سکھر سمیت بالائی سندھ کا فرسودہ تعلیمی نظام

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر تعلیمی معیار انتہائی پست ہے۔


انسداد نقل کے لیے ویجیلنس ٹیموں کی تشکیل ۔ فوٹو : نعیم احمد غوری/ ایکسپریس

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر تعلیمی معیار انتہائی پست ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری سطح پر معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے دعوے ہی کیے جاتے رہے ہیں۔

صوبہ سندھ دیگر صوبوں کے مقابلے میں تعلیمی میدان میں انتہائی پیچھے نظر آتا ہے۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر موجود چیلنجیز سے نمٹنے اور بہتر مقام حاصل کرنے کے لیے صاحب حیثیت افراد کی اپنے بچوں کو نجی اور منہگی درس گاہوں میں تعلیم ترجیح بن چکی ہے۔

جب کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلانے پر مجبور ہیں۔ ہمارا ماضی ریکارڈ پر موجود ہے کہ وطن عزیز کا سرکاری تعلیمی نظام اتنا مضبوط اور اعلیٰ تھا کہ سرکاری درس گاہوں سے فارغ ہونے والے آج ملک کے اعلیٰ ایوانوں سمیت وفاقی و صوبائی سطح پر اہم عہدوں پر ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے ہیں۔ جب کہ ایک بڑی کھیپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ملک و قوم کا نام روشن کر رہی ہے۔

سکھر سمیت بالائی سندھ میں بچوں کی ایک بڑی تعداد درس گاہوں میں جانے کے بجائے گلی، محلوں میں کھیل کود اور مارکیٹوں میں محنت مشقت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ صوبائی حکومت کے محکمہ تعلیم کی جانب سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔

جن میں طلبا و طالبات اور اساتذہ کی حاضری یقینی بنانا شامل ہے۔ اس کے علاوہ ایسے اساتذہ جوکہ سفارشی بنیادوں پر تعینات اور گھر بیٹھے تن خواہ حاصل کر رہے ہیں ان کے لیے بائیو میٹرک سسٹم نافذ کیا گیا، تاہم حالات ہیں کہ پھر بھی تبدیل ہوتے نظر نہیں آتے۔

حکومتی سطح پر تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور نقل کی روک تھام کے لیے محکمہ تعلیم اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ہر سال نئے انداز متعارف کرائے جاتے ہیں۔ امسال بھی تعلیمی سال کے اختتام پر ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ سکھر کی جانب سے ریجن کے چار اضلاع سکھر، گھوٹکی، خیرپور اور نوشہروفیروز میں نویں و دسویں جماعت کے امتحانات کے بہتر انداز سے انعقاد کے لیے انتظامات کو حتمی شکل دی گئی ہے۔

بورڈ کی جانب سے چاروں اضلاع میں 164 طلبا کے اور 40 طالبات کے امتحانی مراکز سمیت مجموعی طور پر 204 امتحانی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ گھوٹکی میں 32امتحانی مراکز میں سے 29طلبا کے، 3طالبات، خیرپور میں 77 امتحانی مراکز میں سے 63لڑکوں کے اور 14 لڑکیوں کے، نوشہروفیروز میں 53 سے 41 لڑکوں کے، 12 لڑکیوں کے اور سکھر کے 42 امتحانی مراکز میں سے 31طلبا اور 11 طالبات کے لیے ہیں۔

اس سال نویں و دسویں جماعت کے ایک لاکھ 65 ہزار سے زاید طلبا و طالبات امتحانات دیں گے۔ نویں کلاس کے 53ہزار 128 اور دسویں کے 53ہزار 373 طالب علم ہیں۔ گھوٹکی کے 19ہزار 159 بچوں میں سے نویں کے 9 ہزار 476، میٹرک کے9681، خیرپور کے 37ہزار 725 بچوں میں سے 18ہزار 855 نویں، 18ہزار 870 میٹرک کے، نوشہروفیروز میں 26 ہزار 18 طلبا و طالبات میں سے 12ہزار 886 نویں کے، 13 ہزار 132میٹرک کے اور سکھر کے 23ہزار 601 میں سے نویں کے 11ہزار 911، میٹرک کے 11ہزار 690 طلبا و طالبات امتحانات دیں گے۔

بورڈ کی جانب سے نقل کی روک تھام کے لیے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ امتحانی مراکز میں دفعہ 144نافذ کرکے غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عاید کرنے کے ساتھ مقررہ اوقات میں امتحانی مراکز کے قرب و جوار میں واقع فوٹو اسٹیٹ کی دکانیں بھی بند رہیں گی۔ جب کہ نقل کی روک تھام کے لیے 30ویجیلنس ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں سے6 ٹیمیں خواتین افسران پر مشتمل ہیں۔ ویجیلنس ٹیموں کی نگرانی چیئرمین، سیکرٹری، ڈپٹی کنٹرولر، ڈائریکٹر اسکولز، ریجنل ڈائریکٹر پرائیویٹ اسکولز، ڈی او اور دیگر افسران کریں گے۔

بورڈ کی جانب سے8 ماڈل سینٹرز بھی قائم کیے گئے ہیں، جن میں آئی بی اے سکھر، پبلک اسکول، کیڈٹ کالج پنوعاقل، ناز پائلٹ اسکول خیرپور، مظہر مسلم ماڈل اسکول رانی پور، اسلامیہ پبلک ہائی اسکول گھوٹکی، گرلز ہائر سیکنڈری اسکول گھوٹکی، کیڈٹ کالج گھوٹکی اور پارس پبلک اسکول کنڈیارو شامل ہیں۔ امتحانات کا سلسلہ 8 اپریل تک جاری رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں