ناکام کرکٹ اور محبت کی داستان

بھارت میں جو محبت ملتی ہے وہ پاکستان میں کہاں نصیب ہوتی ہے

usmandamohi@yahoo.com

جب کولکتہ میں شاہد آفریدی نے ایک پریس کانفرنس میں کھلم کھلا کہا کہ انھیں بھارت میں جو محبت ملتی ہے وہ پاکستان میں کہاں نصیب ہوتی ہے تب ہی ان کے اس گلے سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ضرور بھارت میں کسی محبت کے چکر میں گرفتار ہو چکے ہیں۔

اگر ہم پلٹ کر ماضی کی طرف دیکھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ بھارت میں شروع سے ہی یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ جب بھی کسی عالمی کرکٹ ٹورنامنٹ یا دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی کرکٹ سیریز کے لیے پاکستانی ٹیم بھارت گئی ہے تو کھلاڑیوں پر کبھی ممبئی کی فلمی پریاں تو کبھی کرکٹ کی شائقین لڑکیاں اپنا جادو چلانے کی کوشش کرتی رہی ہیں اور پھر اس عشق کے ڈرامے کو وہاں کا میڈیا خوب کوریج دیتا رہا ہے اور اس طرح اس عشق کی ہمت افزائی کرتا رہا ہے۔

ایک وقت تھا جب پاکستانی فاسٹ بولر فضل محمود بھارت کی فلم نگری میں بہت مقبول تھے خوش قسمتی سے وہ تھے بھی بہت خوبصورت ان کی بھوری آنکھیں ایسی پرکشش تھیں کہ جن پر پتھر دل حسیناؤں کے دل بھی موم بن کر پگھلنے پر مجبور ہو جاتے تھے وہ جب بھی ٹیم کے ساتھ بھارت کے دورے پر گئے ان پر کوئی نہ کوئی فلمی پری مر مٹتی تھی اور انھیں اپنے جال میں پھنسانے کی تگ و دو شروع کر دیتی تھی مگر اس کا اثر یہ ہوتا کہ فضل محمود بھارت میں زیادہ اچھی کارکردگی نہ دکھا پاتے۔

اس سے یہ پتہ چلا کہ بھارت میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستانی کرکٹرز کی کارکردگی کو زیرو بنانے کے لیے حسین فلمی پریوں کا جال بچھایا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پاکستانی کرکٹرز خود اس بھارتی چال سے خبردار رہیں، مگر ایسا نہ ہو سکا چنانچہ محسن حسن خان کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا اور ان کا عشق حقیقت کا روپ دھار کر شادی پر منتج ہوا اسی طرح شعیب ملک کے ساتھ بھی ایسی ہی واردات پیش آئی اور ان کا عشق بھی شادی پر ہی ختم ہوا۔

اب اس دفعہ شاہد آفریدی کو گھیر لیا گیا ایک کشمیری لڑکی ان کے عشق میں گرفتار ہو گئی اس ڈرامے کو بھی بھارتی میڈیا نے خوب اچھالا مگر لگتا ہے یہ یک طرفہ نہیں تھا بلکہ اس ڈرامے میں آفریدی نے بھی ضرور اپنا کچھ حصہ ڈالا تھا جب ہی تو وہ کشمیر سے میچ دیکھنے کے لیے آنے والوں کا بڑی محبت سے بار بار شکریہ ادا کرتے رہے گو کہ بھارتی میڈیا کو ان کا خصوصی طور پر کشمیریوں کا شکریہ ادا کرنا بہت برا لگا کیونکہ وہ سمجھے کہ آفریدی کشمیریوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ ایسا کچھ نہیں تھا وہ دراصل شکریہ کسی اور کا ادا کر رہے تھے۔

بی بی سی لندن نے اپنی ویب سائٹ پر شاہد آفریدی کی اس مداح کشمیری لڑکی کا نہ صرف فوٹو شایع کیا بلکہ اس لڑکی نے بی بی سی کے نمایندے کو جو اپنے دل کی باتیں بتائیں وہ ویب سائٹ پر بطور خاص تفصیل سے شایع کی گئی ہیں۔ اس لڑکی نے بتایا ''سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثر کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ میرے قریبی ہی نہیں بلکہ بہت سے لوگ شاہد آفریدی عرف لالہ کے لیے میرا شرمندگی کی حد تک کا جنون جان گئے ہیں۔

ایک بار ممبئی میں ایک تقریب میں شاہد آفریدی سے میرا تعارف میزبان نے شاہد آفریدی فین کلب کی صدر کے طور پر کروایا تھا۔ وہ ٹوئیٹر پر لالہ کے لیے میری دیوانگی جانتے تھے مجھے لگا کہ ان کی رائے بہت مختلف نہیں تھی تاہم اور لوگ بھی آفریدی کے پرستار ہونے کا اعزاز جیتنے کی دوڑ میں شامل ہوں گے۔


ان کے لیے میں کہوں گی اور زور دے کر کہتی ہوں کہ گیند روکنے کے لیے دائیں ٹانگ اندر رکھ کر کھڑے ہونے کا آفریدی کا اسٹائل انتہائی خوبصورت ہوتا ہے جو کبھی عجیب بے تکا سا لگتا تھا۔ اس سے بڑی دلیل ہے کوئی میری زندگی میں بہت سے مشکل دور آئے۔ اس دوران میں برسوں سے جمع کیے آفریدی کے پرانے دھندلکے ویڈیوز بار بار دیکھتی تھی میرے دکھ اور خوف سے نکلنے میں وہ بہت مددگار تھے۔

میرے لیے 1996ء میں سری لنکا کے خلاف ون ڈے میں 37 گیندوں پر آفریدی کی دنیا کی سب سے تیز سنچری بہت بڑی بات تھی گو کہ اب یہ ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے مگر مجھے دیکھیے میں اس کی پروا نہیں کرتی۔ پھر حال میں ایشیا کپ 2014ء میں بھارت اور پھر فائنل میں بنگلہ دیش کے خلاف ان کے چکاچوند کر دینے اور فتح دلانے والے چھکے بہترین رہے۔

مجھے سب سے عمدہ انتخاب میں انتہائی مشکل ہوتی ہے کیونکہ نیٹ پر لالہ اور ان کی کرکٹ پر ہزاروں گیتوں کی بنیاد پر تیار کیے گئے ویڈیوز کی بھرمار ہے۔ ایک بار جب آفریدی شاندار طریقے سے چمکنے لگتے ہیں تو لگتا ہے کہ وہ اس وقت آپ کو یا کسی کو بھی کیسے مایوس کر سکتے ہیں؟ پھر کس طرح کوئی کھیل میں آفریدی کے جادو اور پاگل پن پر شک کر سکتا ہے؟ مگر پھر تاریکی والا وقت آ جاتا ہے۔ دیکھیے میں آفریدی کی بہت بڑی پرستار ہوں جیسے میری بہن جیسے میرا بھائی میرا خاندان اور کرکٹ کو چاہنے والے بہت سے دیگر کشمیری۔ میں نے اس ستارے کو تب سے دیکھا ہے جب وہ 90ء کی دہائی میں کرکٹ کی دنیا میں زبردست طریقے سے ابھرا تھا۔

لالہ کا بلے باز سے لیگ اسپنر اور پھر آل راؤنڈر بننے کا سفر میرے بچپن سے جوانی کے سفر کا اہم حصہ رہا ہے کتنا بہترین فیلڈر کتنا مزیدار پلیئر کتنا باتونی شخص۔ آفریدی کی فارم اتنی غیر یقینی ہے کہ جب وہ بلّا گھماتے ہیں تو میرے جیسے لاکھوں لوگ جوش اور جذبے سے شرابور ہو جاتے ہیں۔ ایک پل میں وہ اپنے ملک کی امیدیں توڑتے ہیں، وہیں کبھی وہ کچھ ایسا شاندار اور ناقابل یقین کر ڈالتے ہیں کہ آپ اگلی بار کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔'' اس لڑکی کی ان باتوں سے صاف طور پر عیاں ہے کہ وہ سنجیدگی کی حد تک آفریدی کو اپنے دل میں بسا چکی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دوسری طرف جذبات سرد رہے ہوں گے۔

آخر آفریدی بھی ایک خوبرو نوجوان اور دھڑکتے دل کے مالک ہیں تاہم ان سے حد سے گزرنے کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی کیونکہ وہ نہ صرف شادی شدہ ہیں بلکہ کئی بچیوں کے باپ ہیں مگر اتنا ضرور ہوا کہ وہ ٹی 20 کے اہم میچ میں وہ کھیل نہ کھیل سکے جسے دیکھنے کے سب مشتاق تھے۔ بہرحال انھوں نے ہار کا اثر ضرور لیا اور ڈریسنگ روم میں جا کر خوب روئے۔ جس پر انتخاب عالم نے انھیں گلے لگا کر تسلی دی مگر اب تسلی دینے کا کیا فائدہ تھا کیونکہ وہ اپنی جلد بازی اور حساس دل کی وجہ سے سب کچھ کھو چکے تھے، ہو سکتا ہے آگے وہ اس شکست کو بھول جائیں مگر اس لڑکی کی محبت اور خلوص کو بھلانا شاید ان کے بس میں نہ ہو۔

کاش وہ اپنی اس فین کی خاطر ہی اپنے کھیل پر توجہ مرکوز کر لیتے اور اپنے معیار کو قائم رکھتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس ٹورنامنٹ میں کوئی نئی تاریخ رقم نہ کر جاتے تاہم یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ٹیم کے دیگر پلیئرز بھی کھیل میں وہ دلچسپی اور سنجیدگی نہ دکھا سکے جس کی ان سے امید تھی ۔

آفریدی ہی تھے جنھوں نے اپنے دوسرے ہی ون ڈے انٹرنیشنل میں سری لنکا کے خلاف 37 بالوں پر سنچری مکمل کر کے ایک تاریخی ریکارڈ قائم کیا تھا اس سنچری میں گیارہ چھکے اور 6 چوکے شامل تھے یہ اس وقت کی تیز ترین سنچری تھی ان کا یہ ریکارڈ 17 برس تک قائم رہا۔ آفریدی کا ون ڈے انٹرنیشنل میں 351 چھکے لگانے کا اب بھی ریکارڈ قائم ہے۔

آفریدی کو ٹی 20 کے 98 میچ کھیلنے کا اعزاز حاصل ہے انھوں نے ٹی 20 میں سب سے زیادہ 970 وکٹیں لی ہیں۔ انھیں اس میں سب سے زیادہ گیارہ مرتبہ مین آف دی میچ ایوارڈ حاصل کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ انھوں نے 2013ء میں ویسٹ انڈیز کے خلاف 12 رنز دے کر 7 وکٹیں لی تھیں۔ وہ پہلے بھی ہیرو تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہیرو رہیں گے البتہ اب عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہے۔
Load Next Story