اداکارہ صبیحہ خانم فلمی دنیا کا فخر

اس دور میں اداکارہ شمیم، سورن لتا، شمی اور مینا شوری بھی میدان میں تھیں۔


یونس ہمدم April 01, 2016
[email protected]

صبیحہ خانم 1935ء میں پنجاب کے شہرگجرات کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی، اس کے والد محمد علی ماہیا نے بھی اس کی ماں سے محبت کی شادی کی تھی اور ان دونوں کی محبت کے بھی گجرات میں بڑے چرچے رہے تھے۔ صبیحہ کو بھی بچپن ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور اس کے اندر فن کا ایک جوالہ مکھی چھپا ہوا تھا وہ دور فلمی دنیا کا بڑا ہی ابتدائی اور نامساعد حالات کا دور تھا۔

اس دور میں فلمسازوہدایت کار سبطین فضلی، قدیرغوری، ڈبلیو زیڈ احمد، ہدایت کار مسعود پرویز اور مصنف، فلمسازوہدایت کار انورکمال پاشا کی محنتیں تھیں جو لاہورکی فلم انڈسٹری کو سنوارنے اور نکھارنے کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ انورکمال پاشا اس دور میں سب سے زیادہ فعال ہدایت کار تھے اور انھی کی ایک فلم میں صبیحہ نے پہلی بار ایک چھوٹی بچی کی حیثیت سے کام کیا تھا اور پھر انور کمال پاشا ہی نے صبیحہ کو اپنی فلم ''دو آنسو'' میں پہلی بار ہیروئن کاسٹ کیا تھا میں یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ صبیحہ کی فنی زندگی کا آغاز ''دو آنسو'' سے پہلے تھیٹر کی زندگی سے ہوا تھا اور صبیحہ جب اس کا نام مختار بیگم تھا۔

اس نے سب سے پہلے لاہورمیں ایک اسٹیج ڈرامہ ''بت شکن'' میں کام کیا تھا پھر انورکمال پاشا کی فلم ''دو آنسو'' میں یہ صبیحہ خانم کے نام سے منظر عام پر آئی۔ فلم '' دو آنسو'' ایک واجبی سی فلم تھی مگر انور کمال پاشا کی ہی فلم ''گمنام'' میں صبیحہ کی کردار نگاری نے فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا اور ''گمنام'' نے باکس آفس پر بڑی نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس دور میں میڈم نور جہاں بطور اداکارہ بھی فلم ''دوپٹہ'' سے لے کر''انتظار'' اور فلم ''نیند'' تک ایک کامیاب گلوکارہ کے ساتھ ساتھ ایک مقبول اداکارہ کی حیثیت سے بھی اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی تھیں۔

اس دور میں اداکارہ شمیم، سورن لتا، شمی اور مینا شوری بھی میدان میں تھیں مگر اب صبیحہ خانم نے ''گمنام'' کی نمایاں ترین کامیابی کے بعد انور کمال پاشا ہی کی فلم ''سرفروش'' میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور ''سرفروش'' نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے تو پھر ہر طرف اداکارہ صبیحہ خانم کی جے جے کار ہونے لگی تھی، اس کے بعد صبیحہ خانم پر فلموں کی برسات شروع ہوگئی تھی اور یکے بعد دیگرے صبیحہ خانم کی فنکارانہ صلاحیتوں سے بھرپور بہترین فلموں سات لاکھ، چھوٹی بیگم، ناجی، حسرت، دامن، سوال، وعدہ، ایاز، عشق لیلیٰ اور اک گناہ اور سہی نے ہر طرف دھوم مچا دی تھی اور یہی وہ دور تھا جب اس وقت کا نامور ہیرو سنتوش کمار اداکارہ صبیحہ خانم کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا حالانکہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا مگر صبیحہ کی قربت، فن اور اس کے حسن نے سنتوش کو اس کا گرویدہ کردیا تھا۔

پھر ان دونوں کی محبت بھی آخر رنگ لائی اور صبیحہ خانم نے سنتوش کمار کی دوسری بیوی بن کر زندگی بھرکے لیے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا اور پھر وہ ہر طرح سے اس کی پہلی بیوی کو عزت بھی دیتی رہی۔ اس سے بھی وہ محبت کرتی رہی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سنتوش کمار کی پہلی بیوی نے بھی صبیحہ کو خوب اپنا بنالیا تھا۔

صبیحہ نے سنتوش کمار کے ساتھ بے شمار اردو فلموں کے علاوہ بہت سی پنجابی فلموں میں بھی کام کیا۔ اردو اور پنجابی فلمیں بھی اردو فلموں کی طرح سپرہٹ ہوتی چلی گئیں مگر میں یہاں صبیحہ خانم کی ایک ایسی پنجابی فلم کا ضرور تذکرہ کروں گا جو اس دور کے ایک مشہور ایکشن ہیرو سدھیر کے ساتھ اس نے کی تھی۔ اوراس فلم کا نام تھا ''دلّا بھٹی'' یہ بھی اس دور کی ایک سپر ڈپر ہٹ فلم تھی۔ جس میں صبیحہ کی جاندار اداکاری نے لاکھوں دلوں پر دستک دی تھی اور خاص طور پر اس فلم میں ایک گیت اس پر عکس بند کیا گیا تھا، جس کے بول تھے:

واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا
چٹھی میرے ڈھول نوں پہنچاویں وے کبوترا

وہ کیا خوبصورت گیت تھا، کیا موسیقی تھی اورکیا آواز تھی، گلوکارہ منور سلطانہ نے بھی لوگوں کے دل کشید کرلیے تھے۔ اس گیت کی موسیقی اس دورکے مشہور موسیقار جی۔اے۔چشتی نے مرتب کی تھی۔ جو پنجابی فلموں کے ہاٹ کیک کمپوزر تھے۔ مذکورہ گیت ان دنوں گلی گلی گایا جاتا تھا اور اس زمانے میں بیشتر شہروں اور گاؤں کے کچے پکے مکانوں کی چھتوں پر کبوتروں کے پیروں میں چٹھیاں باندھ کر اڑنے کی ریت پڑ گئی تھی۔ جب بات نکلی ہے صبیحہ کی پنجابی فلموں کی تو اس کی ایک اور پنجابی فلم بھی اداکار سنتوش کمار کے ساتھ بڑی مشہور ہوئی تھی۔ وہ فلم تھی ''مکھڑا'' اس میں صبیحہ کے ساتھ سنتوش نے بھی کام کیا تھا اور دونوں نے ایک خوبصورت گیت گایا تھا جس میں صبیحہ خانم کی اداکاری بڑی انمول تھی اور اس گیت کے بول تھے۔

دِلا ٹھہر جا یار دا نظارہ لین دے
کوئی جاندی واری سجناں نوں گل کہن دے... دِلا ٹھہر جا...!

اور اس گیت کو اٹھانے میں زبیدہ خانم کی آواز نے بھی بڑا غضب ڈھایا تھا۔ اب میں صبیحہ خانم پر عکس بند کیے گئے چند ایسے گیتوں کا تذکرہ کروں گا، جو لازوال گیتوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ جن میں چند گیتوں کے مکھڑے ذیل میں درج کر رہا ہوں:

فلم ''سات لاکھ'' کا گیت۔

گھونگھٹ اٹھا لوں کہ گھونگھٹ نکالوں
سیّاں جی کا کہنا میں مانوں کہ ٹالوں

فلم ''گمنام'' کا گیت۔

تُو لاکھ چلے ری گوری تھم تھم کے
پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے

فلم ''دامن'' کا گیت۔

نہ چھڑا سکوکے دامن نہ نظر بچا سکو گے
جو میں دل کی بات کہہ دوں توکہیں نہ جاسکوگے

فلم ''سوال'' کا گیت۔

لٹ الجھی سلجھا جا رے بالم
میں نہ لگاؤں گی ہاتھ رے

فلم ''چھوٹی بیگم'' کا گیت۔

او مینا نہ جانے کیا ہوگیا میرا دل کھو گیا

فلم ''ایاز'' کا گیت۔

رقص میں ہے سارا جہاں
فلم ''عشقِ لیلیٰ'' کا گیت۔

چاند تکے چھپ چھپ کے اونچی کھجور سے

اور ان گیتوں میں صبیحہ خانم بحیثیت ایک اداکارہ عروج کی بلندیوں پر نظر آتی ہے۔ صبیحہ خانم کو فلم '' اک گناہ اور سہی'' میں تاشقند فلم فیسٹیول میں بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا تھا اور 1987ء میں حکومت کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا تھا۔

اداکارہ صبیحہ خانم نے بطورگلوکارہ بھی ٹیلی ویژن سے اپنا رشتہ جوڑا تھا اور موسیقی کے کئی پروگرام کیے تھے اس دور میں صبیحہ خانم کا گایا ہوا ایک قومی گیت بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے: ''جُگ جُگ جیے میرا پیارا وطن'' وطن ہی کی محبت تھی جو اسے کئی بار پاکستان لے کر آئی، مگر وطن میں اس کو وہ عزت اور وہ ماحول وہ حالات میسر نہ آسکے جس کی یہ حقدار تھی یہی وجہ تھی کہ صبیحہ نے بیرون ملک ہی رہنا مناسب سمجھا۔

صبیحہ خانم نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اپنے شوہر سنتوش کمار کے انتقال کے بعد اس کی زندگی میں بے سکونی آگئی تھی اور وہ خود کو تنہا تنہا اور اکیلی محسوس کرنے لگی تھی مگر جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ امریکا چلی گئی تو اس کی زندگی میں قرار آیا تھا۔ اس نے گفتگو کے دوران یہ بھی کہا تھا کہ اسے اس بات کی خوشی ہے کہ اب اس کے بچے بیرون ملک اچھی طرح Settle ہوگئے ہیں اور اب اس کی زندگی میں بھی کچھ ٹھہراؤ سا آگیا ہے۔ صبیحہ خانم نے ایک بہت اچھی زندگی گزاری ہے اور اپنے دور کی وہ انتہائی کامیاب ترین اداکارہ رہی ہے۔ اس کی فلموں کو جتنی پذیرائی ملی وہ بہت کم اداکاراؤں کے حصے میں آئی ہے۔

صبیحہ خانم کے بارے میں ایک بات اور مشہور تھی کہ جس طرح انڈین فلم انڈسٹری کی نامور اداکارہ مدھو بالا کی آنکھیں بولتی تھیں اسی طرح صبیحہ خانم کی ملکوتی مسکراہٹ اور آنکھوں کا سحر بھی اپنی مثال آپ تھا۔ صبیحہ خانم کو سلور اسکرین کی گولڈن گرل بھی کہا جاتا تھا۔ صبیحہ خانم نے زندگی کی دھوپ چھاؤں کو بڑے قریب سے محسوس کیا ہے مگر اس نے کبھی زندگی کے بارے میں کوئی شکوہ نہیں کیا۔ ہاں ایک بار صبیحہ خانم نے یہ شکایت ضرور کی تھی کہ جس طرح ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں اپنے سینئرز آرٹسٹوں کی عزت کی جاتی ہے پاکستان میں اپنے آرٹسٹوں کو وہ عزت نہیں دی جاتی اور میرے خیال میں پاکستان میں فلم انڈسٹری کے زوال کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں