نہیں نہیں یہ ہرگز اسلام نہیں

نظام مصطفی کو نافذ کرنے کیلئے آنے والوں میں کوئی بھی ایسا نظر نہیں آیا جسکا طریقہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے مطابق ہو۔

دھرنا دینے والے چونکہ بظاہر مذہبی لوگ تھے اِس لیے یہ اُمید کی جارہی تھی کہ معاملہ افہام و تفہیم اور اچھے انداز میں چلتا رہے گا، لیکن اِس دھرنے میں جو کچھ ہوا وہ تو ناقابل بیان ہے۔

جمہوریت کا حُسن ہے کہ ہر فرد کو اپنی بات کہنے اور منوانے کی کھلی آزادی ہے۔ شاید ابراہم لنکن نے اسی لیے اسے عوام کے زریعے، عوام کے لیے، عوام کی حکومت قرار دیا تھا۔ دوسری طرف علامہ محمد اقبال جمہوریت میں افراد کی گنتی کو طرف تماش کہتے ہیں۔ یہ شعر بھلا کس کو یاد نہیں ہوگا؎
اس راز کو اک مرد قلندر نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

پاکستانی سیاست میں تشدد کا آغاز ابتداء سے ہی ہوگیا تھا، اور خاں لیاقت علی خاں اِس راہ کے پہلے شہید کہلائے۔ تشدد کے ساتھ ساتھ یہاں اول روز سے آج تک نظریات کی جنگ بھی جاری ہے، دائیں اور بائیں کے القابات اسی جنگ اور کشمکش کا حصہ ہے۔ روس بکھرا تو یہ نظریاتی جنگ آہستہ آہستہ کہیں گم ہوتی گئی۔ کیوںکہ سوشلزم اور کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لیے تو بہترین دماغ موجود تھے۔ لیکن سرمایہ داری کے سامنے بند باندھنے والا کوئی بڑا نام اور کام سامنے نہیں آسکا۔

میڈیا کا انقلاب آیا تو سیاست میں سرمایہ کاری نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ 2008ء کے مقابلہ میں 2013ء کے الیکشن میں اربوں روپوں کا سرمایہ لگایا گیا۔ یوں سیاست میں متوسط طبقہ کی شمولیت کا امکان مزید معدوم ہوتا چلا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کافی اقدامات کی کوششیں کیں لیکن نتیجہ برابر صفر رہا۔ خیال یہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں انتخابات لڑنے والوں کی اول خوبی اُس کا سرمایہ ہوگا۔

ملکی نظام میں عوامی خدمات کا دعویٰ تو بہت کیا گیا لیکن حقیقت میں یہ سب بھی اخباری اشتہارات ہی رہے۔ ملکی مفادات کی جگالی صرف شخصی یا پارٹی مفادات تک ہی محدود رہی۔ اس ضمن میں ڈکٹیٹر اور منتخب حکمران ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ البتہ فوجی وردی نے عوامی اعتماد کو نسبتاََ زیادہ محفوظ رکھا۔

ملک کا سرمایہ لوٹنے اور غیروں کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں کے خلاف ملک میں پہلے بھی احتجاج ہوتے تھے۔ ملک کا سرمایہ لوٹنے اور غیروں کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں کے خلاف ملک میں پہلے بھی احتجاج ہوتے تھے۔ ان احتجاج کی ریت جماعت اسلامی نے ڈالی تھی۔ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے دھرنے کی نئی ریت یوں ڈالی کہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں پہلی مرتبہ اسلام آباد میں کئی دنوں تک براجمان رہے۔ صرف یہیں پر انہوں نے بس نہیں کیا بلکہ موجودہ حکومت میں بھی ایک بار پھر دھرنا دیکر پاکستان کی تاریخ میں اِس حوالے سے اپنا نام ممتاز کرلیا کہ اب تک کسی نے بھی دو بار یہ کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ اُن کو دیکھتے ہی دیکھتے عمران خان صاحب بھی اس میدان میں کود پڑے اور دھرنوں کی ایک نئی تاریخ بنا ڈالی۔ اب اسلام آباد اور شاہراہ دستور و ریڈ زون مندر کی گھنٹی بن گئے ہیں، جس کو موقع ملتا ہے گھنٹی پر ہاتھ مارتا ہے اور آگے نکل پڑتا ہے۔

کردار، اخلاق ، زبان ، الفاظ، احترام اور ایسے ہی دیگر اوصاف سیاست کی گلی میں کسی لیڈر کی پہچان ہوا کرتے تھے۔ لیکن اب ان کی گمشدگی کا اشتہار ہی دنیا باقی ہے۔


اگر دس دن پہلے تک کی بات کی جائے تو پاکستان کی تاریخ میں بدترین احتجاج اور دھرنے کا اعزاز پاکستان تحریک انصاف اور طاہر القادری کے سر جاتا تھا جہاں مخالفین کے لیے 'اوئے' سے لیکر 'قاتل اور ظالم' جیسے القابات کا بے دریغ استمعال کیا گیا۔ یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ اپنے مطالبات کے حق میں بالترتیب 126 اور 66 دن بیٹھنا قابل ستائش ہے لیکن جس رویے کا اظہار دھرنے کہ دوران کیا جاتا رہا اُس کی ہرگز حوصلہ افزائی نہیں کیا جاسکتی تھی۔

لیکن پھر 27 مارچ کو وفاقی دارلحکومت میں ایک اور دھرنے کا آغاز ہوا۔ دھرنا دینے والے چونکہ بظاہر مذہبی لوگ تھے اِس لیے یہ اُمید کی جارہی تھی کہ معاملہ افہام و تفہیم اور اچھے انداز میں چلتا رہے گا، لیکن اِس دھرنے میں جو کچھ ہوا وہ نہ تو قابل بیان ہے اور نہ اُن باتوں کا ذکر کرنے کو جی کررہا ہے۔

اللہ اور اُس کے رسولﷺ کا نام لینے والے، نظام مصطفی کو نافذ کرنے کے لیے جب اسلام آباد آئے تھے لیکن افسوس کہ کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا جو اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے طریقہ کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے تیار ہو۔ گالیاں، اور ننگی گالیاں تو ایسے دی جارہی تھیں کہ جیسے گویا یہ بھی مومن کی پہچان کا ایک ذریعہ ہے۔

اگرچہ یہ بات انتہائی ناپسند اور غیر اخلاقی ہے کہ آپ کسی انسان پر ذاتی حملہ کریں، لیکن یہ بات اِس سے بھی زیادہ ناقابل قبول ہونی چاہیے کہ آپ مذہب کے نام وہ کچھ کریں جس کا مذہب سے دور دور تک تعلق نہیں۔ کیا اِس دھرنے میں موجود کوئی ایک عالم اور مفتی بھی یہ بات بتاسکتا ہے کہ کن حالات میں ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان کو گالی دینا جائز ہے؟ جب رہنمائی کرنے والے اسٹیج سے بیٹھ کر حکمرانوں اور سیکورٹی اداروں کے لیے ناپسندیدہ الفاظ کا مسلسل استعمال کرتے رہیں گے تو بھلا اُن کے اشاروں پر چلنے والے لوگوں سے ہم کیا اُمید لگاسکتے ہیں؟

لیکن اسلام آباد میں بیٹھے ظالمو نے تو لوگوں کو اسلام سے قریب کرنے کے بجائے مزید دور کردیا۔ اب لوگ کہیں گے کہ ہم نہ کہتے تھے کہ مذہبی لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں، یہ شدت پسند ہوتے ہیں، لہذا اِن سے دور رہا جائے۔ لیکن مجھے کہنے دیجیے کہ اگر ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان کی جان، مال، عزت، آبرو اور املاک محفوظ نہیں تو بھلا پھر کس منہ سے ہم خود کو مسلمان کہتے ہوئے سینہ چوڑا کرتے ہیں؟ اسلام آباد جائیے تو سہی اور دیکھیے تو سہی کہ وہاں لوگوں کی املاک کے ساتھ دین کا نام لینے والوں نے کیا حال کیا ہے۔ اگر اخلاقی پابندی عارے نہیں آتی تو درجنوں ویڈیوز ایسی موجود ہیں جس کے ذریعے بظاہر نظر آنے والے مذہبی لوگوں کے کردار اور اخلاق کا پردہ چاک کیے جاتے لیکن نہیں، ہم ایسا نہیں کرسکتے کہ ہمارے دین نے سکھایا ہے کہ کوئی انسان چاہے جتنا اخلاق سے گرجائے مگر مومن ایسا نہیں کرسکتا۔

گزشتہ چار دنوں میں دین کے نام پر جو کچھ اسلام آباد میں ہوا، اُس کو دیکھتے ہوئے براہ کرم مجھے کہنے دیجیے کہ یہ اسلام نہیں، نہیں نہیں، یہ ہرگز اسلام نہیں۔ اسلام نے تو لوگوں کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے، اسلام نے تو بتایا ہے کہ لوگوں کو اُس کے عقیدے، مذہب سے نہیں بلکہ اُن کو انسان کے طور پر دیکھا جائے۔ کوشش کی جائے کہ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان کو کبھی کوئی تکلیف نہ ہو۔ اگر کسی بات سے اعتراض ہے تو اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے اعتراض کا اظہار کیا جائے، اپنے اخلاق کو ایسا کرلیا جائے تو لوگ خد بخود اسلام کی طرف کھینچتے چلے آئیں۔

[poll id="1041"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story