ذرا غور فرمایئے

دہشت گردی کا عفریت دنیا بھر میں پھیلتا جا رہا ہے۔ وہ ممالک جو امن وسکون اور معاشرتی ہمواری کے لیے مثال تھے


نجمہ عالم March 31, 2016
[email protected]

دہشت گردی کا عفریت دنیا بھر میں پھیلتا جا رہا ہے۔ وہ ممالک جو امن وسکون اور معاشرتی ہمواری کے لیے مثال تھے، آج وہاں کا امن وسکون بھی غارت ہوچکا ہے۔ یکے بعد دیگرے کئی ممالک میں دہشت گردی کے بڑے واقعات نے ثابت کردیا ہے کہ انتہا پسندی اور جنونیت تقریباً ہر تہذیب اور ہر معاشرے کو درہم وبرہم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ہرعمل کا رد عمل ہوتا ہے، جیسا عمل ہوگا ردعمل بھی اسی کے مطابق سامنے آئے گا۔

مہذب، پرامن، اصول پرست معاشرے عموماً کسی منفی سرگرمی سے محفوظ رہتے ہیں، ایسے ممالک میں معاشرتی آزادی، ہر ایک کو ان کی مرضی سے جینے کا اختیار اورحقوق انسانی کی پاسداری کی جاتی ہے۔ حکومت اورعوام ایک دوسرے کے جینے کے حق کے قائل ہوتے ہیں اور یہی ہونا بھی چاہیے۔

مگر تاریخ عالم میں ماضی قریب کے چند ہی حقوق انسانی مساوات اور شخصی آزادی کا پول کھول دیتے ہیں، خاص کر ترقی پسند یافتہ جو عالمی طاقت کہلاتی ہیں، انھوں نے دوخوفناک اور تباہ کن عالمی جنگیں برپا کرکے مغرب ومشرق، چھوٹے بڑے، کمزور اور طاقتورکے تصورکو طشت ازبام کردیا۔اگر ان دوتباہ کن عالمی جنگوں کے پس منظر کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ سوال ہرذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا یہ ساری مساوات، حقوق انسانی، شخصی آزادی اورعلاقائی خود مختاری کے لیے لڑی گئی تھیں؟ ہرذی عقل کا جواب نفی میں ہوگا۔

اگر اتحادی اپنی برتری، توسیع پسندی اورطاقت کے گھمنڈ میں مبتلا نہ ہوتے تو انھیں دوسرے ممالک کے عوام کی فلاح، مساوات اور شخصی آزادی کا بھی احترام کرنا چاہیے تھا۔کیا ہیروشیما، ناگاساکی کے لوگ انسان نہ تھے؟ کیا وہ براہ راست جنگ میں ملوث تھے؟ کیا حکومتوں اور ممالک کی چپقلش اورنظریاتی تصادم کا عام انسان سے کوئی تعلق تھا؟ پھرکیوں طاقت کے گھمنڈ اور سائنسی برتری کا رعب دنیا پر ڈالنے کے لیے اور بڑے شہروں کو جہاں زندگی رواں دواں تھی ،چشم زدن میں صفحہ ہستی سے مٹایا گیا۔

کیا ان شہروں کے بوڑھے، شیرخوار بچے، اسپتالوں میں زیر علاج مریض کسی بھی قانون کی نظر میں مجرم تھے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنھوں نے کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا (محض عالمی جنگوں ہی میں نہیں ویتنام میں بھی) آج وہی حقوق انسانی کے سب سے بڑے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ کس ملک میں آمریت ہے، کہاں جمہوریت برائے نام یا دکھاؤے کی ہے۔

کون حکمراں اپنے عوام کے حقوق ادا نہیں کر رہا، وہ عالمی ٹھیکیدار بن کر ان ممالک میں اپنے من پسند سربراہ بٹھانے کے لیے وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجادیں، وہاں کے عوام کو ان کی محرومیوں، حقوق نہ ملنے، شخصی آزادی کے فقدان کا احساس دلانے کے لیے نت نئے انداز اختیارکیے جائیں اور پھر کسی بھی بہانے سے اپنے ناپسندیدہ حکمراں کے خلاف یا تو مختلف تحریکیں چلوائیں یا وہاں دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کریں۔

افغانستان، عراق، شام، لیبیا اس صورتحال کی واضح مثالیں ہیں۔ کیا ان ممالک کے حالات بیرونی مداخلت کے بعد پہلے سے بہتر ہوچکے ہیں؟ کیا صدام حسین،کرنل قذافی کے دور میں ان کے ممالک میں گلی گلی لاشیں پڑیں تھیں؟ تخریب کاریاں، بم دھماکے اسی قدر تھے؟کیا ان سب ممالک کے حالات اس قدر ناگفتہ بہ تھے جیسے آج ہیں،کیا وہاں امن و ترقی کا بول بالا ہوچکا ہے؟ پڑوسی ملک افغانستان میں کئی عشرے بیت گئے صورتحال معمول پر آکر ہی نہیں دے رہی، امن کے ٹھیکیدار مسلسل فرما رہے ہیں کہ مکمل امن قائم ہوچکا، مقامی لوگ (چاہے دہشت گرد ہی کہہ لیں) ان کے فوجیوں اور ان کے ٹھکانوں کوکیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟

عراق میں بش نے عراقیوں کو صدام سے نجات دلانے کا نیک کام بحسن وخوبی انجام دیا تو ان کی الوداعی تقریب میں صحافی منتظرزیدی نے ان کی مدارت جوتوں سے کیوں کی انھیں تو ہار پھول پہنا کر عزت واحترام کے ساتھ رخصت کرنا چاہیے تھا۔دنیا بھرکو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانے کے جنون میں مبتلا خود جب 9/11 کا شکار ہوتے ہیں تو ان تمام ممالک کو جو ترقی اورخود انحصاری کے لیے کوشاں تھے۔

ان کی ہمت وجرأت کا مزا چکھانے کے لیے ان کی تباہی کے منصوبوں کے ذریعے آدھی سے زیادہ دنیا کے امن وسکون کو برباد کردیا۔ترقی یافتہ ممالک خاص کر واحد سپر پاور نے دنیا کو اپنے زیرنگیں رکھنے کے لیے نفرت اوردہشت گردی کا جو بیج کل بویا تھا آج اس کا کڑوا پھل خود انھیں ہی کھانا پڑ رہا ہے تو واویلا مچا رہے ہیں۔ آج جب دہشت گردی کا رخ خود ان کی جانب ہوا تو چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کے وسائل پر قبضے کے لیے پیدا کردہ حالات کی منصوبہ بندی کرتے وقت کیوں نہ سوچا کہ آج نہیں توکل اس کا ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے؟

پاکستان جغرافیائی لحاظ اور قدرتی وسائل کے باعث آج دنیا کے لیے بے حد اہم خطہ ہے، خاص کر ان ممالک کے لیے جو قدرتی وسائل سے یا تو محروم ہیں یا ان کے ذخائر ان کی ضرورت سے کم ہیں وہ ہمارے وسائل پر قبضے کے لیے عدم استحکام کی فضا پیدا کررہے ہیں۔ اس سے قبل بھی ہم اپنے ایک کالم میں سیاسی جماعتوں کے فرائض پر اظہار خیال کرچکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کا منشور محض ان کے سیاسی نقطہ نظر پر مشتمل نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت کا اولین فرض ہے کہ وہ حب الوطنی، ملکی ترقی و تحفظ کے علاوہ، اہل وطن کی بہبود پر خصوصی توجہ دیں اور اپنے ساتھ چلنے والوں کو ریاست کا کارآمد شہری بنانے کو ترجیح دیں۔

مگر ملک میں عرصے سے سیاسی و مذہبی انتہا پسندی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جس پر ریاست نے بھی راست اقدام بہرحال نہیں کیے۔ ہر سیاسی جماعت دوسروں کی ٹانگ کھینچنے کو تمام تر خامیوں کا مجموعہ قرار کو ہی اصل سیاست سمجھتی ہے۔ بے حد معذرت کے ساتھ یہی رویہ مذہبی جماعتوں کا بھی ہے، ہرکوئی اپنے مسلک کو حتمی طور پر درست اور دوسرے مسلک کو غلط قرار دینے میں سرگرم ہے۔آج کی نسل پوچھتی ہے کہ کیا اسلام کے ابتدائی دورکی تاریخ ہمیں پڑھائی جاتی ہے وہ غلط ہے (مثلاً میثاق مدینہ وغیرہ) یا جو اس رواداری کا مظاہرہ مذہبی جماعتیں نہیں کرتیں وہ غلط ہیں؟ ہم دونوں کا جواب ''ہاں'' میں نہیں دے سکتے۔

اگر تاریخ غلط پڑھائی جا رہی ہے تو تاریخ حقائق کے منافی کے مرتکب ہوئے اور اگر مذہبی جماعتوں کی انتہا پسندی (مذہبی رواداری کے فقدان) پر ''ہاں'' کہیں تو لائق'' گردن زدنی قرار پائیں۔ کچھ عرصہ قبل تک مختلف مسالک کے درمیان رشتے داریاں قائم تھیں ہر دو مسلک کے ماننے والے ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات میں خوش دلی سے شریک ہوتے اور آپس میں بہترین تعلقات بھی قائم تھے۔

مگر آج جو مذہبی منافرت کا زہر معاشرے میں گھولا گیا ہے اس کے باعث آج اسلام دین سلامتی کے بجائے دین غارت گری (نعوذ باللہ) کے طور پر دنیا میں متعارف ہو رہا ہے۔ آج دن کے ہر غلط کام کو اسلام سے منسلک کرنا تذلیل انسانی کے ہر واقعے کا ذمے دار اسلام کو قرار دیا جانا عام بات ہوچکی ہے۔

لیکن ہمارے سیاسی و مذہبی قائدین کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ ذرا ذرا سے اختلاف پر ہنگامہ آرائی سے اپنے ملک کا نقصان کرنے کا مطلب خود اپنا نقصان کرنے کے مترادف ہے، ملک کا ماحول خراب کرنا، کچے ذہنوں کو آلودہ کرنا تعصب و تنگ دلی کی فضا پیدا کرکے اسلام کی بنیاد کو ہلاکر رکھ دینے کے علاوہ اور کیا ہے؟

دوزخی و جنتی قرار دینے کا اختیار انسان کے پاس کب سے آیا؟ کیا آخری فیصلے کا وقت مقرر نہیں ہے، کیا توبہ کے در کھلے ہوئے نہیں ہیں؟ اور فیصلہ قادر مطلق نے خود اپنے اختیار میں رکھا ہے پھر اگر ہم دنیا ہی میں یہ فیصلہ خود کرلیں گے تو یوم حساب پھر کون سا حساب ہوگا؟ اگر ہم صرف اور صرف اتنا ہی ذہن نشین کرلیں تو زندگی آسان اور ملک میں امن و امان قائم ہونے میں دیر نہ لگے گی انشاء اللہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں