پاکستانی اقتصادی صورتحال بہتر ہوئی ایشیائی بینک

بجٹ خسارہ کم ہوا، بیرونی قرضوں کی ادائیگی مشکل نہیں، مالیات، توانائی کے شعبوں میں اصلاحات تیز کی جائیں، اسٹیٹ بینک


اقتصادی راہداری، علاقاتی تعاون سے ترقیاتی سرگرمیوں میں مدد ملے گی، رواں سال معاشی ترقی جاری رہے گی، گروتھ ریٹ 4.5 فیصد تک پہنچ سکتا ہے: اے ڈی بی کی رپورٹ ۔ فوٹو: فائل

ایشیائی ترقیاتی بینک نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے تحت جاری سرمایہ کاری اور علاقائی تعاون کے دیگر اقدامات سے پاکستانی ترقیاتی سرگرمیوں میں مدد ملے گی، پائیدار اقتصادی اصلاحات اور سیکیورٹی صورتحال میں بہتری سے تجارت اور سرمایہ کاری کو مزید فروغ ملے گا۔

گزشتہ روز جاری رپورٹ میں اے ڈی بی نے کہاکہ سال 2016 میں پاکستان کی معاشی ترقی جاری رہے گی جہاں اصلاحات اور مستحکم اقدامات کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، افراط زر میں کمی آئی، پٹرولیم قیمتوں میں کمی سے بھی مجموعی مائیکرو اکنامک صورتحال میں بہتری آئی۔

رپورٹ میں رواں مالی سال معاشی شرح نمو 4.5 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جو آئندہ مالی سال 4.8 فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ مالی سال 2015 میں یہ شرح 4.2 فیصد تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی ترقی میں معتدل اضافہ ہوا ہے جبکہ توانائی کی قلت جیسے مسائل تاحال درپیش ہیں، پاکستان کو مائیکرو اقتصادی استحکام اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر گامزن رہنے بالخصوص محصولات میں اضافے اور توانائی کے شعبے کی بہتری کی ضرورت ہے۔

خام مال کی قیمتوں میں کمی، بڑھتی ہوئی تعمیراتی سرگرمیاں اور کم شرح سود بھی معاشی ترقی کیلئے معاون ہے تاہم برآمدی منڈی میں کم طلب کے باعث ٹیکسٹائل کی پیدوار صرف1 فیصد بڑھی۔ درپیش بڑے چیلنجز میں ناکافی انفرااسٹرکچر اورکم سرمایہ کاری جیسے مسائل شامل ہیں، انسانی وسائل میں کم سرمایہ کاری سے ہنرمند افرادی قوت کی قلت کا مسئلہ بھی درپیش ہے، ملک کو ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی تیاری کیساتھ پیداوار میں اضافے کے ذریعے عالمی منڈیوں میں مقابلہ کرنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی بہتری کیلیے اصلاحات پر تیزی سے عمل کیا جائے تاکہ توانائی کی قلت کا مسئلہ حل، سرمایہ کاری میں اضافہ، مسابقتی تجارتی ماحول اور آزادانہ تجارت کو فروغ ملے۔ اقتصادی راہداری کے تحت سرمایہ کاری اور علاقائی تعاون کے دیگر اقدامات پاکستانی ترقیاتی سرگرمیوں میں معاونت کے حامل ہیں، پائیدار اقتصادی اصلاحات اور سیکیورٹی صورتحال میں بہتری سے تجارت اور سرمایہ کاری کو مزید فروغ ملے گا اور نجی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو گا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے عالمی سست روی کے ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے مالیات اور توانائی کے شعبوں میں درکار اصلاحات کے عمل کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مرکزی بینک نے مالی سال 2015-16کی دوسری سہ ماہی کیلیے معاشی جائزہ رپورٹ میں معاشی ترقی کی نمو کو زیادہ سے زیادہ پائیدار بنانے کے لیے پیداوار اور کاروباری لاگت میں کمی، توانائی کی فراہمی کیلئے وسیع البنیاد اور پائیدار سرمایہ کاری سمیت برآمدا ت کے فروغ کے لیے موثر صنعتی پالیسیوں کو ناگزیر قرار دیا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق دشوار عالمی معاشی حالات کے باوجود پاکستان کا مجموعی اقتصادی منظر نامہ مستحکم معلوم ہوتا ہے، مختلف رکاوٹوں کے باوجود اقتصادی شرح نمو میں تیزی آنے کا امکان ہے، مالیاتی صورتحال مستحکم ہے مہنگائی کے کم رہنے کا امکان ہے اور بیرونی شعبے کے خطرات بڑی حد تک کم ہوگئے ہیں۔ رواں مالی سال کے دوران 5.5 ارب ڈالر کے قرضوں کی واپسی مشکل نہیں ہے، مستحکم زرمبادلہ کے ذخائر کی بناء پر آئندہ 12ماہ کی متوقع ادائیگیوں سے دگنی رقم کی ادائیگی کی صلاحیت موجود ہے۔

بعض معاشی اظہاریوں میں بہتری کی عکاسی پست مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI)، زرِ مبادلہ کے مناسب ذخائر، مستحکم شرح مبادلہ ، برآمدات میں بہت کمی کے باوجود جاری کھاتے کے پست خسارے اور بہتر مالیاتی صورت ِ حال سے ہوتی ہے۔ یہ استحکام ستمبر 2015 میں پالیسی ریٹس کو تاریخ کی پست ترین سطح تک لے جانے کے اسٹیٹ بینک کے فیصلے کی بنیادی وجہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کا اثر براہِ راست مہنگائی پر محسوس کیا گیا جو اِس مدّت میںکم ہوکر صرف 2.5 فیصد رہ گئی۔ اگرچہ کم قیمتوں سے صارفین کو فائدہ ہوا ہے تاہم کاشت کاروں کی آمدنی پر بھی ان قیمتوں کا اثر پڑا ہے اور ان کے فصلیں اگانے کے فیصلے متاثر ہوئے۔

اس سیزن میں خاص طور پر کپاس کی پیداوار کم ہوئی تاہم گندم کی اچھی فصل کے امکانات کے باعث فصلوں کے شعبے کے نقصانات کم ہونگے۔ فی ایکڑ پیداوار میں بہتری آئی، مسلسل تیسرے سال شاندار فصل ہونے کی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ بلند ترقیاتی اخراجات نے حکومت کی مالیاتی استحکام کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا نہیں کی، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران مجموعی بجٹ خسارہ خاصا کم ہوکر جی ڈی پی کا 1.7 فیصد رہ گیا جو گزشتہ سال کے اس عرصہ میں2.4 فیصد تھا۔

حکومتی محاصل 14.6فیصد بڑھ گئے، مالیاتی خسارہ بھی کم ہوا۔ مجموعی جاری کھاتے کا خسارہ 1.4ارب ڈالر تک پہنچ گیا جو پچھلے سال کی اسی مدّت میں 2.5ارب ڈالر تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں