مردانہ کرکٹ ٹیم میں لڑکیوں کی شمولیت
حالیہ ورلڈ ٹی ٹوینٹی میں بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم نے اپنے چار میں سے تین میچز میں شکست کھائی ہے
باخبر ذریعوں سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بیک چینل سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے رابطہ کیا ہے اور مردوں کی کرکٹ ٹیم میں تین چار خاتون کرکٹرز کو شامل کرنے کی اجازت دینے اور اس سلسلے میں آئی سی سی کے قوانین میں مطلوبہ تبدیلی لانے کی درخواست کی ہے۔
اس سے پہلے ٹی ٹوینٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا حشر دیکھ کر زنانہ کرکٹ ٹیم کی بعض کرکٹرز نے بورڈ کو اس آڑے وقت میں اپنی خدمات کی پیشکش کی تھی۔ اس وقت تک خواتین کی کرکٹ ٹیم اپنے Male کاؤنٹر پارٹس کے مقابلے میں بہترکھیل رہی تھی اور اس نے اپنے تمام میچز جیت لیے تھے۔
کرکٹ بورڈ کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ خواتین کی کرکٹ ٹیم کی طرف سے اس قسم کی پیشکش کی گئی ہے۔ یہ بات بھی بتائی کہ بورڈ کی طرف سے آئی سی سی سے رابطہ کیا گیا ہے اور مردوں کی کرکٹ ٹیم میں کم ازکم تین چار ویمن بیٹسمین Allow کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
آئی سی سی نے یقین دلایا ہے کہ کونسل کے اگلے اجلاس میں یہ تجویز رکھی جائے گی اور اگر ممبران نے اصولی طور پر اسے منظور کرلیا تو پھر اسی کے مطابق آئی سی سی کے قوانین میں بھی مناسب تبدیلیاں کی جائیں گی۔ یہ امید کی جا رہی ہے کہ آئی سی سی میں انگلستان اور آسٹریلیا کے نمایندوں کو جن کا کرکٹ کے اس اعلیٰ کنٹرولنگ ادارے پر غلبہ ہے مردوں کی ٹیم میں خواتین کی شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ حالیہ ورلڈ ٹی ٹوینٹی میں بدقسمتی سے پاکستانی ٹیم نے اپنے چار میں سے تین میچز میں شکست کھائی ہے جس پر اسے کرکٹ کے شایقین بلکہ پوری قوم کی طرف سے خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اتفاق سے ٹھیک ان ہی دنوں میں جب قومی کرکٹ ٹیم شکست پر شکست کھا رہی تھی ، خواتین کی کرکٹ ٹیم بھارت اور بنگلہ دیش جیسی ٹیموں کے خلاف شاندار فتوحات سے ہمکنار ہو رہی تھی۔پھر یہ بھی ہوا کہ قومی کرکٹ ٹیم کے وہی کھلاڑی جو کسی زمانے میں اپنے پرستاروں کے چہیتے ہوا کرتے تھے راتوں رات نظروں سے گر گئے۔
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں اور سوشل میڈیا میں ان پرتنقید ہونے لگی۔ اس کے برعکس خواتین کرکٹرز مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں اورکرکٹ کے اکثر شایقین قومی کرکٹ ٹیم کے بجائے خواتین کی ٹیم کے میچز دیکھنے لگے۔ قومی کرکٹ ٹیم کی عدم مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ سے لے کر کپتان، کوچ، سلیکٹرز اور کھلاڑی کوئی بھی ابھی تک نہ تو شکست کی ذمے داری قبول کرنے پر تیار ہے اور نہ اپنی سیٹ چھوڑنے پر۔
بلکہ کرکٹ بورڈ کے ایک ترجمان نے تو یہ تک کہہ دیا کہ پاکستان ورلڈ رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے ابھی تو مزید چار ناکامیوں کی گنجائش ہے اور یہ تو قومی کرکٹ ٹیم کی مہربانی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے خلاف جیت گئی ہے ورنہ قاعدے سے تو اسے یہ میچ بھی ہار جانا چاہیے تھا۔ پھر پاکستانی ٹیم کے ساتھ خاصی زیادتی اور ناانصافی بھی کی گئی ہے اسے ہر میچ میں کم اوور دیے گئے ہیں حالانکہ دونوں ٹیموں کے بیٹسمینوں کی رینکنگ کا فرق دیکھتے ہوئے پاکستانی ٹیم کو مخالف ٹیم کے مقابلے میں رن بنانے کے لیے دوگنے اوورز ملنے چاہیے تھے۔
مخالف بیٹسمینوں نے بھی امپائروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے بہت زیادہ زوردار اسٹروک کھیلے اور وہ اپنا کیچ تاک کے وہیں پھینکتے تھے جہاں پاکستانی فیلڈر کھڑا ہوتا تھا کیونکہ انھیں پتا تھا کہ بولنگ اور بیٹنگ کی طرح فیلڈنگ بھی پاکستانی کھلاڑیوں کی کمزوری ہے۔
کیا ایسا ممکن ہے؟
دریں اثناء کرکٹ کے بعض ماہرین نے مردوں کی ٹیم میں خواتین کی شمولیت کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے ان کے خیال میں آئی سی سی کے موجودہ قوانین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں اگر آئی سی سی کے تمام ارکان اتفاق کریں تو ایسی مکسڈ کرکٹ ٹیمیں بناکر جن میں آدھے مرد اور آدھی خواتین ہوں ان کا الگ سے ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ کرایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس خواب کے حقیقت بننے میں بھی ابھی کافی وقت لگے گا۔
ہاں جیسا کہ ایک کرکٹ ایکسپرٹ نے تجویز کیا ہے، فی الحال دو تین خواتین بیٹسمینوں کو بھیس بدل کر مردوں کے ساتھ کھلوایا جاسکتا ہے ایسی ویمن بیٹسمینوں کو مڈل آرڈر میں بھیجا جاسکتا ہے جب آنے جانے والوں کی لائن لگی ہوتی ہے اور اسی کنفیوژن اور بھگدڑ میں ہماری کوئی اچھی بیٹسمین جلدی سے جاکر اچھا اسکور کرکے واپس آسکتی ہے۔ اس کے لیے ایسے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں جو مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں خاص طور پر امپائروں کو ہپناٹائز کردیں اور وہ کچھ دیر کے لیے ایک لڑکے اور لڑکی میں تمیزکرنا بھول جائیں۔
ایک کرکٹ ایکسپرٹ نے ہمیں کانفیڈنس میں لیتے ہوئے ہمارے ذریعے موجودہ ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان کو یہ مشورہ دیا کہ وہ فوری طور پر کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت اپنی ٹیم کو پورا پکا رجسٹر کرالیں یعنی پیٹنٹ کروا لیں ورنہ جیسے ہی بااثر لوگوں کو پتا چلا کہ خواتین کی کرکٹ ٹیم بھی لائم لائٹ میں آگئی ہے ،کسی قابل ہوگئی اور بگ منی کی حق دار ہوگئی ہے وہ اس میں بھی سفارشی ''کھلاڑنیں'' لے آئیں گے اور اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو مردوں کی ٹیم کا ہوا ہے اور ''مردوں'' میں زبرکے بجائے پیش لگ گیا ہے۔
ادھر کرکٹرز کے ایک ترجمان نے میڈیا کو اس سارے فساد کا ذمے دار قرار دیا ہے، بقول ان کے ہم تو نجانے کتنے برسوں سے ہارتے آرہے ہیں۔کبھی کسی کوکوئی تکلیف نہیں ہوئی، ہمارے پرستار تو بے زبان جانوروں کی طرح ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ آپ ہاریں یا جیتیں آپ ہی ہمارے سرتاج رہیں گے بلکہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی سلیکٹروں نے آخر تک ہم سے یہ بات چھپائی کہ ہمیں میچ جیتنا ہے، وہ توکہتے تھے اچھا اور جلدی کھیلو اور واپس آجاؤ، بے شک ہار جاؤ، مگر مخالف ٹیم کا دل مت دکھاؤ، بلکہ ہارکر ان کے دل جیتو اور اپنے ملک کا نام بلند رکھو۔
ہم نے وہی کیا جو ہم سے کہا گیا تھا۔اس بار بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نہ کپتان نے ماہرین کے مطابق ٹیم کا ساتھ دیا اور نہ قسمت نے۔ کپتان شاہد آفریدی اہم میچوں میں پے درپے غلط فیصلے کرتے رہے جب کہ حفیظ جیسے تجربہ کار بیٹسمین اس وقت جب کہ ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی پراسرار انداز میں زخمی ہوگئے اب دیکھنا یہ ہے کہ جب ٹیم کی اگلی روانگی کا وقت آئے گا تو حفیظ اسی طرح انجرڈ رہیں گے یا اٹھ کر بیٹھ جائیں گے اور بالکل فٹ ہوجائیں گے۔
بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ فوری نوٹس لیتے ہوئے تبدیلیاں کی جائیں ضروری اقدامات کیے جائیں تاکہ کرکٹ کے شایقین کو اس بات کا یقین دلایا جاسکے کہ ان کے احساسات و جذبات کا احترام کیا گیا ہے حکومت نے واقعی قومی کرکٹ ٹیم کی انتہائی خراب کارکردگی کا نوٹس لیا ہے اور وہ محض کاسمیٹک اقدامات کے بجائے ٹھوس حقیقی اقدامات کا عزم رکھتی ہے تاکہ قومی کرکٹ ٹیم آیندہ بہترکارکردگی کا مظاہرہ کرسکے۔