دروازوں کے اندر گھس آنے والے وحشی درندے
اس دھماکے کی ذمے داری پاکستانی طالبان سے الگ ہو جانے والے ایک گروپ ’جماعت الاحرار‘ نے قبول کی
KARACHI:
دھماکا خیز مواد جس میں بال بیرنگ، کیل، لوہے کے ٹکڑے وغیرہ شامل تھے اتوار 27 مارچ کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں اس وقت پھٹا جب سیکڑوں فیملیاں تفریح کے لیے وہاں جمع تھیں، 70 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے جن میں 29 بچے بھی شامل تھے جب کہ 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں بھی بچوں اور عورتوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بہت زیادہ تھی۔ اس روز ایسٹر کا تہوار بھی تھا' اسی لیے فیملیاں بھی تفریح کے لیے آئی ہوئی تھیں۔
اس دھماکے کی ذمے داری پاکستانی طالبان سے الگ ہو جانے والے ایک گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کی اور یہ دعویٰ کیا کہ انھوں نے ایسٹر کا تہوار منانے والے عیسائیوں کو نشانہ بنایا حالانکہ مرنے والوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ اس حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ اگر صوبائی حکام اس انتباہ کو نظر انداز نہ کرتے تو اس المیے کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ اس وحشیانہ قتل عام سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ جائے وقوعہ کی سیکیورٹی کے انتظامات مناسب نہیں تھے۔
اگرچہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی کے اس قسم کے واقعات میں نمایاں طور پر کمی واقع ہو چکی ہے تاہم حالیہ واقعے نے چند تشویشناک سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ ہم نے پنجاب میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کو ختم کرنے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ میں نے تین جنوری کو ''2016ء کے لیے عزم و استقلال'' کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو اپنے پچھواڑے میں بھی دہشت گردی کی جڑے کاٹنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
کیا ہائی پروفائل ٹرانسپورٹیشن منصوبوں کے لیے خرچ کیے جانے والے اربوں کھربوں روپوں میں سے تھوڑے سے سی سی ٹی وی کیمرے اور سیکیورٹی سے متعلقہ دیگر آلات کو نصب کرنے کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے تھے تا کہ عوام کو صحیح معنوں میں سیکیورٹی فراہم کی جا سکے؟ ادھر مذہبی تنظیموں کے حامیوں نے اسلام آباد میں جو ہنگامہ برپا کیا اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا، قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی، آخر وہ ریڈ زون میں کس طرح داخل ہو گئے؟
صورتحال کو بے قابو ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ فوج اور رینجرز کو حساس عمارتوں اور تنصیبات کی حفاظت کے لیے طلب کر لیا گیا تھا حالانکہ احتجاجی مظاہرین کو روکنا پولیس کا کام تھا۔ خوش قسمتی سے اس مسئلے کو قابو سے باہر ہونے سے روکدیا گیا۔ دوسری طرف لاہور کے المیے کے بعد بھی حکومت پنجاب میں آرمی اور رینجرز کو آزادانہ طور پر کارروائیاں کرنے کی اجازت دینے سے ہچکچا رہی ہے۔
پنجاب میں 60 سے زیادہ کالعدم جماعتوں کے گروپ سرگرم عمل ہیں لیکن صوبائی حکومت ان کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔ ان میں دہشت گرد گروپ بھی شامل ہو سکتے ہیں جب کہ پنجاب میں بااثر عناصر اپنے انتخابی حلقوں میں کامیابی کے لیے ان گروپوں کی مدد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو ڈر ہے کہ عسکریت پسند گروپوں کے خلاف آپریشن کرنے سے ان کی حکومت کے عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ حکومت بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ کی گرفتاری پر کوئی بات نہیں کر رہی۔
کلبھوشن یادو نامی اس ایجنٹ کو بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول براۂ راست ہدایات جاری کرتے تھے۔ اس ایجنٹ کے بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ وسیع رابطے تھے اور جس کا بنیادی کام پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے منصوبے (سی پی ای سی) کو ناکام بنانا تھا جب کہ گوادر کی بندرگاہ کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیاں اور بلوچستان اور کراچی میں تخریب کاری کے منصوبے بھی اس کی کارروائیوں کا حصہ تھے۔ اس بات کی تصدیق کے باوجود کہ یادو بھارتی بحریہ کا ایک حاضر سروس آفیسر ہے (جس نے 2022ء میں ریٹائر ہونا ہے) بھارتی دفتر خارجہ نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک ریٹائرڈ افسر ہے جو ذاتی کاروبار کر رہا ہے۔
یادو کی نشاندہی پر اس کے 13 مزید ساتھی گرفتار کر لیے گئے جو دہشت گردی کی وارداتوں اور فرقہ وارانہ تصادم وغیرہ میں ملوث تھے۔ یادو کی اعلیٰ حیثیت نے پاکستان میں را کی سرگرمیوں اور مداخلت کا واضح اور ٹھوس ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ بھارت پاکستان پر مسلسل یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز بھارت میں کارروائیاں کرتے ہیں جب کہ بھارت کا اتنا سینئر افسر بھارتی وزیراعظم کی رضا مندی کے بغیر پاکستان میں کارروائیوں کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا تھا۔ گویا اس سے ثابت ہوا کہ یادو نان سٹیٹ نہیں بلکہ خالصتاً ''سٹیٹ ایکٹر'' ہے۔
1967ء میں امریکی ایف بی آئی نے کالعدم سوویت یونین کے لیفٹیننٹ کرنل آبل (Abel) کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ پاکستان میں یادو کی گرفتاری ایسے ہائی پروفائل افسر کی گرفتاری ہے جو کسی ملک میں روسی جاسوس کے تقریباً 60 سال بعد گرفتار کیا گیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر ممکنہ فورم پر پوری شدت کے ساتھ یادو کے مسئلے کو مکمل شہادتوں کے ساتھ اجاگر کریں تا کہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ بھارت دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کھلی سازشیں کر رہا ہے۔
2014ء میں میرا ایک آرٹیکل ''آرمی کی گرین بک'' میں شایع ہوا تھا جس کا عنوان تھا ''جمہوری طریقے سے قومی سلامتی کا حصول'' اس آرٹیکل میں میں نے لکھا تھا کہ پاکستان جس صورت حال میں ہے، اس میں اس کی سیکیورٹی کو ریاست کی کمزوری، بری حکمرانی، بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بہت سے دیگر مسائل کی وجہ سے خطرہ ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ جمہوریت کو زمینی حقائق کی روشنی میں تقویت دے کر ملک کی حکمرانی بہتر کی جائے اور قانون کی حکمرانی قائم کی جائے تا کہ ریاست کے تمام ادارے مؤثر انداز میں کام کر سکیں۔
بالخصوص حکومت اور ملٹری کو باہمی طور پر زیادہ مؤثر انداز میں تعاون کرنا چاہیے کہ قومی سلامتی کا تصور مؤثر انداز میں نافذ العمل کیا جا سکے، آرمی کو نگرانی اور توازن کے میکنزم کو زیادہ مؤثر بنانا چاہیے تا کہ درست اور غلط کی پہچان واضح ہو سکے اور یہ ذمے داری نبھانے والے خود غلطیوں کا ارتکاب نہ کریں۔''
چند ماہ قبل کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے کہا تھا کہ ہم بہت مشکل وقت میں رہ رہے ہیں جس میں ہماری ناکامی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ ہمیں بڑے فیصلہ کن انداز کے ساتھ اپنی سیاست کو بامعنی اور بامقصد بنانا ہو گا تا کہ ہمارا ماحول مستحکم ہو سکے۔ ہمیں ڈر خوف انتہا پسندی اور عسکریت پسندی سے نجات مل سکے تا کہ استحکام کے ساتھ ریاست کی رٹ اور قانون کی حکمرانی قائم کر سکیں۔ انھوں نے واضح پیغام دیا کہ جو بھی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے اس کا سختی سے احتساب کیا جانا چاہیے۔
75 معصوم افراد کی ہلاکتوں نے آرمی کو پنجاب میں کارروائی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بڑی تعداد میں مشتبہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ابتدائی طور پر پانچ چھاپہ مار کارروائیوں میں گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ ان میں را کے دو ایجنٹ بھی شامل ہیں جن کی نشاندہی یادو نے کی ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے تا کہ دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ رینجرز اور پیرا ملٹری فورسز کو اسی طرح اختیار دیے جانے چاہئیں جس طرح دو سال پہلے کراچی میں دیے گئے تھے تا کہ جو ہمارے دروازوں کے اندر گھس کر دہشتگردی کی وارداتیں کر رہے ہیں ان کا مکمل طور پر قلع قمع کیا جا سکے۔ یہ ابھی ہی ہو سکتا ہے ورنہ کبھی نہیں ہو سکے گا۔
دھماکا خیز مواد جس میں بال بیرنگ، کیل، لوہے کے ٹکڑے وغیرہ شامل تھے اتوار 27 مارچ کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں اس وقت پھٹا جب سیکڑوں فیملیاں تفریح کے لیے وہاں جمع تھیں، 70 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے جن میں 29 بچے بھی شامل تھے جب کہ 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں بھی بچوں اور عورتوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بہت زیادہ تھی۔ اس روز ایسٹر کا تہوار بھی تھا' اسی لیے فیملیاں بھی تفریح کے لیے آئی ہوئی تھیں۔
اس دھماکے کی ذمے داری پاکستانی طالبان سے الگ ہو جانے والے ایک گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کی اور یہ دعویٰ کیا کہ انھوں نے ایسٹر کا تہوار منانے والے عیسائیوں کو نشانہ بنایا حالانکہ مرنے والوں میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی تھی۔ اس حوالے سے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ اگر صوبائی حکام اس انتباہ کو نظر انداز نہ کرتے تو اس المیے کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ اس وحشیانہ قتل عام سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ جائے وقوعہ کی سیکیورٹی کے انتظامات مناسب نہیں تھے۔
اگرچہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گردی کے اس قسم کے واقعات میں نمایاں طور پر کمی واقع ہو چکی ہے تاہم حالیہ واقعے نے چند تشویشناک سوالات کھڑے کر دیے ہیں کیونکہ ہم نے پنجاب میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کو ختم کرنے کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ میں نے تین جنوری کو ''2016ء کے لیے عزم و استقلال'' کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو اپنے پچھواڑے میں بھی دہشت گردی کی جڑے کاٹنے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔
کیا ہائی پروفائل ٹرانسپورٹیشن منصوبوں کے لیے خرچ کیے جانے والے اربوں کھربوں روپوں میں سے تھوڑے سے سی سی ٹی وی کیمرے اور سیکیورٹی سے متعلقہ دیگر آلات کو نصب کرنے کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے تھے تا کہ عوام کو صحیح معنوں میں سیکیورٹی فراہم کی جا سکے؟ ادھر مذہبی تنظیموں کے حامیوں نے اسلام آباد میں جو ہنگامہ برپا کیا اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا، قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی، آخر وہ ریڈ زون میں کس طرح داخل ہو گئے؟
صورتحال کو بے قابو ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔ فوج اور رینجرز کو حساس عمارتوں اور تنصیبات کی حفاظت کے لیے طلب کر لیا گیا تھا حالانکہ احتجاجی مظاہرین کو روکنا پولیس کا کام تھا۔ خوش قسمتی سے اس مسئلے کو قابو سے باہر ہونے سے روکدیا گیا۔ دوسری طرف لاہور کے المیے کے بعد بھی حکومت پنجاب میں آرمی اور رینجرز کو آزادانہ طور پر کارروائیاں کرنے کی اجازت دینے سے ہچکچا رہی ہے۔
پنجاب میں 60 سے زیادہ کالعدم جماعتوں کے گروپ سرگرم عمل ہیں لیکن صوبائی حکومت ان کے خلاف مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام ہے۔ ان میں دہشت گرد گروپ بھی شامل ہو سکتے ہیں جب کہ پنجاب میں بااثر عناصر اپنے انتخابی حلقوں میں کامیابی کے لیے ان گروپوں کی مدد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ صوبائی حکومت کو ڈر ہے کہ عسکریت پسند گروپوں کے خلاف آپریشن کرنے سے ان کی حکومت کے عدم استحکام کا شکار ہو سکتی ہے۔ یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ حکومت بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ''را'' کے ایجنٹ کی گرفتاری پر کوئی بات نہیں کر رہی۔
کلبھوشن یادو نامی اس ایجنٹ کو بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول براۂ راست ہدایات جاری کرتے تھے۔ اس ایجنٹ کے بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کے ساتھ وسیع رابطے تھے اور جس کا بنیادی کام پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے منصوبے (سی پی ای سی) کو ناکام بنانا تھا جب کہ گوادر کی بندرگاہ کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیاں اور بلوچستان اور کراچی میں تخریب کاری کے منصوبے بھی اس کی کارروائیوں کا حصہ تھے۔ اس بات کی تصدیق کے باوجود کہ یادو بھارتی بحریہ کا ایک حاضر سروس آفیسر ہے (جس نے 2022ء میں ریٹائر ہونا ہے) بھارتی دفتر خارجہ نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ایک ریٹائرڈ افسر ہے جو ذاتی کاروبار کر رہا ہے۔
یادو کی نشاندہی پر اس کے 13 مزید ساتھی گرفتار کر لیے گئے جو دہشت گردی کی وارداتوں اور فرقہ وارانہ تصادم وغیرہ میں ملوث تھے۔ یادو کی اعلیٰ حیثیت نے پاکستان میں را کی سرگرمیوں اور مداخلت کا واضح اور ٹھوس ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ بھارت پاکستان پر مسلسل یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز بھارت میں کارروائیاں کرتے ہیں جب کہ بھارت کا اتنا سینئر افسر بھارتی وزیراعظم کی رضا مندی کے بغیر پاکستان میں کارروائیوں کے لیے نہیں بھیجا جا سکتا تھا۔ گویا اس سے ثابت ہوا کہ یادو نان سٹیٹ نہیں بلکہ خالصتاً ''سٹیٹ ایکٹر'' ہے۔
1967ء میں امریکی ایف بی آئی نے کالعدم سوویت یونین کے لیفٹیننٹ کرنل آبل (Abel) کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ پاکستان میں یادو کی گرفتاری ایسے ہائی پروفائل افسر کی گرفتاری ہے جو کسی ملک میں روسی جاسوس کے تقریباً 60 سال بعد گرفتار کیا گیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر ممکنہ فورم پر پوری شدت کے ساتھ یادو کے مسئلے کو مکمل شہادتوں کے ساتھ اجاگر کریں تا کہ دنیا کو پتہ چل سکے کہ بھارت دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کھلی سازشیں کر رہا ہے۔
2014ء میں میرا ایک آرٹیکل ''آرمی کی گرین بک'' میں شایع ہوا تھا جس کا عنوان تھا ''جمہوری طریقے سے قومی سلامتی کا حصول'' اس آرٹیکل میں میں نے لکھا تھا کہ پاکستان جس صورت حال میں ہے، اس میں اس کی سیکیورٹی کو ریاست کی کمزوری، بری حکمرانی، بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور بہت سے دیگر مسائل کی وجہ سے خطرہ ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ جمہوریت کو زمینی حقائق کی روشنی میں تقویت دے کر ملک کی حکمرانی بہتر کی جائے اور قانون کی حکمرانی قائم کی جائے تا کہ ریاست کے تمام ادارے مؤثر انداز میں کام کر سکیں۔
بالخصوص حکومت اور ملٹری کو باہمی طور پر زیادہ مؤثر انداز میں تعاون کرنا چاہیے کہ قومی سلامتی کا تصور مؤثر انداز میں نافذ العمل کیا جا سکے، آرمی کو نگرانی اور توازن کے میکنزم کو زیادہ مؤثر بنانا چاہیے تا کہ درست اور غلط کی پہچان واضح ہو سکے اور یہ ذمے داری نبھانے والے خود غلطیوں کا ارتکاب نہ کریں۔''
چند ماہ قبل کراچی کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے کہا تھا کہ ہم بہت مشکل وقت میں رہ رہے ہیں جس میں ہماری ناکامی کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہو سکتی۔ ہمیں بڑے فیصلہ کن انداز کے ساتھ اپنی سیاست کو بامعنی اور بامقصد بنانا ہو گا تا کہ ہمارا ماحول مستحکم ہو سکے۔ ہمیں ڈر خوف انتہا پسندی اور عسکریت پسندی سے نجات مل سکے تا کہ استحکام کے ساتھ ریاست کی رٹ اور قانون کی حکمرانی قائم کر سکیں۔ انھوں نے واضح پیغام دیا کہ جو بھی اپنی ذمے داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے اس کا سختی سے احتساب کیا جانا چاہیے۔
75 معصوم افراد کی ہلاکتوں نے آرمی کو پنجاب میں کارروائی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بڑی تعداد میں مشتبہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ابتدائی طور پر پانچ چھاپہ مار کارروائیوں میں گرفتار کر لیا گیا ہے جب کہ لاہور، فیصل آباد اور ملتان میں آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ ان میں را کے دو ایجنٹ بھی شامل ہیں جن کی نشاندہی یادو نے کی ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تسلسل کے ساتھ جاری رہنا چاہیے تا کہ دہشت گردی کے عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ رینجرز اور پیرا ملٹری فورسز کو اسی طرح اختیار دیے جانے چاہئیں جس طرح دو سال پہلے کراچی میں دیے گئے تھے تا کہ جو ہمارے دروازوں کے اندر گھس کر دہشتگردی کی وارداتیں کر رہے ہیں ان کا مکمل طور پر قلع قمع کیا جا سکے۔ یہ ابھی ہی ہو سکتا ہے ورنہ کبھی نہیں ہو سکے گا۔