اصلاحات نہیں پورے ڈھانچے کو بدلنا ہوگا
ملک کے ہر قومی ادارے میں اربوں کی کرپشن کی خبریں روز مرہ کا معمول بنی ہوئی ہیں
PANCHGANI:
ملک میں نظم ونسق اورجرائم کی روک تھام کی سب سے بڑی ذمے داری پولیس پر آتی ہے لیکن یہ ایک اوپن سیکریٹ ہے کہ ملک میں ہونے والے جرائم کی سرپرستی یہی محکمہ کرتا ہے یہی نہیں بلکہ اسی محکمے کے اہلکار خود براہ راست جرائم میں ملوث رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں تھانوں کی نیلامی کا کلچر اس قدرمستحکم ہوگیا ہے کہ اسے ختم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ ہمارے انتخابی نظام میں انتخابات لڑنے والے جس طرح کروڑوں کی سرمایہ کاری کرکے اربوں کماتے ہیں اسی طرح تھانوں کی خریداری پر جو سرمایہ کاری کی جاتی ہے اس کا دس دس، بیس بیس گنا زیادہ سرمایہ واپس لیا جاتا ہے اگر یہ کلچر موجود اور مستحکم ہے تو پھر اصلاحات کے نام پرکی جانے والی کوشش عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے علاوہ اورکیا کہلا سکتی ہے۔
کراچی ہمارے ملک کا سب سے بڑا اور صنعتی شہر ہے جہاں دو کروڑ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں محکمہ پولیس کا سب سے بڑا عہدہ آئی جی کا ہوتا ہے، کراچی میں آئی جی کی کارکردگی کا اندازہ سابقہ آئی جی کی برطرفی سے لگایا جاسکتا ہے جن پر بھاری کرپشن سمیت کئی الزامات عائدکیے گئے اور ان کی جگہ سندھ حکومت نے ایک نئے آئی جی کی تقرری کی ہے۔
17 مارچ کے اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق پولیس کے خلاف ایک مقدمے میں ابتدائی طور پر 40 کروڑ کی کرپشن کا پتا چلا لیکن نیب نے جب اس کی تحقیق شروع کی تو یہ انکشاف سامنے آیا کہ اس محکمے میں 40 کروڑ کی نہیں بلکہ ایک ارب سے زیادہ کی کرپشن ہوئی ہے۔
اس حوالے سے جن افسران کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان میں 3 ڈی آئی جیز، 19 ایس پیز شامل ہیں۔ اس قسم کی خبریں آئے دن میڈیا میں آتی رہتی ہیں اور اس حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کے ریمارکس اس قدر دلچسپ اور معنی خیز ہوتے ہیں کہ اگر انھیں سنجیدگی سے دیکھا جائے تو اس محکمے کی افادیت اورکارکردگی روز روشن کی طرح سامنے آجاتی ہے اور عوام حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔
17 مارچ ہی کے اخبارات کے مطابق کراچی میں صرف دو ماہ کے دوران 6 ہزار موبائل فون چھینے گئے، 3500 موٹرسائیکلوں سے عوام محروم ہوگئے اور 326 گاڑیاں چھینی اورچوری کی گئیں۔ اس خبرکی تفصیل میں علاقوں کے حوالے سے جو اعداد وشمار دیے گئے ہیں، انھیں ہم یہاں اس لیے پیش کر رہے ہیں کہ عوام کو اپنے علاقوں میں ہونے والے جرائم کا اندازہ ہوسکے۔ کراچی میں ضلع شرقی کے علاقے گلشن اقبال میں 1118، جمشید کے علاقے میں 562 موبائل فون چھینے اور چوری کیے گئے۔
صدر کراچی میں اس دوران 477، کلفٹن میں 442، کیماڑی میں 96، شاہ فیصل میں 416،کورنگی میں 402، لانڈھی میں 205، گلبرگ کراچی میں 397، نارتھ ناظم آباد میں 383 موبائل فون چھینے یا چوری کیے گئے۔ اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس قسم کی 90 فیصد وارداتوں کو پولیس میں رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا۔ یہ وہ وارداتیں ہیں جنھیں اسٹریٹ کرائم کہا جاتا ہے اس کے علاوہ بڑی بینک ڈکیتیاں، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری جیسے جرائم کی جو بھرمار ہے ان سے میڈیا بھرا پڑا ہے۔
ملک کے ہر قومی ادارے میں اربوں کی کرپشن کی خبریں روز مرہ کا معمول بنی ہوئی ہیں۔ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے جو جواز پیش کیے جاتے رہے ہیں ان میں فاضل ملازمین کے ساتھ ساتھ بھاری کرپشن کی خبریں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ ہمارے وزیر نجکاری نے کہا ہے کہ اسٹیل مل کی نجکاری جتنی جلد ممکن ہو کردی جائے اس حوالے سے جو جواز پیش کیے جاتے رہے ہیں ان میں بھی کرپشن ایک اہم جواز ہے۔ 17 مارچ ہی کی ایک خبر کے مطابق نیب، ایف آئی اے اور محکمہ آڈٹ نے پاکستان اسٹیل میں تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
انتظامیہ سے یوٹیلیٹیز کی مد میں 1 ارب 6 کروڑ کے میڈیکل اخراجات وغیرہ کا ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔ اسی حوالے سے اگر منشیات کی فروخت اور استعمال وغیرہ پر نظر ڈالی جائے تو ایک دو کالمی خبر ہمارے سامنے ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں 60 سے 70 لاکھ کے لگ بھگ افراد نشے کے عادی ہیں۔ جامعہ کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے انکشاف کیا کہ 45 فیصد منشیات افغانستان سے پاکستان اسمگل ہوتی ہیں۔
ہم نے جرائم کے حوالے سے کچھ اعداد وشمار اس لیے پیش کیے ہیں کہ کراچی اور ملک کی صورتحال ہمارے سامنے آسکے۔ محکمہ پولیس کی ذمے داریوں اور اس محکمے میں موجود بدنظمی کا بھی ہم نے مختصراً ذکر کیا۔ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مختلف قسم کی اصلاحات اور تادیبی کارروائیاں کی جاتی ہیں، آئی جی سمیت سیکڑوں افسران اس کی زد میں آتے ہیں۔
حال ہی میں سندھ میں 100اورکراچی میں 30 تھانوں کا اضافہ کیا گیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں سپاہی وغیرہ بھرتی کیے جا رہے ہیں لیکن صورتحال کچھ یوں ہے کہ ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی''۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ہمارا انتظامی ڈھانچہ انگریزوں کا چھوڑا ہوا ہے جس میں پولیس عوام کی خدمت گزارکے بجائے حاکم بنی رہتی ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ سرمایہ دارانہ نظام کی عنایت کردہ کرپشن ہماری رگ رگ میں سرائیت کیے ہوئے ہے۔ عقل حیران ہے کہ کیا ہماری 68 سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی حکومت، ایک بھی ایسا حکمران گزرا ہے جو بے معنی اصلاحات اور تادیبی کارروائیوں کے بجائے اس پورے کرپٹ انتظامی ڈھانچے کو سمجھا ہو اور اسے بدلنے کی کوشش کی ہو؟
ملک بھرکی پولیس 68 سال پرانی ذہنیت پر کاربند ہے، نئے اہلکاروں کی تربیت کا پورا نظام ازکار رفتہ اور نوآبادیاتی دور کی یادگار ہے۔ اس تلخ حقیقت کی روشنی میں آپ ہزار اصلاحات لائیں ہزار تادیبی کارروائیاں کریں نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کے علاوہ کچھ نہیں نکلے گا۔ موجودہ پولیس سپاہی سے لے کر آئی جی تک جس تربیتی ڈھانچے میں قید ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کسی قسم کی بھلائی کی توقع ''خیال است و محال است و جنوں'' کے علاوہ کچھ نہیں۔
اگر انتظامیہ میں بہتری لانا ہے تو پولیس کی موجودہ پوری نفری کو بتدریج ہٹا کر انھیں خالی پڑی ہوئی لاکھوں ایکڑ زرعی زمین پر اجتماعی کاشت کے فارموں پر لگا دیا جائے جو ایک باعزت متبادل روزگار بھی ہے اور جس سے پیداوار میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے اور ملک میں جو لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان نوکریوں کی تلاش میں خوار ہو رہے ہیں انھیں پولیس میں بھرتی کرکے اور مغربی ملکوں کی تربیت کے مطابق ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو تربیت دی جائے تو پھر بہتری کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔ باقی تمام طریقے مکھی پر مکھی مارنے کے علاوہ کچھ نہیں۔