پاک سرزمین پارٹی پر ایک نظر
اس میں لفظ مہاجر موجود تھا اور ایسا لگتا ہے کہ لفظ متحدہ پر کئی دن بحث ہوئی ہے۔
جیسا کہ گزشتہ مضمون میں مہاجر فیکٹر پر گفتگو کی گئی تھی کہ وہ کون سے عوامل اور عناصر تھے جنھوں نے مہاجر دانشوروں کے ایک طبقے کو جھنجھوڑ کر مہاجر عنصر کو جمع کرنا شروع کیا اور ہماری مخالفت کے باوجود ایک مضبوط پارٹی کی شکل میں بلکہ ڈسپلن اور تدریسی عمل کے انداز میں کمیونسٹ پارٹی کے نظم و ضبط میں پارٹی کا ڈھانچہ تشکیل دے دیا۔ لہٰذا اب یہ ضروری ہے کہ مہاجر قومی موومنٹ جو بعدازاں متحدہ قومی موومنٹ کا تشخص برقرار رکھے ہوئے تھی۔
اس میں لفظ مہاجر موجود تھا اور ایسا لگتا ہے کہ لفظ متحدہ پر کئی دن بحث ہوئی ہے۔ اس مباحثے میں کتنے دماغ سرگرداں رہے ہیں کچھ اندازہ نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ قائد تحریک سمیت شہر کے سرگرداں دانشور احمد الطاف، ڈاکٹر اقبال مرحوم، رئیس امروہوی، اختر رضوی اور نیشنل عوامی پارٹی کا اردو داں طبقہ بھی اس میں شامل رہا ہے۔
جس نے اردو داں طلبا کی نشو ونما میں تربیت فرمائی اور استدلال پیش کیا کہ قوم کے لیے جتنے عناصر کی ضرورت ہے وہ سب موجود ہیں۔ مثلاً بول چال،یعنی زبان، علاقہ ثقافت، پوشاک، تہوار وغیرہ اسی لیے مرد و زن نے اپنی نمائش کی پتنگ کو عملی نشان جیسا کہ سل بٹہ مسالہ پیسنے کے لیے ہو بہ ہو پنجاب کے طرز پر ہے اور جھنڈ کے طرز اور رنگوں کے حساب سے چوڑیاں، لال، ہرے سفید کلر کی، لال مزدوروں کی رعایت، ہرا مسلمانوں کے توسط سے اور سفید اقلیت پر اعتبار سے مماثلت اور یکسانیت ہر مسئلے پر دلائل اور مباحثہ یوں ہی نہیں کہ راتوں رات جمع ہوئے اور بڑے زور و شور سے مخالفت میں پریس کانفرنس کی جا رہی ہے ۔
غرض زبردست ہوم ورک کے بعد ایم کیو ایم نام تجویز ہوا اور جب متحدہ قومی موومنٹ رکھا گیا کیوں کہ مسلم لیگ کو یہ نام پسند نہ تھا، جس میں لفظ مہاجر موجود ہو تو متحدہ اس لیے رکھا گیا کہ وہ ''م'' سے مہاجر اور ''م'' سے متحدہ دونوں کے جذبات و احساسات کو متوازن رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہاجر قومی موومنٹ کی دو نسلیں اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے محروم ہو گئیں لیکن انھوں نے سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا تشخص منوا لیا اور سر عام خود مہاجر کہلوانے میں عار محسوس نہیں کرتے اور سیاسی طور پر MQM اپنی سیٹیں لینے میں پیش پیش ہے۔ مسلسل 26 سال سے شہری علاقوں میں اپنا لوہا منوا رکھا ہے۔
گو کہ آخر کے 25 سال میں زوال پذیری کی جانب ایم کیو ایم کا سفر رہا مگر مخالفین نے کچھ اس انداز سے معاملات کو حل کیا کہ گرتی ہوئی ساکھ نے سنبھالا لیا۔ اس میں کسی حد تک PTI اور دیگر پارٹیوں نے ایم کیو ایم کی گرتی ہوئی ساکھ نے معاملات کو بے حد خراب کیا کیونکہ بعض خود پسند عناصر ایم کیو ایم کو خراب کرنے پر تلے ہوئے تھے مثلاً چائنا کٹنگ وغیرہ، لیکن ایم کیو ایم کو پانچویں قومیت کا درجہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔
یہاں تک کہ بعض کوتاہیوں کو بھی نظرانداز کرنے پر تیار ہو گئے جس کی وجہ سے پارٹی میں دراڑ پڑ گئی اور مصطفیٰ کمال اس کو لیڈ کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال نے جس حصے کو لیڈ کیا وہ ایک حصہ ہی ہے۔ کوئی ٹھوس فکری حصہ نہیں ہے وہ ایم کیو ایم کا نچوڑ بالکل نہیں یہ پانچویں قومیت کا جز نہیں اور مہاجر فیکٹر سے اس کا تعلق نہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا مہاجر نا بھی اس میں موجود نہیں ہے۔
مصطفیٰ کمال نے جس پارٹی کو مہاجر فیکٹر کا متبادل قرار دیا وہ کسی طرح سے بھی ایم کیو ایم پر ڈنٹ لگانے میں کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ فکری طور پر ڈنٹ تو دور کی بات یہ مہاجر فیکٹر کے پاس سے بھی نہ گزرا۔ اس سے یہ محسوس ہوا کہ پاک سرزمین پارٹی نے کوئی ہوم ورک نہ کیا بلکہ مسلم لیگ کی ایک اور قسم ہے۔
(ن) لیگ، (ق) لیگ اور دوسری لیگوں کا یہ شیئر (Share) کھائے گی اس کی راہ تو جدا ہی ہے لہٰذا راستے جدا جدا ہیں، ٹی وی پر بڑا شور تھا کہ یہ وکٹ گر گئی وہ وکٹ گر گئی۔ اس کا کسی وکٹ سے کوئی واسطہ نہیں، پاک سرزمین تو ایک ملک ہے جس میں مختلف نظام رکھنے والی پارٹیاں ہیں اور یہ پارٹی مہاجروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی کیونکہ مہاجروں کو تو شکوہ ہی یہی تھا اور ہے کہ ان کو وہ مراعات حاصل نہیں ہیں جو وطن کے دیگر ساکنان کو حاصل ہیں۔ 70 برس گزر گئے مگر ابھی تک ان کو سن آف دی سوائل (Son Of the Soil) نہیں سمجھا جا رہا ہے دیہی اور شہری کے حقوق کی تقسیم جاری ہے۔
بھٹو صاحب نے یہ قدغن دس برسوں کے لیے لگائی تھی مگر اب یہ قدغن وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ مہاجرین امام الہند ابوالکلام آزاد کی جامعہ مسجد دلی کا خطبہ بار بار دہراتے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جو زخم کو مندمل نہیں ہونے دیتے مہاجروں نے پیپلز پارٹی کو سب سے پہلے گلے لگایا۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے اس کو اپنا حصہ سمجھا، یہاں تک کہ پارٹی کے روس نواز دھڑوں نے بھی کسی حد تک اپنایا مگر مشرقی پاکستان کے مسئلے پر پارٹی کا موقف اور انسانوں کو مچھر مار طریقہ کا سلوک اور یحییٰ خان کا شرمناک طریقہ کار نے ملک کو دو لخت کر دیا۔ مشرقی پاکستان سے کراچی میں بہاریوں کی آمد نے پہلے بہاری قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی۔
آفاق شاہد، پروفیسر لئیق اعظم نے بہاری قومی موومنٹ اور پھر نیشنل عوامی پارٹی سے مل کر پارٹی کو فعال کیا۔ غرض 1986ء میں لسانی کشمکش سے گزرنے کے بعد شہر کو ایک زبردست معرکہ سے گزرنا پڑا، رفتہ رفتہ دراڑیں کم ہو گئیں اور کراچی سے اندرون سندھ تک یہاں تک کہ رانی پور اور بھریا روڈ جیسے دور افتادہ چھوٹے قصبے تک ایم کیو ایم پہنچ گئی، لہٰذا خیابان راحت میں بیٹھ کر اس خلا کو چند پریس کانفرنسوں سے پر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ ایم کیو ایم کی جانب سے بعض پہلو ایسے جن سے تشدد کو تقویت ملتی ہو ہونے سے مخالف قوتیں برسر اقتدار آئیں۔
رفتہ رفتہ ایم کیو ایم سے دانشوروں کی کمزوری نے معاملات کو کمزور کیا مگر ایسی خستہ وکٹیں جو ایک نہیں سیکڑوں ہوں فکری طور پر خلا پر نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ تمام وکٹیں خود ایم کیو ایم کے خون جگر سے آراستہ کی گئی ہیں ورنہ یہ خود کچھ نہیں خواہ وہ مصطفیٰ کمال ہو یا ان کے ساتھی کیوں کہ ماضی میں ان کی کارکردگی صفر رہی ہے اور نہ آج کوئی فکری محاذ سے ان کی پارٹی آراستہ ہے اور نہ آراستہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ پارٹی مہاجروں کے کسی کاز کو ایڈریس کر رہا ہے اور نہ محرومیوں کا ازالہ ہے۔
آپ کو تعجب ہو گا کہ 1947ء سے آج تک ایسے مہاجر موجود ہیں جو جٹ لائن اور رنچھوڑ لائن میں 40 گز کے مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کے لیے اس نئی پارٹی نے کیا کیا مستحسن اقدام اٹھایا؟ جہانگیر روڈ، مارٹن روڈ کے مکین آج بھی اپنے مالکانہ حقوق سے محروم ہیں، جٹ لائن کے مکین بھی ایسی ہی بے سروسامانی کے عالم میں 40 گز کے مکان میں عارضی طور پر 1947ء سے آج تک رہائش پذیر ہیں۔
اس میں لفظ مہاجر موجود تھا اور ایسا لگتا ہے کہ لفظ متحدہ پر کئی دن بحث ہوئی ہے۔ اس مباحثے میں کتنے دماغ سرگرداں رہے ہیں کچھ اندازہ نہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ قائد تحریک سمیت شہر کے سرگرداں دانشور احمد الطاف، ڈاکٹر اقبال مرحوم، رئیس امروہوی، اختر رضوی اور نیشنل عوامی پارٹی کا اردو داں طبقہ بھی اس میں شامل رہا ہے۔
جس نے اردو داں طلبا کی نشو ونما میں تربیت فرمائی اور استدلال پیش کیا کہ قوم کے لیے جتنے عناصر کی ضرورت ہے وہ سب موجود ہیں۔ مثلاً بول چال،یعنی زبان، علاقہ ثقافت، پوشاک، تہوار وغیرہ اسی لیے مرد و زن نے اپنی نمائش کی پتنگ کو عملی نشان جیسا کہ سل بٹہ مسالہ پیسنے کے لیے ہو بہ ہو پنجاب کے طرز پر ہے اور جھنڈ کے طرز اور رنگوں کے حساب سے چوڑیاں، لال، ہرے سفید کلر کی، لال مزدوروں کی رعایت، ہرا مسلمانوں کے توسط سے اور سفید اقلیت پر اعتبار سے مماثلت اور یکسانیت ہر مسئلے پر دلائل اور مباحثہ یوں ہی نہیں کہ راتوں رات جمع ہوئے اور بڑے زور و شور سے مخالفت میں پریس کانفرنس کی جا رہی ہے ۔
غرض زبردست ہوم ورک کے بعد ایم کیو ایم نام تجویز ہوا اور جب متحدہ قومی موومنٹ رکھا گیا کیوں کہ مسلم لیگ کو یہ نام پسند نہ تھا، جس میں لفظ مہاجر موجود ہو تو متحدہ اس لیے رکھا گیا کہ وہ ''م'' سے مہاجر اور ''م'' سے متحدہ دونوں کے جذبات و احساسات کو متوازن رکھتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہاجر قومی موومنٹ کی دو نسلیں اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے محروم ہو گئیں لیکن انھوں نے سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا تشخص منوا لیا اور سر عام خود مہاجر کہلوانے میں عار محسوس نہیں کرتے اور سیاسی طور پر MQM اپنی سیٹیں لینے میں پیش پیش ہے۔ مسلسل 26 سال سے شہری علاقوں میں اپنا لوہا منوا رکھا ہے۔
گو کہ آخر کے 25 سال میں زوال پذیری کی جانب ایم کیو ایم کا سفر رہا مگر مخالفین نے کچھ اس انداز سے معاملات کو حل کیا کہ گرتی ہوئی ساکھ نے سنبھالا لیا۔ اس میں کسی حد تک PTI اور دیگر پارٹیوں نے ایم کیو ایم کی گرتی ہوئی ساکھ نے معاملات کو بے حد خراب کیا کیونکہ بعض خود پسند عناصر ایم کیو ایم کو خراب کرنے پر تلے ہوئے تھے مثلاً چائنا کٹنگ وغیرہ، لیکن ایم کیو ایم کو پانچویں قومیت کا درجہ دینے میں کامیاب ہو گئے۔
یہاں تک کہ بعض کوتاہیوں کو بھی نظرانداز کرنے پر تیار ہو گئے جس کی وجہ سے پارٹی میں دراڑ پڑ گئی اور مصطفیٰ کمال اس کو لیڈ کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ مصطفیٰ کمال نے جس حصے کو لیڈ کیا وہ ایک حصہ ہی ہے۔ کوئی ٹھوس فکری حصہ نہیں ہے وہ ایم کیو ایم کا نچوڑ بالکل نہیں یہ پانچویں قومیت کا جز نہیں اور مہاجر فیکٹر سے اس کا تعلق نہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا مہاجر نا بھی اس میں موجود نہیں ہے۔
مصطفیٰ کمال نے جس پارٹی کو مہاجر فیکٹر کا متبادل قرار دیا وہ کسی طرح سے بھی ایم کیو ایم پر ڈنٹ لگانے میں کامیاب نہ ہو سکا کیونکہ فکری طور پر ڈنٹ تو دور کی بات یہ مہاجر فیکٹر کے پاس سے بھی نہ گزرا۔ اس سے یہ محسوس ہوا کہ پاک سرزمین پارٹی نے کوئی ہوم ورک نہ کیا بلکہ مسلم لیگ کی ایک اور قسم ہے۔
(ن) لیگ، (ق) لیگ اور دوسری لیگوں کا یہ شیئر (Share) کھائے گی اس کی راہ تو جدا ہی ہے لہٰذا راستے جدا جدا ہیں، ٹی وی پر بڑا شور تھا کہ یہ وکٹ گر گئی وہ وکٹ گر گئی۔ اس کا کسی وکٹ سے کوئی واسطہ نہیں، پاک سرزمین تو ایک ملک ہے جس میں مختلف نظام رکھنے والی پارٹیاں ہیں اور یہ پارٹی مہاجروں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی کیونکہ مہاجروں کو تو شکوہ ہی یہی تھا اور ہے کہ ان کو وہ مراعات حاصل نہیں ہیں جو وطن کے دیگر ساکنان کو حاصل ہیں۔ 70 برس گزر گئے مگر ابھی تک ان کو سن آف دی سوائل (Son Of the Soil) نہیں سمجھا جا رہا ہے دیہی اور شہری کے حقوق کی تقسیم جاری ہے۔
بھٹو صاحب نے یہ قدغن دس برسوں کے لیے لگائی تھی مگر اب یہ قدغن وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے اسی لیے وقت گزرنے کے ساتھ مہاجرین امام الہند ابوالکلام آزاد کی جامعہ مسجد دلی کا خطبہ بار بار دہراتے ہیں۔ یہی وہ عناصر ہیں جو زخم کو مندمل نہیں ہونے دیتے مہاجروں نے پیپلز پارٹی کو سب سے پہلے گلے لگایا۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے اس کو اپنا حصہ سمجھا، یہاں تک کہ پارٹی کے روس نواز دھڑوں نے بھی کسی حد تک اپنایا مگر مشرقی پاکستان کے مسئلے پر پارٹی کا موقف اور انسانوں کو مچھر مار طریقہ کا سلوک اور یحییٰ خان کا شرمناک طریقہ کار نے ملک کو دو لخت کر دیا۔ مشرقی پاکستان سے کراچی میں بہاریوں کی آمد نے پہلے بہاری قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی۔
آفاق شاہد، پروفیسر لئیق اعظم نے بہاری قومی موومنٹ اور پھر نیشنل عوامی پارٹی سے مل کر پارٹی کو فعال کیا۔ غرض 1986ء میں لسانی کشمکش سے گزرنے کے بعد شہر کو ایک زبردست معرکہ سے گزرنا پڑا، رفتہ رفتہ دراڑیں کم ہو گئیں اور کراچی سے اندرون سندھ تک یہاں تک کہ رانی پور اور بھریا روڈ جیسے دور افتادہ چھوٹے قصبے تک ایم کیو ایم پہنچ گئی، لہٰذا خیابان راحت میں بیٹھ کر اس خلا کو چند پریس کانفرنسوں سے پر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ ایم کیو ایم کی جانب سے بعض پہلو ایسے جن سے تشدد کو تقویت ملتی ہو ہونے سے مخالف قوتیں برسر اقتدار آئیں۔
رفتہ رفتہ ایم کیو ایم سے دانشوروں کی کمزوری نے معاملات کو کمزور کیا مگر ایسی خستہ وکٹیں جو ایک نہیں سیکڑوں ہوں فکری طور پر خلا پر نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ تمام وکٹیں خود ایم کیو ایم کے خون جگر سے آراستہ کی گئی ہیں ورنہ یہ خود کچھ نہیں خواہ وہ مصطفیٰ کمال ہو یا ان کے ساتھی کیوں کہ ماضی میں ان کی کارکردگی صفر رہی ہے اور نہ آج کوئی فکری محاذ سے ان کی پارٹی آراستہ ہے اور نہ آراستہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ پارٹی مہاجروں کے کسی کاز کو ایڈریس کر رہا ہے اور نہ محرومیوں کا ازالہ ہے۔
آپ کو تعجب ہو گا کہ 1947ء سے آج تک ایسے مہاجر موجود ہیں جو جٹ لائن اور رنچھوڑ لائن میں 40 گز کے مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کے لیے اس نئی پارٹی نے کیا کیا مستحسن اقدام اٹھایا؟ جہانگیر روڈ، مارٹن روڈ کے مکین آج بھی اپنے مالکانہ حقوق سے محروم ہیں، جٹ لائن کے مکین بھی ایسی ہی بے سروسامانی کے عالم میں 40 گز کے مکان میں عارضی طور پر 1947ء سے آج تک رہائش پذیر ہیں۔