پاکستانی کرکٹ میں مشکل فیصلے کرنے کا وقت آگیا سابق اسٹارز
کوئی بھی اعلیٰ آفیشل تنقید کا سامنا کرنے یا عہدہ چھوڑنے کو تیار نہیں، رمیز راجہ
سابق ٹیسٹ کرکٹرز کا کہنا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کی بہتری کیلیے مشکل فیصلے کرنے کا وقت آگیا۔
تفصیلات کے مطابق سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی قومی کرکٹ کے زوال پر رنجیدہ ہیں، عامر سہیل نے وقار یونس کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ کھلاڑیوں کی تکنیک بہتر بنانا وقار یونس کی ذمے داری تھی لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ پی سی بی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ممبرز مصباح اور یونس اس وقت بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں، دونوں کیسے اپنے ساتھیوں کی خامیاں بتائیں گے۔
سابق کپتان رمیز راجہ نے کہا کہ ورلڈ ٹی 20 میں قومی ٹیم کی شرمناک شکست پر کوئی بھی تنقید کا سامنا کرنے یا رضاکارانہ مستعفی ہونے پرآمادہ نہیں ہے، اگر ٹیم اچھے نتائج دینے میں کامیاب رہتی تواس وقت صورتحال مختلف ہوتی، اس کا غمناک پہلو یہ ہے کہ ہمیں پرفارمنس یا سوچ میں کوئی تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی لیکن اب تبدیلیوں کا وقت آگیا ہے۔
رمیز نے مزید کہا کہ میں وقار یونس کے ساتھ کھیل چکا ہوں اور مزید کچھ کہہ کر انھیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا، تمام اسٹیک ہولڈرزکو پہلے ہی بہت آزادی اور وقت دیا جاچکا لیکن اب مشکل فیصلے کرنے کا وقت آچکا ہے، انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ہمارا ریزرو ٹیلنٹ خاطرخواہ اچھا نہیں تو اس میں قصوروار کون ہے؟ کچھ کھلاڑیوں میں بہتری نہیں آرہی، میرے خیال میں اب چند پلیئرز کو آرام دے کر نئے چہروں کوآزمانا چاہیے، کسی کے پاس بھی صلاحیت ثابت کرنے کیلیے 2 سال کا وقت بہت ہوتا ہے۔
اگر وہ ایسا نہیں کرپاتا تو اسے خود عہدے سے الگ ہوجانا چاہیے، سابق کپتان محمد یوسف نے کہا کہ ہیڈ کوچ وقار یونس کا معافی مانگنا بڑا پن ہے لیکن ورلڈ ٹی 20 میں قومی ٹیم کی بدترین شکست کی جو بھی وجوہات ہیں وہ قوم کے سامنے آنی چاہئیں، ہر بار ہی ایسا ہوتا ہے کہ قوم کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا، انھوں نے کہا کہ ہیڈ کوچ ایک جانب کہہ رہے ہیں کہ سیاست نہیں، دوسری طرف کہتے ہیں کہ بہت ساری چیزیں ٹھیک کرنے والی ہیں، یہ سمجھ نہیں آتاکہ وہ درحقیقت بتانا کیا چاہتے تھے، یوسف نے کہا کہ وقار یونس پاکستان کے بہت بڑے کھلاڑی بھی رہے ہیں،ٹیم کا ہیڈ کوچ کسی صورت بھی مجبور نہیں ہو سکتا، یہ باتیں کرنا درست نہیں۔
اب اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو انھیں جانا چاہیے اور اگر بورڈ نہیں رکھنا چاہتا تب بھی کوئی مسئلہ نہیں،سابق بیٹسمین نے تجویز دی کہ وقار یونس کو ملتان ریجن کی کرکٹ کا ہیڈ بنا دینا چاہیے، وہاں کے تمام کوچز کو ان کے زیرنگرانی کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ اس ریجن سے اچھے کھلاڑیوں کو تیار کرسکیں، بھارت میں بھی راہول ڈریوڈ نے ملکی جونیئر ٹیم کو تیار کرنے کا بیڑا اٹھایا، مجھے پورا یقین ہے وقار بھی بہتر پلیئرز تیار کر کے اچھے نتائج دیں گے۔ سابق پیسر شعیب اختر نے کہا کہ وقاریونس نے جس طرح ہاتھ جوڑکر میڈیا کے سامنے قوم سے معافی مانگی، وہ میرے لیے تکلیف دہ رہا، وہ ہمارے عظیم کرکٹر رہے ہیں، انھیں ایسے معافی مانگتے دیکھ کر دکھ ہوا، انفرادی طور پرلوگوں کے معافیاں مانگنے سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا، پاکستان کرکٹ میں بہت ساری چیزیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔
تفصیلات کے مطابق سابق ٹیسٹ کرکٹرز بھی قومی کرکٹ کے زوال پر رنجیدہ ہیں، عامر سہیل نے وقار یونس کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ کھلاڑیوں کی تکنیک بہتر بنانا وقار یونس کی ذمے داری تھی لیکن وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے۔ پی سی بی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے ممبرز مصباح اور یونس اس وقت بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں، دونوں کیسے اپنے ساتھیوں کی خامیاں بتائیں گے۔
سابق کپتان رمیز راجہ نے کہا کہ ورلڈ ٹی 20 میں قومی ٹیم کی شرمناک شکست پر کوئی بھی تنقید کا سامنا کرنے یا رضاکارانہ مستعفی ہونے پرآمادہ نہیں ہے، اگر ٹیم اچھے نتائج دینے میں کامیاب رہتی تواس وقت صورتحال مختلف ہوتی، اس کا غمناک پہلو یہ ہے کہ ہمیں پرفارمنس یا سوچ میں کوئی تبدیلی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی لیکن اب تبدیلیوں کا وقت آگیا ہے۔
رمیز نے مزید کہا کہ میں وقار یونس کے ساتھ کھیل چکا ہوں اور مزید کچھ کہہ کر انھیں تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا، تمام اسٹیک ہولڈرزکو پہلے ہی بہت آزادی اور وقت دیا جاچکا لیکن اب مشکل فیصلے کرنے کا وقت آچکا ہے، انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ہمارا ریزرو ٹیلنٹ خاطرخواہ اچھا نہیں تو اس میں قصوروار کون ہے؟ کچھ کھلاڑیوں میں بہتری نہیں آرہی، میرے خیال میں اب چند پلیئرز کو آرام دے کر نئے چہروں کوآزمانا چاہیے، کسی کے پاس بھی صلاحیت ثابت کرنے کیلیے 2 سال کا وقت بہت ہوتا ہے۔
اگر وہ ایسا نہیں کرپاتا تو اسے خود عہدے سے الگ ہوجانا چاہیے، سابق کپتان محمد یوسف نے کہا کہ ہیڈ کوچ وقار یونس کا معافی مانگنا بڑا پن ہے لیکن ورلڈ ٹی 20 میں قومی ٹیم کی بدترین شکست کی جو بھی وجوہات ہیں وہ قوم کے سامنے آنی چاہئیں، ہر بار ہی ایسا ہوتا ہے کہ قوم کو کچھ پتہ ہی نہیں چلتا، انھوں نے کہا کہ ہیڈ کوچ ایک جانب کہہ رہے ہیں کہ سیاست نہیں، دوسری طرف کہتے ہیں کہ بہت ساری چیزیں ٹھیک کرنے والی ہیں، یہ سمجھ نہیں آتاکہ وہ درحقیقت بتانا کیا چاہتے تھے، یوسف نے کہا کہ وقار یونس پاکستان کے بہت بڑے کھلاڑی بھی رہے ہیں،ٹیم کا ہیڈ کوچ کسی صورت بھی مجبور نہیں ہو سکتا، یہ باتیں کرنا درست نہیں۔
اب اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو انھیں جانا چاہیے اور اگر بورڈ نہیں رکھنا چاہتا تب بھی کوئی مسئلہ نہیں،سابق بیٹسمین نے تجویز دی کہ وقار یونس کو ملتان ریجن کی کرکٹ کا ہیڈ بنا دینا چاہیے، وہاں کے تمام کوچز کو ان کے زیرنگرانی کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ اس ریجن سے اچھے کھلاڑیوں کو تیار کرسکیں، بھارت میں بھی راہول ڈریوڈ نے ملکی جونیئر ٹیم کو تیار کرنے کا بیڑا اٹھایا، مجھے پورا یقین ہے وقار بھی بہتر پلیئرز تیار کر کے اچھے نتائج دیں گے۔ سابق پیسر شعیب اختر نے کہا کہ وقاریونس نے جس طرح ہاتھ جوڑکر میڈیا کے سامنے قوم سے معافی مانگی، وہ میرے لیے تکلیف دہ رہا، وہ ہمارے عظیم کرکٹر رہے ہیں، انھیں ایسے معافی مانگتے دیکھ کر دکھ ہوا، انفرادی طور پرلوگوں کے معافیاں مانگنے سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا، پاکستان کرکٹ میں بہت ساری چیزیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔