتدارکے تنے کا مقدر فنا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت کا کام صرف سیکیورٹی دینا ہے، پروٹوکول نہیں اور اگر کسی کو پروٹوکول کا شوق ہے تو وہ اپنی جیب سے خرچہ کرے نہ کہ وطن عزیز کی ہزاروں کی پولیس نفری کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرے۔
پاکستان کو کامیاب ریاست بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تبدیلی کاآغاز اس مراعات یافتہ طبقہ سے کیاجائے۔ جتنے بھی لوگ بڑے بڑے عہدوں پرذمے داریاں نبھارہے ہیں، اگروہ سچے پاکستانی ہیں اوران کے اندر ذرا برابر بھی حب الوطنی موجودہے، تو وہ بغیرپروٹوکول کے اپنے ملک کی خدمت کریں۔ اور پولیس کو عوام کی خدمت کی خاطر واپس کر دیں تاکہ انھیں ان کا بنیادی حق فراہم کرتے ہوئے ان کا تحفظ کیا جائے نہ کہ پسی ہوئی عوام کو دہشت گردوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے کہ وہ جب چاہیں انھیں بے موت مار دیں اور جب چاہیں انھیں بخش دیں...!!!
بادی النظر میں اگر یہ وی آئی پی پروٹوکول ختم نہیں ہو گا، فورسز وی آئی پیز کی حفاظت کے لیے تعینات رہیں گی تو اسی طرح دھماکے ہوتے رہیں گے، لوگ بے موت مرتے رہیں گے، دہشت گرد پھرتے رہیں گے اور وزیر اعلیٰ خون دینے کا فوٹو شوٹ کراتے رہیں گے اور ماں اپنے بچوں کو ڈھونڈتی رہے گی، بیوائیںدربدر پھرتی رہیں گی مگر یہ پروٹوکول شاید یونہی چلتا رہے گا ۔