کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
مسلمان مرد کو شادی کی اجازت صرف اہل کتاب خواتین سے کرنے کی ہے جس میں عیسائی اور یہودی عورتیں شامل ہیں.
اخلاق اقداراور شرم وحیا ہی وہ بنیادی صفات ہیں جو انسانوں کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
چناں چہ جانوروں میں نفسانی خواہشات کی تسکین وتکمیل کے معاملے میں ماں باپ، اولاد اور بہن بھائیوں جیسے مقدس رشتوں کا سرے سے کوئی تصورہی موجود نہیں ہے۔ مگر انسانیت سوز مغربی معاشروں میں ہم جنسیت اورشادی کے بغیر شریک حیات بن کر زندگی گزارنے کے حیوانی رجحانات نے اب ہمارے معاشروں میں بھی جڑیں پکڑنا شروع کر دی ہیں، جس کے مظاہر اب فحاشی اور عریانیت کی صورت میں تیزی کے ساتھ زور پکڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ وطن عزیز میں مغربی تہذیب کا پروردہ ایک مخصوص طبقہ نہ صرف بے حیائی اور عریانیت کی پُشت پناہی کر رہا ہے بلکہ روشن خیالی اور لبرل ازم کے نام پر اس کی حوصلہ افزائی بھی کر رہا ہے ۔
قارئین کرام! بے حیائی اور عریانیت کا یہ بازار ہمارے یہاں آج کل فیشن شوز اور کیٹ واک کی صورت میں گرم ہے۔ کڑوی مگر سچی اور کھری بات یہ ہے کہ یہ کام ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہماری اسلامی اقدار کو تباہ و برباد اور بری طرح پامال کرنے کے مکروہ مقاصد کی تکمیل کے لیے منظم طور پر کیا جا رہا ہے۔ لہٰذا یہ محض اتفاق نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی تھی کہ ذوالحج جیسے انتہائی مقدس مہینے کے پہلے عشرے میں فیشن شوز اور کیٹ واک کا انعقاد کیا گیا ۔ مگر ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کسی کو اس پر صدائے احتجاج بلند کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی۔؎
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
حیاسوزی اور بے راہ روی کا جو سیلاب مغرب میں آیا ہوا ہے اس نے بعض مشرقی معاشروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔جس میں جاپان بھی شامل ہے۔اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب آج سے تقریباً بارہ سال پہلے ٹوکیو میں ایک خاتون ٹریول ایجنٹ نے دوران گفتگو اس حسرت کا اظہار کیا کہ کاش! اسے معلوم ہوتا کہ اس باپ کون ہے؟ اسے اس بات کا شدید افسوس تھا کہ اس کی ماں کو بھی اس بات کا علم نہیں تھا۔ مغربی معاشروں میں تو نطفۂ ناتحقیق کی روش عام ہے۔ یہ وہ معاشرے ہیں جہاں جنسی تلذزہی سب کچھ ہے خواہ اس کے منفی اثرات کچھ بھی ہوں۔ بھارتی معاشرے کا رخ بھی اسی جانب ہے جہاں گزشتہ دنوں ایک نواب زادہ اداکار نے تمام مذہبی حدود و قیود کو پھلانگ کر ایک ہندو اداکارہ سے عملاً یہ کہتے ہوئے دوسری شادی رچائی تھی کہ ''کوئی برا کہے یا بھلا میں شادی کرنے چلا'' مگر بالی وڈ میں یہ اپنی نوعیت کا کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔
اس سے قبل کنگ خان اور اس سے بھی پہلے نصیر الدین شاہ ہندوانیوں کے ساتھ شادیاں رچائے بیٹھے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ خان کے نام سے مشہور یہ معروف لوگ اپنے گھروں میں مورتیاں بھی سجائے ہوئے ہیں اور ہندوؤں کے تہوار بھی بڑے دھڑلے سے مناتے ہیں۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کے کروڑوں مسلمان پرستارصرف سیکولر بھارت ہی میں نہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ ہندوستانی فلم انڈسٹری کی یہ روش بہت پرانی ہے جس کی دو بڑی مثالیں نرگس اور مدھوبالا جیسی مشہور اداکاراؤں کی صورت میں موجود ہیں۔ جنھوں نے بالترتیب سنیل دت اور کشور کمار نامی ہندو اداکاروں کے ساتھ اپنے بیاہ رچائے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغل حکمرانوں نے حکومتی مصلحتوں کے تحت ہندو خواتین کے ساتھ نہ صرف شادیاں کی تھیں بلکہ خاندان مغلیہ کے دو حکمرانوں نے ہندو ماتاؤں کے پیٹ سے جنم لیا تھا ۔
اس کے علاوہ مشہور سکھ حکمراں یک چشم رنجیت سنگھ نے بھی ایک مسلمان عورت کو اپنے حرم میں شامل کیا تھا جو ایک رقاصہ تھی۔ اسی طرح کا ایک تاریخی واقعہ مہاراجہ کشن پرشاد کا بھی ہے جو نظام حیدرآباد کے وزیراعظم تھے اور جنھوں نے ایک سید زادی سے ساتھ شادی رچائی تھی۔ حکمراں طبقے کے علاوہ علمی گھرانوں کی بھی ایسی دو مثالیں موجود ہیں ۔ایک مثال معروف اردو ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی کی صاحبزادی سلمٰی صدیقی کی ہے جنھوں نے ممتاز ہندو افسانہ نگار کرشن چندر سے بیاہ کیا اور دوسری مثال مشہور پاکستانی مورخ عائشہ جلال کی ہے جنھوں نے ایک ہندو پروفیسر کے ساتھ خود کو رشتہ ازدواج میں منسلک کیا ہے اس کے علاوہ سابق گورنر پنجاب مقتول سلمان تاثیر نے بھی ایک سکھنی کے ساتھ شادی کی تھی ۔
تمام علمائے کرام کا اس نکتے پر ہمیشہ سے مکمل اتفاق رائے اور اجماع رہا ہے کہ کسی بھی مسلم مرد یا خاتون کی ہندو یا سکھ سے شادی قطعی طور پر خلاف شرع ہے اور یہ کہ ہندو اور سکھ اہل کتاب میں شامل نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح نبی آخر الزماں کے منکر قادیانی/ احمدی فرقے کے لوگ بھی دربدۂ اسلام سے خارج شمار کیے جاتے ہیں ۔ لہٰذا کسی مسلمان کی ان سے بھی شادی جائز نہیں ہے۔ ماضی کی طرح ہندو اداکارہ کرینہ کپور کے ساتھ سیف علی خان کی شادی کو بھی علمائے دین اور مفتیان کرام نے دین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کہتے ہوئے قطعاً ناجائز قرار دیا ہے۔ بُتوں کی پوجا اور ختم نبوت سے انکار دین اسلام کی واضح نفی ہیں جس میں کسی شک و شبہ یا تاویل و حیلہ سازی کی ذرہ برابر بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا اس قسم کی شادیاں قطعی طور پر قابل مذمت ہیں۔ قرآن اور حدیث دین اسلام کی اساس ہیں۔
ان دونوں کی تعلیمات کے حوالے سے مسلمان مرد کو شادی کی اجازت صرف اہل کتاب خواتین سے کرنے کی ہے جس میں عیسائی اور یہودی عورتیں شامل ہیں۔ دوسری جانب اگر کوئی ہندو خاتون دین اسلام قبول کر لے تو پھر اس کے ساتھ نکاح قطعی جائز ہے ۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں موجود روشن خیال حلقے ایک ہندو اداکارہ کے ساتھ ایک مسلمان(نام نہاد) اداکار کے ساتھ شادی پر تو چُپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اپنی مرضی سے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والی کسی ہندو خاتون کی شادی پر آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں اسلام ، ہندومذہب یا دیگر مذاہب کی طرح محض رسومات اور روایات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں کسی بھی قسم کے اوہام یا ابہام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنی حیات طیبہ کو ہمارے سامنے ایک عملی نمونے کے طور پر پیش کرکے ہماری تا ابد رہنمائی فرمائی ہے ۔ چنانچہ بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر طرح کے شرک اور بدعات سے گریز کریں اور تمام اسلامی شعائر کی پابندی اور پاسداری کریں جن میں شرم و حیا کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا واضح اعلان ہے کہ ؎
کی محمدؐ سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں