آٹو موبائل انڈسٹری

آٹو موبائل انڈسٹری کی پاکستان میں ترقی کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔


ایم آئی خلیل April 01, 2016
[email protected]

SUKKUR: آٹو موبائل انڈسٹری کی پاکستان میں ترقی کے وسیع تر امکانات موجود ہیں۔ اس سے قبل 2007 سے 2012 تک کے لیے آٹو موبائل انڈسٹری کے لیے پالیسی کا اعلان کیا گیا تھا۔ آٹو موبائل انڈسٹری میں موٹرکار، لائٹ کمرشل وہیکلز، جیپ، ٹریکٹر، بس، ٹرک وغیرہ شامل ہیں۔ ملک کو لانگ ٹرم آٹو موبائل انڈسٹری کی پالیسی کی ضرورت تھی۔

گزشتہ دنوں آٹو موبائل انڈسٹری کے لیے نئی پالیسی کا اعلان کردیا گیا ہے، جس سے توقع کی جا رہی ہے کہ آٹو کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا۔ جس سے روزگار کے وسیع مواقعے پیدا ہوں گے۔اقتصادی راہداری کے سبب چین کی طرف سے 46 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے مثبت اثرات کے باعث آٹو انڈسٹری کو بھی پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ 2016 سے 2020 تک آٹو شعبے کا اگلا ہدف 5 لاکھ یونٹس سالانہ تک کا ہوگا، جب کہ اس وقت اس ہدف کا نصف پیداوار حاصل کیا جا رہا ہے۔ جس میں جلد ہی بڑی تیزی سے اضافہ ہوگا۔

اگر معاشی ترقی میں اضافہ ہوتا رہا اور ملک پر قرضوں کے بوجھ کے باعث آئی ایم ایف کی جانب سے پابندیوں کا سلسلہ دراز نہ ہوا اورعالمی منڈی کے تناسب سے پٹرول کی قیمت میں کمی کی جاتی رہی۔ نیز اس وقت ایل این جی کی درآمد بھی ہورہی ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں گیس کی قیمت میں بھی کمی ہو رہی ہے جب کہ پاکستان میں اضافہ کیا جا رہا ہے لیکن ایل این جی کو مدنظر رکھتے ہوئے گیس کی قیمت میں کمی واقع ہوئی تو ایسی صورت میں ملک بھر میں گاڑیوں، بسوں، کاروں، موٹرسائیکلوں اور ٹریکٹروں کی طلب میں اضافہ ہوجائے گا۔

چند سال قبل تک طلب میں اضافہ نہ ہونے کے باعث پیداوار بھی کم رہی تھی۔ حالانکہ آٹو موبائل انڈسٹری اپنی پیداواری صلاحیت سے کہیں کم پیداوار دے رہی ہے۔ نیز نئی طلب کو پہلے سے بن بکے اسٹاک کے ذریعے بھی پورا کیا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے پیداواری گنجائش سے کہیں کم کاریں اور بسیں ٹریکٹرز ٹرک وغیرہ بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن نئی آٹو پالیسی کے باعث امید کی جا رہی ہے کہ اب پیداوار میں اضافہ ہوکر رہے گا۔

اس وقت ملک میں کاریں پیدا کرنے کی صلاحیت تقریباً ڈھائی لاکھ سالانہ ہے لیکن اس پیداواری گنجائش سے کہیں کم ڈیڑھ لاکھ کاریں سالانہ 2014 اور 2015 کے دوران بنائی گئی ہیں۔جب کہ جیپ کی پروڈکشن کی گنجائش 5 ہزار جیپیں سالانہ ہیں، جب کہ 2014-15 کے دوران کل 1109 جیپیں بنائی گئی ہیں۔ اسی طرح ملک میں 5 ہزار بسیں بنانے کی پیداواری گنجائش موجود ہے لیکن 2014-15 کے دوران بسوں کی کل پروڈکشن 575 یونٹس رہی ہے۔ پاکستان کی فیکٹریوں میں 28 ہزار 5 سو ٹرکس کی پیداواری صلاحیت موجود ہے، لیکن اس کے مقابلے میں 2014-15 کے دوران بہت کم ٹرکس کی پیداوار حاصل کی گئی یعنی کل 4039 ٹرکس بنائے گئے ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ٹریکٹر ضرورت کے مطابق نہیں بناتا ہے۔ ملک کے ہر کسان کے پاس ٹریکٹر موجود نہیں ہے۔ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ٹریکٹر کے ذریعے ہل چلانے کے بجائے گائے بیل کے ذریعے کھیتوں میں ہل چلایا جاتا ہے۔کیونکہ غریب کسان ٹریکٹر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ جس سے ان کی پیداوار بھی کم رہتی ہے، جس کے باعث غربت میں بھی کمی واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ کاشتکاروں کو ٹریکٹر کی فراہمی کی سہولت دی جائے تاکہ ان کے لیے یہ ممکن ہوسکے کہ وہ اپنی زمین پر ٹریکٹر چلا کر اسے تیارکرسکیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے ملک میں موٹرسائیکل کی پیداوار میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بائیسکل بھی بڑی تعداد میں بنائی جا رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود بائیسکل کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ دیہی علاقوں کے اسکولوں میں جانے والے طالب علموں کے لیے سائیکل انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ دور دراز کے دیہی علاقوں کے طالب علموں کو اپنے اسکولوں یا کالجز میں پہنچنے کے لیے بڑی ہی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی کئی میل انھیں سخت چلچلاتی دھوپ یا تیز بارش یا شدید سردی کے موسم میں پیدل چل کر اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں پہنچتے ہیں۔

ملک میں جس اعتبار سے غربت موجود ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو اس جانب متوجہ ہونا چاہیے کہ سائیکل جوکہ غریبوں کی سواری سمجھی جاتی ہے اس کی قیمت میں کمی واقع ہونا چاہیے۔ اسی طرح موٹرسائیکلوں کی قیمت میں بھی اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک کے ہر حصے میں موٹرسائیکل کی طلب میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اب جدید ٹیکنالوجی دنیا میں متعارف ہوچکی ہے جس کا سہارا لے کر پاکستان میں بننے والی موٹرسائیکلوں کی قیمت میں کمی واقع ہونا چاہیے۔

بتایا جاتا ہے کہ 2015 کے دوران بیرون ملک سے درآمدکی جانے والی کاروں کی تعداد 45 ہزار تھی۔جس کے باعث 67 ارب روپے کا زرمبادلہ ملک سے باہرگیا ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، بہت سی اقسام کے پرزہ جات جوکہ ملک میں تیارکیے جاسکتے ہیں، بیرون ملک سے درآمد کیے جا رہے ہیں۔

ملک میں اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ وہ بڑی کمپنیاں جو کہ سستی گاڑیاں، بسیں، ٹرک اور دیگر اشیا پیدا کرنے میں مہارت رکھتی ہیں وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تاکہ ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوں زیادہ تر بسیں وغیرہ درآمد کی جاتی ہیں جب کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے وہیکلزکی تیاری زیادہ سے زیادہ ملک میں ہی ہونا چاہیے۔ بسیں، مزدا، ویگنیں ملک میں ملکی طلب کے مطابق تیارکی جائیں جوکہ قیمتاً سستی بھی ہوں تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کچھ کمی واقع ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں