سیاسی قیادت اور پرویز مشرف
پاکستان نامی جادو نگری میں آئے روز ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں
قیام پاکستان کے بعد سے بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور فوجی جرنیلوں کو یکے بعد دیگرے حکمرانی کے بہت سے مواقعے ملے، لیکن کوئی بھی انگریزوں سے ہمیں ورثے میں ملنے والے اس نوآبادیاتی نظام میں تبدیلی پیدا نہ کر سکا، اصل میں ہمارے قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کے علمبردار شاہوں، سرداروں اور وڈیروں نے انگریزوں کے دیے ہوئے نوآبادیاتی نظام کو ہم آہنگ پایا۔ ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما ایسے ہی سماجی رویوں میں پلے بڑھے۔ وہ جمہوری اقدار، اصولوں اور سیاسی سمجھ بوجھ سے قطعی عاری نظر آتے ہیں۔
ملکی سیاست میں سابق صدر پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکال کر انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینا ہاٹ اشو بنا ہوا ہے۔ جب کسی اہم حساس ادارے سے تعلق رکھنے والی کوئی شخصیت آزمائش میں ہو تو اس پر رائے زنی کرتے ہوئے بڑے محتاط الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ تلوار کا گھاؤ بھر جاتا ہے مگر الفاظ کا لگایا گھاؤ آسانی سے نہیں بھرتا۔
پاکستان نامی جادو نگری میں آئے روز ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں جن میں یکایک سو سو پیج پڑ جاتے ہیں، لوگ ان گرہوں کو کھولنے کے لیے اپنے اپنے طور پر اندازے لگاتے اور قیاس کے گھوڑے دوڑاتے ہیں۔ اندازہ و قیاس کے میدان کا سرشار سوار یہی تاثر دیتا ہے کہ وہ اندر کی خبر رکھتا ہے لیکن کہانی کے آخری ورق سے پتہ چلتا ہے کہ جو کچھ ہو گیا وہ کسی کے حاشیہ و وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
حق، سچ، انصاف اور غیر جانبدار، ان الفاظ کی تکرار نے ہمیشہ حادثات کو جنم دیا، یہاں جب بھی کسی معاملے میں انصاف، انصاف، سچ، سچ، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی، جیسی غیر مانوس آوازیں سنائی دیتی ہیں تو دل خود بخود نتیجے تک پہنچ جاتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟
کچھ عرصے پہلے تک زمینی حقائق یہ تھے کہ پرویز مشرف اس خطے بالخصوص ملک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے تھے، دنیا کی سپر پاور امریکا اور اسلامی دنیا کی طاقتور حکومتوں کے لیے پرویز مشرف لازم و ملزوم سمجھے جاتے تھے، ملکی سیاست ان کے گرد گھومتی تھی۔ پھر ایسا وقت آیا کہ وہ حکومت کے لیے کمبل بن گئے۔
حکومت اس کمبل سے جان چھڑانا چاہتی تھی، مگر کمبل کلین چٹ لیے بغیر جان چھوڑنے پر تیار نہ تھا، پھرصورتحال خاصی بدل گئی، حکومت کمبل بن گئی، پرویز مشرف اس کمبل سے گلو خلاصی چاہتے ہیں مگر کمبل انھیں نہیں چھوڑتا تھا، اب وہ علاج کے لیے بیرون ملک جا چکے ہیں۔
جس طرح کسی بھی انسان سے غلطیاں سرزد ہوتی ہیں اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں جس میں سب سے بڑی غلطی قومی مفاہمت کے آرڈیننس کا نفاذ ہے، لیکن ان کا دور اقتدار بہت سی کامیابیوں سے بھی مزین ہے۔
اگر ہم معیشت کی طرف نگاہ ڈالیں تو اکتوبر 1999ء میں پاکستان بڑے مشکل حالات سے گزر رہا تھا جب کہ 2008-7ء تک پاکستان کا شمار اگلے گیارہ ممالک کے گروپ میں آ گیا تھا جن کے لیے پیشین گوئی کی گئی تھی کہ یہ ممالک دنیا کی بہت مضبوط و طاقتور معیشت کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔
مجموعی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا، فی کس آمدنی بڑھی، غیر ملکی زر مبادلہ بھی بڑھ گیا، قومی آمدنی، قرض اور مجموعی پیداواری صلاحیت کا تناسب بہتر ہوا، غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری بڑھی۔ غربت کا تناسب بھی گھٹ گیا، ڈالر کی قیمت بھی 60 روپے تھی تا کہ مہنگائی کو بھی قابو میں رکھا جا سکے۔
مواصلات کے بنیادی ڈھانچے میں بھی زبردست تبدیلیاں اور بہتری رونما ہوئیں۔ زراعت کے شعبے میں کافی اہم آبیاری کے پروجیکٹ شروع کیے گئے۔ دیامر بھاشا ڈیم کا افتتاح ہوا، مزارعوں اور کسانوں کے لیے بینک کے ذریعے گردشی ادھار کا نظام متعارف کرایا گیا۔ مزارعوں کے کیے قرضہ حاصل کرنے کی سہولت میں مزید اضافہ کیا گیا۔ بجلی کی پیدواری صلاحیت میں اضافہ ہوا، ٹیلی مواصلات کے شعبے میں بہتری آئی، لاکھوں کی تعداد میں اس شعبے میں نوکریوں کے مواقعے میسر آئے، انٹرنیٹ ربط سازی پاکستان کے مخصوص شہروں سے نکل کر ملک بھر میں پھیل گئی۔
اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے قیام سے علم پر مبنی معیشت کے فروغ اور ترقی کے لیے مضبوط بنیادیں رکھ دی گئیں۔ جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے بہت سے نئے ٹی وی چینلوں کی اجازت دی گئی اور صحافیوں و اخبارات کو کھلی آزادی دی گئی، مقامی حکومتوں کا نظام شروع کیا گیا، سیاسی سطح پر خواتین کو بھی تمام حکومتی درجوں میں مخصوص جگہ دی گئی، اقلیتوں کو مشترکہ رائے دہندگانی کا درجہ دیا گیا۔
مشرف کا نو سالہ دور معاشی نمو، جمہوری ارتقاء، تعلیمی ترقی، دفاع وطن، قومی ہم آہنگی، سماجی بہبود اور عوامی فلاح کے حوالے سے مثالی دور تھا، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہم ملک کو منہ زور و جابر قوتوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے، ریاست کا نظام طے شدہ دستور، آئین، قاعدے اور ضابطے کے مطابق چلنا چاہیے، اخلاقیات، قانون کی پاسداری، حلف کی حرمت اور جواز کی بھی اہمیت ہوتی ہے، معاشی ترقی و خوشحالی کے لیے تمام اخلاقی و قانونی ضابطے ساقط نہیں کیے جا سکتے۔
لیکن دلچسپ بات تو یہ ہے کہ 1999ء میں جو قدم اٹھایا گیا وہ تو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے جائز قرار دیا، اس کے تحت 2007ء تک حکومت ہوتی رہی لیکن جب یہی قدم نومبر 2007ء میں اٹھایا گیا کو مشرف کو غدار کہہ کر ''غداری'' کا مقدمہ دائر کرا دیا گیا۔ صدر مشرف کے خلاف کوئی لوٹ مار کا الزام نہیں ہے جب کہ ان سے پہلی حکومت نے جس انداز سے اس ملک کو لوٹا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
صدر مشرف نے پاکستان کو 1999ء میں اندھیروں سے نکالا، جو حقائق یہاں پیش کیے گئے ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن اس ملک میں لٹیرے ہی راج کر سکتے ہیں، یہاں انصاف کہاں؟ پچھلی حکومت کے حکمران ہزاروں ارب روپے لے کر باہر چلے گئے انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں، جس کے نتیجے میں آج پورا ملک غربت کے اندھیروں میں ڈوب رہا ہے۔ 1999ء میں اٹھایا گیا قدم صحیح اور وہی قدم 2007ء میں غلط کیسے ہو سکتا ہے؟ یا تو دونوں اقدام صحیح تھے یا دونوں غلط تھے؟
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اچھے برے دنوں کے آنے جانے اور اقتدار کی ڈھلتی دھوپ چھاؤں سے جو سبق ہمارے حکمرانوں کو سیکھنا چاہیے وہ نہیں سیکھ رہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور سول حکمرانوں کے لیے ان واقعات میں سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر وہ اصولوں کی سیاست کریں گے اور قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں گے تو کبھی کوئی طالع آزما ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا مگر جب وہ اقتدار کو اپنی خاندانی میراث سمجھ لیں گے اور حقدار کو اس کا حق نہیں دیں گے تو پھر لاکھ دستور اور آئین بنا لیں، لاکھ قانونی فصیلیں تعمیر کر لیں، آنیوالا سیلاب توآ کر رہے گا۔
سندھ اور پنجاب کے حکمرانوں نے طے کر رکھا ہے کہ بلدیاتی امیدواروں کو اختیار نہیں دیا جائے گا جب تک حکمران اس کلچر کو نہیں بدلیں گے اس وقت تک جرنیلوں اور آمروں کی آمد و رفت جاری رہے گی۔ کہا جاتا ہے کہ اچھے حکمران کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے کہاں تک جانا ہے اور کہاں رک جانا ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جنرل کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہوا، خصوصی عدالت بنائی گئی، بس کیا اتنا ہی بہت نہیں؟ اب ہمارے حکمران خود کو تبدیل کریں، اپنی خامیاں دور کریں، اپنی کرپشن ختم کریں، اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھیں نہ کہ عوام کو اپنا غلام سمجھیں۔
آئین شکنوں کا احتساب اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنانے میں کامیابی نہیں مل جاتی، جس ملک میں عوام آج بھی صاف پانی، سستی روٹی، صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہوں وہاں بھلا طالع آزماؤں کا احتساب کیونکر ممکن ہو سکتا ہے۔