پاکستان میں کھیلوں کا تاریک مستقبل
کھیل کود اور تفریح سے فطری رغبت، دو ایسی زبردست جبلی خواہشات ہیں
لاہور:
کھیل کود اور تفریح سے فطری رغبت، دو ایسی زبردست جبلی خواہشات ہیں جو اس کائنا ت کی ہر ذی روح میں پائی جاتی ہیں۔ شیرخوار بچوں کا ہاتھ پاؤں مارنا، بلی کے بچوں کا آپس میں اچھلنا کودنا، پرندوں کا چہچہانا، سانپوں کا لہرانا، کتے کے بچوں کا آپس میں کھیلنا، بندروں کا شرارتیں کرنا اور نقل اتارنا، سب کا تعلق کھیل کود اور تفریح سے ہے۔ ان دونوں جبلی خواہشات کی بناء پر تمام لوگ اپنی عمر، منصب اور انفرادی میلان و طبع کو بھول کر ایک اکائی بن جاتے ہیں اورذہنی مفاہمت کے ساتھ کچھ لمحوںکے لیے محظوظ ہوجاتے ہیں۔
کھیلوں کی اہمیت ہر زمانے میں تسلیم کی جاتی رہی ہے،کیونکہ کھیل ایک ایسا انسانی صحت مند فعل ہے جس کے خوشگواراثرات انسانی زندگی میں رونما ہوتے ہیں۔ معیاری اور عمدہ کھیل کی ضمانت اچھی حکمت عملی،ذہنی ہم آہنگی،کھیل کے مروجہ قوانین سے آگاہی اور نظم و ضبط کی لازمی پابندی جیسی خوبیاں اپنائے بغیرناممکن ہے۔ تاریخی اعتبار سے کھیلوں کی رسم قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔
یونان (سپارٹا، ایتھنز) وغیرہ میں بچوں کو توانا اورمضبوط بنانے کے لیے کھیل کود میں حصہ لینے پرمجبور کیا جاتا تھا اور بعض اوقات تو انھیں ہر وقت کھیلوں میں مصروف بھی رکھا جاتا تھا۔یہی نہیں بلکہ ان کی طاقت اور توانائی کا اندازہ لگانے کے لیے پہاڑوں پر سے لڑھکایا جاتا تھا۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کھیل جسم کو مضبوط،اعصاب کوتوانا اور پھپھڑوں کو طاقتور بنانے کے ساتھ ساتھ حرکات وسکنات میں بھی ایک توازن کی کیفیت پیدا کرنے میں کارگرہوتے ہیں۔
حال ہی میں بھارت کے صوبہ بنگال کے شہرکولکتہ میں پاک بھارت کرکٹ عالمی ورلڈ ٹی 20کھیلا گیا۔گیارہ ممبر کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کی کمزور قیادت شاہد آفریدی کے نصیب میں آئی۔ اس میچ سے تین دن قبل ہی پرنٹ اوربرقی میڈیا پر حسب دستور شور شرابا سناگیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری بھولی بھالی عوام اپنے ذہنوں میں خیالی پلاؤ پکانے کے کیوں عادی ہیں۔ بھارت اورپاکستان ایک عرصے سے ہر میدان میں روایتی حریف ہیں، ماضی میں رہے ہیں اور ظاہر ہے مستقبل قریب میں بھی یقینی طور پر رہیں گے۔
کیوں نہ ہوںآخر ہم آزاد وطن کے آزاد شہری ہیں۔کوئی بری بات نہیں ہے، جوش وجذبہ رکھنا بھی بُرائی نہیں ہے لیکن اس شور شرابے کے بعد جب نتیجہ شکست کی صورت میں آتا ہے توعوام آپے سے باہر ہوکر اپنے ہی لاڈلے کھلاڑیوں کو شدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہیں۔ ہماری دانست میں اس کھیل میں پوری پوری سیاست کا عمل دخل ہے۔کوئی بعید نہیں دونوں اطراف سے حکومتوں کے اپنے اپنے مفادات بھی ہوں، بہرحال کھیل کے دوران بھارتی ٹیم کی کارکردگی تسلی بخش اور قابل تعریف رہی مگر پاکستانی ٹیم کی کچھ خامیاں ضرور نمایاں ہوئیں بظاہر اندرونی انتظامی معاملات گڑ بڑ نظر آئے۔
اچھے اور معیاری کھلاڑیوں کا زبردستی ٹیم سے انخلاء اوران کی جگہ سفارشی اور ناتجربہ کارکھلاڑیوں کی قومی ٹیم میں شمولیت شکست کا موجب ہے۔ ہم نے بھی نہ چاہتے ہوئے یہ معرکہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ٹی وی کی بڑی اسکرین پر دیکھا۔ بلاشبہ بھارت کی طرف سے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا گیا۔ لہٰذا جیت ان کے مقدر میں رہی۔ کھیل میں سنجیدگی، ذہن کا درست استعمال اورطویل تجربہ اپنی جگہ مگر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کی بہترین پیشہ وارانہ حکمت عملی کو اپنانے سے ہی نتیجہ کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔
قابل افسوس اور قابل فکر امر یہ ہے کہ کرکٹ میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پرکمرشلائزیشن (Commercialization) کا عنصر سرایت کر گیا ہے اور کھیل کی آڑ میں انڈر ورلڈ میچ فکسنگ مافیہ (سٹہ) جیسے گھناؤنے اسکینڈلز پہلے بھی منظرعام پرآ چکے ہیں۔ اس انفرادی مادیت پرستی کے جدید دور میں کرکٹ کو تجارتی اورکاروبارکا رنگ چڑھا دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے کچھ کھلاڑی دولت اور سستی شہرت کی ہوس میں کمرشل ماڈل اور اشتہاری بن چکے ہیں۔
دوسری جانب باعث فخرہے یہ بات کہ ہمارے وطن عزیزکی معصوم اورغیرت مند بہنیں جنہوں نے نہ صرف کرکٹ کے میدان میں بھارتی سورما خواتین کھلاڑیوں کو ان کی اپنی سرزمین پر شکست فاش دی بلکہ بنگلہ دیش کو بھی کھڈے لائن لگا دیا۔ یہاں یہ بات قابل غوروفکر ہے کہ شرماتی ہوئی ملک سے روانہ ہونے والی یہ سپوت سادگی اور خاموشی سے بھارت کی سرزمین پراترگئیں اور انھوں نے کیسی معصومیت سے کامیابی کے جھنڈے گاڑدیے۔کوئی بڑھک نہیں، کسی قسم کی اتراہٹ یا پرنٹ اور برقی میڈیا پر چوبیس گھنٹے کی نمودونمائش بھی نہیں کی۔آپ کیوں اتنا شور مچاتے ہو۔ قوم کو بیوقوف بناتے ہو۔
یہ تو ہوگئی کرکٹ کے حوالے سے ہماری تجزیاتی رپورٹ۔اب آیے دوسرے کھیلوں کی طرف جو کھیلوں کی دنیا میں مرکزنگاہ کرکٹ کے علاوہ دوسرے آؤٹ ڈور اور ان ڈورگیمز (ہاکی، فٹ بال،کشتی رانی،کبڈی، باکسنگ، والی بال، اسکوائش، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس حکومت کے ذمے داروںکی طرف سے طویل عرصے سے عدم توجہی کاشکار ہے، محض اس وجہ سے کہ اس میں اربوں /کھربوں روپے کا عمل دخل فکسنگ (Fixing) یا سٹہ یا عملی سیاست قطعاً نہیں ہے اور صرف اور صرف ایمانداری کے ساتھ صلاحیت کی بنیادوں پر ہے جب کہ ان تمام کھیلوں کے پس منظر میں پاکستان جنوبی ایشیاء کا واحد ملک ہے۔
جہاں صحت مند پاکستان کی بنیاد پر کھیلوں کو اہمیت دیتے ہوئے اسکول،کالج اور یونیورسٹی سطح پر کھیلوں کے انعقاد کو لازمی قرار دیا گیا اور طلباء و طالبات پر لازم کیا گیا کہ وہ تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان میں سے کسی بھی کھیل کا انتخاب کریں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
ان کھیلوں کی حوصلہ افزائی اور کھیلوں کی بنیاد پر تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا ایک مخصو ص کوٹہ مختص کیا جاتا تھا اور ہر ادارے کی منتخب ٹیمیں ترتیب دی جاتی تھیں جو ٹورنامنٹ میں شریک ہو کر اپنی مخصوص شناخت کروایاکرتی تھیں۔ علاقائی اور شہری سطح پر علیحدہ مقابلے کرائے جاتے تھے۔ قابل ذکر ادارے حبیب بینک، یونائیٹڈ بینک، مسلم کمرشل بینک، اسٹیٹ بینک، الائیڈبینک، نیشنل بینک، پاکستان کسٹم، پی آئی اے، پاکستان ریلویز، پاکستان ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور دیگر مقامی ادارے شامل تھے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام اداروں کی کھیلوں کی تربیت کے لیے وسیع اراضی پر محیط Sports Academies ہوا کرتی تھیں اور ان کو سالانہ مخصوص مالیاتی بجٹ کے ساتھ چلایا جاتا تھا۔ ان اداروں کی محنت اور جستجو سے ملک کونہ صرف با صلاحیت بین الاقوامی اسٹینڈرڈ کے کھلاڑیوں کے حصول میں رہنمائی ملی بلکہ بیرون ممالک سے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کھیلوں کی تربیت کے لیے ہمارے ہاں آتی تھیں جو عالمی مارکیٹ میں ملک کی نیک نامی و شہرت کا سبب بنی۔
ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے عالمی اعزازات کا حامل یہ کھیل دوسرے کھیلوں کی طرح سیاست کی نظر ہوگیا ۔ہمارے سابقہ قابل فخر سفیران پاکستان حنیف خان، سمیع اللہ، حسن سردار، شہناز اور منظور الحسن نامور فٹ بالرز، لیاری ہی سے تعلق رکھنے والے عالمی باکسنگ چیمپئن حسین شاہ جیسے نامور کھلاری جو بلا شبہ اسی مٹی کی پیداوار تھے، یک دم منظر سے غائب ہو گئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کھیلوں کی ترقی اور مزید فروغ کے لیے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ افسوس! ایسا نہیں ہو سکا اورکھیل کی صنعت تباہی اور زوال کا شکارہوگئی اور لامحالہ قوم کے لیے تفریح کا واحد سہارا سیاست زدہ اشرافیہ کی کرکٹ تک محدود ہوگیا۔ عین ممکن ہے کہ متذکرہ اداروں کی نجی سیکٹر میں فروخت کے بعد مالکان کا کاروباری لحاظ سے اس صنعت میں عدم دلچسپی ہو۔
اس سلسلے میں ہماری تجویز ہے کہ حکومت سبسیڈیری (Subsdiary)کی صورت میں ان نجی اداروں کوکچھ رقم مختص کر ے تاکہ ان اداروں کی مددسے نہ صرف کھیلوں کے فروغ کو ایک وسیع میدان مل سکے بلکہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور خوشحالی کا سبب بھی بن سکے۔ ویسے بھی عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ سستی اور صحت مند تفریح مہیا کر نا حکومت کی اولین منصبی ذمے داری ہے ۔خواہ وہ تفریح کھیل کی شکل میں ہو یا میڈیا کی صورت میں۔
کھیل کود اور تفریح سے فطری رغبت، دو ایسی زبردست جبلی خواہشات ہیں جو اس کائنا ت کی ہر ذی روح میں پائی جاتی ہیں۔ شیرخوار بچوں کا ہاتھ پاؤں مارنا، بلی کے بچوں کا آپس میں اچھلنا کودنا، پرندوں کا چہچہانا، سانپوں کا لہرانا، کتے کے بچوں کا آپس میں کھیلنا، بندروں کا شرارتیں کرنا اور نقل اتارنا، سب کا تعلق کھیل کود اور تفریح سے ہے۔ ان دونوں جبلی خواہشات کی بناء پر تمام لوگ اپنی عمر، منصب اور انفرادی میلان و طبع کو بھول کر ایک اکائی بن جاتے ہیں اورذہنی مفاہمت کے ساتھ کچھ لمحوںکے لیے محظوظ ہوجاتے ہیں۔
کھیلوں کی اہمیت ہر زمانے میں تسلیم کی جاتی رہی ہے،کیونکہ کھیل ایک ایسا انسانی صحت مند فعل ہے جس کے خوشگواراثرات انسانی زندگی میں رونما ہوتے ہیں۔ معیاری اور عمدہ کھیل کی ضمانت اچھی حکمت عملی،ذہنی ہم آہنگی،کھیل کے مروجہ قوانین سے آگاہی اور نظم و ضبط کی لازمی پابندی جیسی خوبیاں اپنائے بغیرناممکن ہے۔ تاریخی اعتبار سے کھیلوں کی رسم قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے۔
یونان (سپارٹا، ایتھنز) وغیرہ میں بچوں کو توانا اورمضبوط بنانے کے لیے کھیل کود میں حصہ لینے پرمجبور کیا جاتا تھا اور بعض اوقات تو انھیں ہر وقت کھیلوں میں مصروف بھی رکھا جاتا تھا۔یہی نہیں بلکہ ان کی طاقت اور توانائی کا اندازہ لگانے کے لیے پہاڑوں پر سے لڑھکایا جاتا تھا۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کھیل جسم کو مضبوط،اعصاب کوتوانا اور پھپھڑوں کو طاقتور بنانے کے ساتھ ساتھ حرکات وسکنات میں بھی ایک توازن کی کیفیت پیدا کرنے میں کارگرہوتے ہیں۔
حال ہی میں بھارت کے صوبہ بنگال کے شہرکولکتہ میں پاک بھارت کرکٹ عالمی ورلڈ ٹی 20کھیلا گیا۔گیارہ ممبر کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم کی کمزور قیادت شاہد آفریدی کے نصیب میں آئی۔ اس میچ سے تین دن قبل ہی پرنٹ اوربرقی میڈیا پر حسب دستور شور شرابا سناگیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری بھولی بھالی عوام اپنے ذہنوں میں خیالی پلاؤ پکانے کے کیوں عادی ہیں۔ بھارت اورپاکستان ایک عرصے سے ہر میدان میں روایتی حریف ہیں، ماضی میں رہے ہیں اور ظاہر ہے مستقبل قریب میں بھی یقینی طور پر رہیں گے۔
کیوں نہ ہوںآخر ہم آزاد وطن کے آزاد شہری ہیں۔کوئی بری بات نہیں ہے، جوش وجذبہ رکھنا بھی بُرائی نہیں ہے لیکن اس شور شرابے کے بعد جب نتیجہ شکست کی صورت میں آتا ہے توعوام آپے سے باہر ہوکر اپنے ہی لاڈلے کھلاڑیوں کو شدید تنقیدکا نشانہ بناتے ہیں۔ ہماری دانست میں اس کھیل میں پوری پوری سیاست کا عمل دخل ہے۔کوئی بعید نہیں دونوں اطراف سے حکومتوں کے اپنے اپنے مفادات بھی ہوں، بہرحال کھیل کے دوران بھارتی ٹیم کی کارکردگی تسلی بخش اور قابل تعریف رہی مگر پاکستانی ٹیم کی کچھ خامیاں ضرور نمایاں ہوئیں بظاہر اندرونی انتظامی معاملات گڑ بڑ نظر آئے۔
اچھے اور معیاری کھلاڑیوں کا زبردستی ٹیم سے انخلاء اوران کی جگہ سفارشی اور ناتجربہ کارکھلاڑیوں کی قومی ٹیم میں شمولیت شکست کا موجب ہے۔ ہم نے بھی نہ چاہتے ہوئے یہ معرکہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ٹی وی کی بڑی اسکرین پر دیکھا۔ بلاشبہ بھارت کی طرف سے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا گیا۔ لہٰذا جیت ان کے مقدر میں رہی۔ کھیل میں سنجیدگی، ذہن کا درست استعمال اورطویل تجربہ اپنی جگہ مگر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کی بہترین پیشہ وارانہ حکمت عملی کو اپنانے سے ہی نتیجہ کامیابی کی صورت میں سامنے آیا۔
قابل افسوس اور قابل فکر امر یہ ہے کہ کرکٹ میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پرکمرشلائزیشن (Commercialization) کا عنصر سرایت کر گیا ہے اور کھیل کی آڑ میں انڈر ورلڈ میچ فکسنگ مافیہ (سٹہ) جیسے گھناؤنے اسکینڈلز پہلے بھی منظرعام پرآ چکے ہیں۔ اس انفرادی مادیت پرستی کے جدید دور میں کرکٹ کو تجارتی اورکاروبارکا رنگ چڑھا دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے کچھ کھلاڑی دولت اور سستی شہرت کی ہوس میں کمرشل ماڈل اور اشتہاری بن چکے ہیں۔
دوسری جانب باعث فخرہے یہ بات کہ ہمارے وطن عزیزکی معصوم اورغیرت مند بہنیں جنہوں نے نہ صرف کرکٹ کے میدان میں بھارتی سورما خواتین کھلاڑیوں کو ان کی اپنی سرزمین پر شکست فاش دی بلکہ بنگلہ دیش کو بھی کھڈے لائن لگا دیا۔ یہاں یہ بات قابل غوروفکر ہے کہ شرماتی ہوئی ملک سے روانہ ہونے والی یہ سپوت سادگی اور خاموشی سے بھارت کی سرزمین پراترگئیں اور انھوں نے کیسی معصومیت سے کامیابی کے جھنڈے گاڑدیے۔کوئی بڑھک نہیں، کسی قسم کی اتراہٹ یا پرنٹ اور برقی میڈیا پر چوبیس گھنٹے کی نمودونمائش بھی نہیں کی۔آپ کیوں اتنا شور مچاتے ہو۔ قوم کو بیوقوف بناتے ہو۔
یہ تو ہوگئی کرکٹ کے حوالے سے ہماری تجزیاتی رپورٹ۔اب آیے دوسرے کھیلوں کی طرف جو کھیلوں کی دنیا میں مرکزنگاہ کرکٹ کے علاوہ دوسرے آؤٹ ڈور اور ان ڈورگیمز (ہاکی، فٹ بال،کشتی رانی،کبڈی، باکسنگ، والی بال، اسکوائش، بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس حکومت کے ذمے داروںکی طرف سے طویل عرصے سے عدم توجہی کاشکار ہے، محض اس وجہ سے کہ اس میں اربوں /کھربوں روپے کا عمل دخل فکسنگ (Fixing) یا سٹہ یا عملی سیاست قطعاً نہیں ہے اور صرف اور صرف ایمانداری کے ساتھ صلاحیت کی بنیادوں پر ہے جب کہ ان تمام کھیلوں کے پس منظر میں پاکستان جنوبی ایشیاء کا واحد ملک ہے۔
جہاں صحت مند پاکستان کی بنیاد پر کھیلوں کو اہمیت دیتے ہوئے اسکول،کالج اور یونیورسٹی سطح پر کھیلوں کے انعقاد کو لازمی قرار دیا گیا اور طلباء و طالبات پر لازم کیا گیا کہ وہ تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ان میں سے کسی بھی کھیل کا انتخاب کریں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
ان کھیلوں کی حوصلہ افزائی اور کھیلوں کی بنیاد پر تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا ایک مخصو ص کوٹہ مختص کیا جاتا تھا اور ہر ادارے کی منتخب ٹیمیں ترتیب دی جاتی تھیں جو ٹورنامنٹ میں شریک ہو کر اپنی مخصوص شناخت کروایاکرتی تھیں۔ علاقائی اور شہری سطح پر علیحدہ مقابلے کرائے جاتے تھے۔ قابل ذکر ادارے حبیب بینک، یونائیٹڈ بینک، مسلم کمرشل بینک، اسٹیٹ بینک، الائیڈبینک، نیشنل بینک، پاکستان کسٹم، پی آئی اے، پاکستان ریلویز، پاکستان ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور دیگر مقامی ادارے شامل تھے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام اداروں کی کھیلوں کی تربیت کے لیے وسیع اراضی پر محیط Sports Academies ہوا کرتی تھیں اور ان کو سالانہ مخصوص مالیاتی بجٹ کے ساتھ چلایا جاتا تھا۔ ان اداروں کی محنت اور جستجو سے ملک کونہ صرف با صلاحیت بین الاقوامی اسٹینڈرڈ کے کھلاڑیوں کے حصول میں رہنمائی ملی بلکہ بیرون ممالک سے کھلاڑیوں کی بڑی تعداد کھیلوں کی تربیت کے لیے ہمارے ہاں آتی تھیں جو عالمی مارکیٹ میں ملک کی نیک نامی و شہرت کا سبب بنی۔
ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے عالمی اعزازات کا حامل یہ کھیل دوسرے کھیلوں کی طرح سیاست کی نظر ہوگیا ۔ہمارے سابقہ قابل فخر سفیران پاکستان حنیف خان، سمیع اللہ، حسن سردار، شہناز اور منظور الحسن نامور فٹ بالرز، لیاری ہی سے تعلق رکھنے والے عالمی باکسنگ چیمپئن حسین شاہ جیسے نامور کھلاری جو بلا شبہ اسی مٹی کی پیداوار تھے، یک دم منظر سے غائب ہو گئے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کھیلوں کی ترقی اور مزید فروغ کے لیے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ افسوس! ایسا نہیں ہو سکا اورکھیل کی صنعت تباہی اور زوال کا شکارہوگئی اور لامحالہ قوم کے لیے تفریح کا واحد سہارا سیاست زدہ اشرافیہ کی کرکٹ تک محدود ہوگیا۔ عین ممکن ہے کہ متذکرہ اداروں کی نجی سیکٹر میں فروخت کے بعد مالکان کا کاروباری لحاظ سے اس صنعت میں عدم دلچسپی ہو۔
اس سلسلے میں ہماری تجویز ہے کہ حکومت سبسیڈیری (Subsdiary)کی صورت میں ان نجی اداروں کوکچھ رقم مختص کر ے تاکہ ان اداروں کی مددسے نہ صرف کھیلوں کے فروغ کو ایک وسیع میدان مل سکے بلکہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور خوشحالی کا سبب بھی بن سکے۔ ویسے بھی عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ سستی اور صحت مند تفریح مہیا کر نا حکومت کی اولین منصبی ذمے داری ہے ۔خواہ وہ تفریح کھیل کی شکل میں ہو یا میڈیا کی صورت میں۔