باکمال لوگ بے مثال انٹری اور لاجواب سروس
جمہوریت کا حُسن اور آمریت کا جبر اپنی جگہ لیکن پاکستان میں مہاجر طبقے کے وجود کا جواز ہی پاکستان ہے۔
جمہوریت کا حُسن اور آمریت کا جبر اپنی جگہ لیکن پاکستان میں مہاجر طبقے کے وجود کا جواز ہی پاکستان ہے۔ چنانچہ 10 لاکھ جانوں کا نذرانہ دے کر جس نے پاکستان بنایا وہ پاکستان بگاڑ نہیں سکتا اور جس نے جانوں کا نذرانہ دے کر پاکستان بچانا ہے وہ پاکستان کے لٹنے یا ٹوٹنے کا تماشا دیکھ نہیں سکتا کیوں کہ ان کی بقا کا دار و مدار سب سے پہلے پاکستان پر ہے۔ مثلاً جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو مہاجر محصور پاکستانی ہوگئے ، اس کے علاوہ کسی ایک طبقے کا بھی بال بیکا نہ ہوا۔
سب سے زیادہ فائدہ مغربی پاکستان کی جاگیردار اشرافیہ کو ہوا کیوں کہ اگر 57 فی صد آبادی والے مشرقی پاکستان کے انتخاب میں مغربی پاکستان کے مقابلے میں دگنی سیٹیں حاصل کرنے والے عوامی لیگ کے رہنما مجیب الرحمن کو اخلاقی سیاسی اور جمہوری اصولوں کے مطابق پاکستان کا وزیراعظم بنادیا جاتا تو وہ کس کے خلاف بغاوت کرتا؟ کیا اپنی ہی حکومت کے خلاف؟ البتہ پہلی غداری یہ کرتے کہ مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان سے بھی جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کردیتا۔ چنانچہ مغربی پاکستان کی محب وطن اشرافیہ نے بنگالیوں کے سر غداری کا اشتعال انگیز الزام تھوپ کر ''ادھر ہم ادھر تم'' کی گائیڈ لائن دے کر بنگالیوں کے خلاف آپریشن سرچ لائٹ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کر کے اپنی جاگیروں کو کم از کم پچاس سال کے لیے محفوظ کرلیا۔
در اصل جب کراچی آپریشن کا افتتاح نائن زیرو پر چھاپے سے ہوا تو دودھ کی جلی ایم کیو ایم کی قیادت کو یقین ہوگیا کہ یہ 1992 کے ایکشن کا ری پلے ہے یعنی کراچی آپریشن کا میلہ صرف ایم کیو ایم کے کمبل (مینڈیٹ) کو چرانے کے لیے سجایا گیا ہے لیکن رفتہ رفتہ یکے بعد دیگرے جب دو بڑی پارٹیوں کے سربراہوں کو تشویش لاحق ہونے لگی تو متحدہ کے قائد کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انھوں نے معذرت خواہی میں دیر نہیں لگائی۔ 29 فروری 2016 کو ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے پریس کانفرنس میں فرمایا ''متحدہ کے قائد کی جانب سے خاص طور پر کل کے اجلاس میں جو بات کی گئی وہ یہ ہے کہ اگر میری تقریر سے کسی ادارے یا اس کے سربراہ یا کسی آفیسر کی دل آزاری ہوئی ہے تو معذرت خواہ ہوں۔ فاروق ستار نے مزید کہاکہ اس وقت کا واضح ہونا ضروری ہے اس لیے کم از کم قائد تحریک کے ان الفاظ کو میڈیا ہرجانے میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
سوال یہ ہے کہ جونہی ایم کیو ایم اور اداروں کے درمیان غلط فہمی رفع ہونے کا امکان پیدا ہوا، وہ کون سے عناصر ہیں جن کو خطرہ پیدا ہوا اور فوراً سے پیشتر باکمال لوگ، لاجواب سروس کو بے تاب ہوا کے گھوڑے پر سوار ''را'' کے راگ درباری البم والیم تھری کی تقریب رونمائی میں بے مثال انٹری دی اور فوراً متحدہ کے قائد پر ''را'' کے ایجنٹ ہونے کا الزام داغ دیا اور مہاجر قوم سے اظہار ہمدردی بھی کیا کہ بے چارے خواہ مخواہ شک کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان بنانے والے ''را'' کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں تو کیا قیام پاکستان ''را'' کا منصوبہ تھا یا سازش؟ مانا کہ اس وقت ''را'' نہیں تھی لیکن آج بھی پورے ملک میں منی پاکستان ہی سہی وہاں آباد ہے جہاں مہاجر بستے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے بغیر مہاجر رہ نہیں سکتا اور مہاجر کے بغیر پاکستان بن نہیں سکتا (چیلنج ہے) کیوں؟ انسان کا دل ملٹی اسٹوری نہیں ہوتا جس میں پاکستانیت کے ساتھ صوبائیت، لسانیت، فرقہ واریت وغیرہ مل جل کر رہ سکیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگانا پڑتا ہے اور یہ نعرہ وہی لگاسکتے ہیں جن کے آگے سمندر اور پیچھے جلی ہوئی کشتیوں کی راکھ اڑ رہی ہوتی ہے۔ کیا ہم ہی پاکستان کی وہ واحد قوم نہیں ہیں جس کو بھارت میں (الحمدﷲ) آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے؟ (ہم صرف ''را'' کے ایجنٹ تھوڑی ہیں)
چینی صدر کے دورۂ پاکستان کے دوران پاک چین اقتصادی راہداری کی ڈیل فائنل ہونے کے بعد پاکستان مشرقی بلاک (چین روس) کے حلقہ اثر میں آگیا۔ جو مزدور اور کسان دوست طاقتیں ہیں جب کہ مغربی بلاک (امریکی، برطانوی) کے حلقہ اثر سے نکل گیا جو جاگیرداروں، صنعت کاروں اور کرپٹ سیاست دانوں کا سرپرست تھا، جمہوری دور چل رہا ہے جانے والا گیا نہیں جارہا ہے اور آنے والا ابھی آیا نہیں بس آنے ہی والا ہے یہ بڑا خطرناک دور ہوتا ہے کیوں کہ یہ سازشیوں کو ہاتھ دکھانے کا آخری مواقع ہوتا ہے۔
اس وقت پاکستان پر حسب معمول جاگیردار اشرافیہ اور سرمایہ دار اشرافیہ کا راج ہے۔ چنانچہ (A) ایک طرف اقتصادی راہداری کے روٹ کو متنازعہ بنانے کا کھیل شروع ہوگیا ہے تاکہ اس کی تعمیر کو کالاباغ ڈیم جیسا سیاسی مسئلہ بنادیا جائے ۔ دوسری طرف (B) کراچی کے ٹھنڈے آتش فشاں کو بھونکے مار کر گرمانے کی کوشش شروع ہوگئی ہے تاکہ دمادم مست قلندر ہو۔ تاکہ قوم کو تھپایا جاسکے جس نے چین کو مطمئن کرنے کے لیے اقتصادی راہداری کی حفاظت قبول کی ہے۔ منصوبہ یہ لگتا ہے کہ جب بھی فوج کراچی میں آپھنسے، پاک بھارت مشرقی (طویل) بارڈر جہاں کافی عرصے سے عیارانہ، مکارانہ سناٹا طاری ہے بھارت کی طرف سے گھن گرج شروع ہوجائے تاکہ فوج کے لیے مسئلہ پیدا کیا جائے۔
اس وقت کراچی کے گنجان آباد علاقوں میں کالعدم جہادی تنظیموں، طالبان، القاعدہ، داعش، عسکریت پسند اپنی اپنی آرام گاہوں (سلیپنگ سیل) میں مناسب موقعے کے انتظار میں ہیں اس کے علاوہ مختلف مافیاز الگ ہیں، کراچی کے تعلق سے یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ جب تک متحدہ قائد الطاف حسین زندہ ہیں اگر فرشتہ بھی ان کے متبادل کے طور پر کراچی میں لایا جائے گا اس کو ایم کیو ایم کے کارکن قبول کریںگے نہ اس کے ووٹرز۔ اگر زبردستی کی گئی تو اس کے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔
آتش فشاں پھٹے گا، دمادم مست قلندر ہوگا، کالعدم تنظیمیں، مافیاز وغیرہ اپنا اپنا ایجنڈا پایہ تکمیل کو پہنچانے کے لیے میدان میں آجائیںگے اور یہی ایجنڈا امریکا، بھارت اور ان کے پاکستانی ساتھیوں کا ہے۔ تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر پہلے کٹھائی میں پڑ جائے پھر کالاباغ جیسا سیاسی مسئلہ بن جائے جب روٹ ہی طے نہیں ہوگی تو کس چیز کی حفاظت کی ذمے داری نبھائی جائے گی؟ اس کا صحیح سیدھا اور سادا صرف ایک ہی حل ہے کراچی میں عسکری ادارے اور مہاجر ہمیشہ کے لیے ایک پیج پر آجائیں۔