کمال کا دشمن
اگر امریکا ہمارا دوست ہے تو بہت خوب۔ اگر دشمن ہے تو کمال کا دشمن ہے۔
کیا کام کا دشمن ہے، ممکن ہے دشمن نہ ہو دوست ہو، وہ چاہے دوست ہو یا دشمن، ہم اس کے کمال کا اعتراف کرتے ہیں، اس کا اندر کتنا مضبوط ہے۔ وہ باہر سے کتنا بھی طاقتور نظر آئے لیکن وہ اندر سے بہت زیادہ مضبوط ہے۔اب تک ہم اس کی ایک خوبی کے قائل تھے۔ اس مرتبہ اس نے اپنی ایک اور خوبی کا اظہار کردیا۔ جب نئی صدی شروع ہوئی تو خیال تھا کہ اب اس کے کمالات ختم ہوجائیں گے۔ آٹھ سال تک لوگ یہی سمجھتے رہے، پھر ایسا ہوا کہ اس ملک نے اپنا ایک نیا انداز ظاہر کیا۔ جس نے ساری دنیا کو حیران کر دیا۔ ایک نہیں بلکہ دو طریقوں سے اس نے ظاہر کیا کہ وہ واقعی سپر پاور کہلانے کے لائق ہے۔
''گوروں کے گھر میں گورے'' یا یوں کہہ لیں کہ ''سفید گھر میں وہ جن کے رنگ سفید ہوں۔'' کالے صرف غلام تھے ۔یہ صدیوں کی روایت تھی، پھر یہ دور بدلا۔ جب بش صدر تھا تو اس کی مخالف پارٹی اپنے لیے امیداوار چن رہی تھی۔ سب گورے لیکن ایک کالا۔ لوگوں نے سوچا کہ یہ ڈیموکریٹس کی طرف سے کس طرح صدارتی امیدوار بن سکتا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ آگے آتا رہا۔ کئی طاقتور گوروں کو پچھاڑ کر۔ ایک گوری رہ گئی جو اس کا مقابلہ کر رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اگر یہ پارٹی الیکشن جیت گئی تو ایک ریکارڈ بنا جائے گی۔ دو میں سے ایک ریکارڈ۔ اگر گوری الیکشن جیت گئی تو امریکا کی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا کہ ایک عورت صدر بنے۔
اگر یہ نہ ہوا تو ایک مرد جیت جائے گا۔ ریکارڈ یوں بنے گا کہ یہ مرد کالا ہے۔ گویا ڈیموکریٹس کے امیدوار جیت کر ریکارڈ بنا سکتے تھے۔ گوری عورت یا کالا مرد۔ وہ اس مرتبہ انوکھے امیدوار میدان میں لائے تھے۔ یوں گوری عورت اورکالے مرد کا اپنی پارٹی کے اندر مقابلہ شروع ہوا، زوردار مقابلہ۔ عورت کوئی عام عورت نہ تھی، وہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ تھی۔ صرف اہلیہ نہیں بلکہ اہل بھی تھی، مزے کی بات یہ کہ پارٹی ٹکٹ لینے کے لیے دونوں ایک دوسرے کے خلاف نہ بولتے، صرف اپنی بات کرتے۔ مرد تو ایسا تھا کہ بظاہر خوبیوں کے بجائے اس میں خامیاں ہی خامیاں تھیں۔
مرد میں پہلی خامی، جی ہاں خامی کو ذرا دوسرے انداز میں لیں، وہ کالا تھا۔ کبھی کوئی کالا امریکا کا صدر بنا، بہت سے تو یہ سوچتے ہوںگے کہ اس نے امریکا کا صدر بننے کا سوچا بھی کیسے؟ کیا یہ ایک گوری کے مقابلے میں پارٹی ٹکٹ حاصل کر پائے گا؟ پارٹی کو تو ایک انوکھی چیز کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کالا مرد کیوں، گوری عورت کیوں نا؟ یوں ایک دوسری خامی نظر آتی ہے اس کالے امریکی میں۔وہ کالا جو امریکا کا صدر بن کر سفید گھر میں رہنے کا خواہش مند ہے۔ دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ اس کا باپ پیدائشی مسلمان تھا۔ چلو کوئی صدیوں سے عیسائی ہو اورکالا ہو تو کچھ گوارا۔ یہ نیا نیا عیسائی، یہ اپنی نسل کا پہلا مسیحی ہے جو پید اہونے کے ساتھ یسوع مسیح کا ماننے والا ہے۔
پہلی نسل، یہ دوسری خامی تھی، اس کالے امریکی کی تیسری خامی یہ تھی کہ اس کے نام میں مسلمان ہونے کی ''بُو'' آتی تھی۔ باراک حسین اوباما، تیسری خامی یہ تھی کہ اس کا باپ کینیا سے امریکا آیا اور مذہب بدل لیا۔ گویا مہاجر بھی۔ کالا، نیا نیا عیسائی اور اوپر سے مہاجر۔ ان تین خامیوں کو لے کر میدانِ سیاست میں آنے والا امریکا کا صدر بننا چاہتا ہے۔ چوتھی خامی یہ تھی کہ یہ کوئی دولت مند انسان بھی نہ تھا۔ امریکا میں سالانہ چند لاکھ کماتا تھا۔ اس کا سسرال بھی کوئی گورا ا' مالدار اور بااثر نہ تھا۔ یوں کالا، مہاجر، غریب اور نیا نیا عیسائی بننے والا امریکا کا صدر بننے چلا تھا۔
چار خامیوں بظاہر چار خامیوں کو لے کر باراک حسین اوباما اور ہلیری کلنٹن اپنی خوبیوں کے ساتھ ڈیمو کریٹک پارٹی کا ٹکٹ لینے چل پڑے۔ ایسی عورت جس کے شوہر پر اس پارٹی نے اعتماد کیا ہو۔شاید ایسی عورت جسے حکومت کو قریب سے دیکھنے کا آٹھ سالہ تجربہ ہو۔ جس کا حسن اور ذہانت قابل داد ہو۔ وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہو تو اس گھر کی رونق بڑھ جائے۔ ایک خاتون صدر ہو تو امریکا بھی ''مساوات مرد و زن'' کا ثبوت دے سکے۔ ایک اور ریکارڈ یہ بنا سکے کہ میاں بیوی دونوں صدر رہ چکے ہیں۔ اتنی ساری خوبیوں والی عورت اور اتنی ساری ''خامیوں'' والے مرد میں سے مرد کامیاب ہوگیا۔ اسے سن 2008 کے لیے پارٹی کا امیدوار چن لیا گیا۔
امریکا اپنے پانچ درجن انتخابات اور تقریباً چار درجن صدور کی تاریخ رکھتا ہے۔ ڈھائی سو برسوں میں ساٹھ صدارتی امیدواروں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اگر ایک کالا اس دوڑ میں شریک ہوگیا ہے تو اسے ہارنے میں کیا دیر لگے گی؟ پارٹی کے چند ہزار ممبران کا دل جیت لینے اور کروڑوں امریکیوں کا دل جیتنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ امریکی تو اپنے پڑوس میں کالے کی آمد برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ اپنے وائٹ ہاؤس میں کیسے ایک کالے کو دنیا کا طاقتور ترین انسان بنا سکتے تھے؟ تاریخ نے دیکھا کہ امریکیوں نے جارج واشنگٹن ، ابراہیم لنکن، نکسن ، کینڈی اور کلنٹن کا مقام ایک کالے کو دے دیا۔ چار سال پورے ہورہے۔ اب یہ کالا صدر ایک اور مدت کے لیے امریکی ووٹوں کے حصول کے لیے میدان میں آیا۔ اب پارٹی ٹکٹ اس کا حق تھا، اب کوئی گورا یا گوری پارٹی کے اندر اس کا مقابل نہ تھا۔
ری پبلکن گورا اب ڈیموکریٹ کالے کے مقابل تھا۔ اب چار برسوں کی جوابدہی بھی تھی۔ اب بار بار کیا کالا ہی جیتے گا؟ کیا گورے امریکی اس ملک کی صدارت کو نایاب ہوچکے ہیں۔ کیا ان میں ایسی کوئی خوبی نہیں، کیا اوباما میں سرخاب کے پر لگے ہیں؟ کچھ نہیں۔۔۔۔۔یہی امریکیوں کا کمال ہے۔ میرٹ کا کمال۔ دشمن کا کمال کردہ کمال کا دشمن ہے۔ وہ دنیا بھر کے جوہرِ قابل کو اپنے ملک میں جگہ دیتا ہے۔ اس کا سسٹم ایسا ہے کہ جو قابل ہو وہ آگے آسکتا ہے۔ صرف آگے نہیں بلکہ اگلوں کی انتہا تک۔ وہ امریکا کا صدر بھی بن سکتا ہے، چاہے وہ کالا ہو، نو مسیحی ہو، مہاجر ہو، غریب ہو۔ امریکی نظام میں یہ کوئی خامیاں نہیں، اگر وہ باصلاحیت ہے، اگر وہ قابل ہے۔ قابل اور باصلاحیت باراک حسین اوباما جیت گیا۔ وہ ایک بار پھر امریکا کا صدر بن گیا۔ گوروں کی اکثریت نے نہ اس کا رنگ دیکھا، نہ اس کے باپ دادا کا مذہب، نہ امریکا میں رہائش کی مدت، نہ بینک بیلنس۔ ویل ڈن امریکیو! اگر امریکا ہمارا دوست ہے تو بہت خوب۔ اگر دشمن ہے تو کمال کا دشمن ہے۔
''گوروں کے گھر میں گورے'' یا یوں کہہ لیں کہ ''سفید گھر میں وہ جن کے رنگ سفید ہوں۔'' کالے صرف غلام تھے ۔یہ صدیوں کی روایت تھی، پھر یہ دور بدلا۔ جب بش صدر تھا تو اس کی مخالف پارٹی اپنے لیے امیداوار چن رہی تھی۔ سب گورے لیکن ایک کالا۔ لوگوں نے سوچا کہ یہ ڈیموکریٹس کی طرف سے کس طرح صدارتی امیدوار بن سکتا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ آگے آتا رہا۔ کئی طاقتور گوروں کو پچھاڑ کر۔ ایک گوری رہ گئی جو اس کا مقابلہ کر رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ اگر یہ پارٹی الیکشن جیت گئی تو ایک ریکارڈ بنا جائے گی۔ دو میں سے ایک ریکارڈ۔ اگر گوری الیکشن جیت گئی تو امریکا کی تاریخ میں پہلا موقع ہوگا کہ ایک عورت صدر بنے۔
اگر یہ نہ ہوا تو ایک مرد جیت جائے گا۔ ریکارڈ یوں بنے گا کہ یہ مرد کالا ہے۔ گویا ڈیموکریٹس کے امیدوار جیت کر ریکارڈ بنا سکتے تھے۔ گوری عورت یا کالا مرد۔ وہ اس مرتبہ انوکھے امیدوار میدان میں لائے تھے۔ یوں گوری عورت اورکالے مرد کا اپنی پارٹی کے اندر مقابلہ شروع ہوا، زوردار مقابلہ۔ عورت کوئی عام عورت نہ تھی، وہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی اہلیہ تھی۔ صرف اہلیہ نہیں بلکہ اہل بھی تھی، مزے کی بات یہ کہ پارٹی ٹکٹ لینے کے لیے دونوں ایک دوسرے کے خلاف نہ بولتے، صرف اپنی بات کرتے۔ مرد تو ایسا تھا کہ بظاہر خوبیوں کے بجائے اس میں خامیاں ہی خامیاں تھیں۔
مرد میں پہلی خامی، جی ہاں خامی کو ذرا دوسرے انداز میں لیں، وہ کالا تھا۔ کبھی کوئی کالا امریکا کا صدر بنا، بہت سے تو یہ سوچتے ہوںگے کہ اس نے امریکا کا صدر بننے کا سوچا بھی کیسے؟ کیا یہ ایک گوری کے مقابلے میں پارٹی ٹکٹ حاصل کر پائے گا؟ پارٹی کو تو ایک انوکھی چیز کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ کالا مرد کیوں، گوری عورت کیوں نا؟ یوں ایک دوسری خامی نظر آتی ہے اس کالے امریکی میں۔وہ کالا جو امریکا کا صدر بن کر سفید گھر میں رہنے کا خواہش مند ہے۔ دوسری بڑی خامی یہ تھی کہ اس کا باپ پیدائشی مسلمان تھا۔ چلو کوئی صدیوں سے عیسائی ہو اورکالا ہو تو کچھ گوارا۔ یہ نیا نیا عیسائی، یہ اپنی نسل کا پہلا مسیحی ہے جو پید اہونے کے ساتھ یسوع مسیح کا ماننے والا ہے۔
پہلی نسل، یہ دوسری خامی تھی، اس کالے امریکی کی تیسری خامی یہ تھی کہ اس کے نام میں مسلمان ہونے کی ''بُو'' آتی تھی۔ باراک حسین اوباما، تیسری خامی یہ تھی کہ اس کا باپ کینیا سے امریکا آیا اور مذہب بدل لیا۔ گویا مہاجر بھی۔ کالا، نیا نیا عیسائی اور اوپر سے مہاجر۔ ان تین خامیوں کو لے کر میدانِ سیاست میں آنے والا امریکا کا صدر بننا چاہتا ہے۔ چوتھی خامی یہ تھی کہ یہ کوئی دولت مند انسان بھی نہ تھا۔ امریکا میں سالانہ چند لاکھ کماتا تھا۔ اس کا سسرال بھی کوئی گورا ا' مالدار اور بااثر نہ تھا۔ یوں کالا، مہاجر، غریب اور نیا نیا عیسائی بننے والا امریکا کا صدر بننے چلا تھا۔
چار خامیوں بظاہر چار خامیوں کو لے کر باراک حسین اوباما اور ہلیری کلنٹن اپنی خوبیوں کے ساتھ ڈیمو کریٹک پارٹی کا ٹکٹ لینے چل پڑے۔ ایسی عورت جس کے شوہر پر اس پارٹی نے اعتماد کیا ہو۔شاید ایسی عورت جسے حکومت کو قریب سے دیکھنے کا آٹھ سالہ تجربہ ہو۔ جس کا حسن اور ذہانت قابل داد ہو۔ وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہو تو اس گھر کی رونق بڑھ جائے۔ ایک خاتون صدر ہو تو امریکا بھی ''مساوات مرد و زن'' کا ثبوت دے سکے۔ ایک اور ریکارڈ یہ بنا سکے کہ میاں بیوی دونوں صدر رہ چکے ہیں۔ اتنی ساری خوبیوں والی عورت اور اتنی ساری ''خامیوں'' والے مرد میں سے مرد کامیاب ہوگیا۔ اسے سن 2008 کے لیے پارٹی کا امیدوار چن لیا گیا۔
امریکا اپنے پانچ درجن انتخابات اور تقریباً چار درجن صدور کی تاریخ رکھتا ہے۔ ڈھائی سو برسوں میں ساٹھ صدارتی امیدواروں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ اگر ایک کالا اس دوڑ میں شریک ہوگیا ہے تو اسے ہارنے میں کیا دیر لگے گی؟ پارٹی کے چند ہزار ممبران کا دل جیت لینے اور کروڑوں امریکیوں کا دل جیتنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہ امریکی تو اپنے پڑوس میں کالے کی آمد برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ اپنے وائٹ ہاؤس میں کیسے ایک کالے کو دنیا کا طاقتور ترین انسان بنا سکتے تھے؟ تاریخ نے دیکھا کہ امریکیوں نے جارج واشنگٹن ، ابراہیم لنکن، نکسن ، کینڈی اور کلنٹن کا مقام ایک کالے کو دے دیا۔ چار سال پورے ہورہے۔ اب یہ کالا صدر ایک اور مدت کے لیے امریکی ووٹوں کے حصول کے لیے میدان میں آیا۔ اب پارٹی ٹکٹ اس کا حق تھا، اب کوئی گورا یا گوری پارٹی کے اندر اس کا مقابل نہ تھا۔
ری پبلکن گورا اب ڈیموکریٹ کالے کے مقابل تھا۔ اب چار برسوں کی جوابدہی بھی تھی۔ اب بار بار کیا کالا ہی جیتے گا؟ کیا گورے امریکی اس ملک کی صدارت کو نایاب ہوچکے ہیں۔ کیا ان میں ایسی کوئی خوبی نہیں، کیا اوباما میں سرخاب کے پر لگے ہیں؟ کچھ نہیں۔۔۔۔۔یہی امریکیوں کا کمال ہے۔ میرٹ کا کمال۔ دشمن کا کمال کردہ کمال کا دشمن ہے۔ وہ دنیا بھر کے جوہرِ قابل کو اپنے ملک میں جگہ دیتا ہے۔ اس کا سسٹم ایسا ہے کہ جو قابل ہو وہ آگے آسکتا ہے۔ صرف آگے نہیں بلکہ اگلوں کی انتہا تک۔ وہ امریکا کا صدر بھی بن سکتا ہے، چاہے وہ کالا ہو، نو مسیحی ہو، مہاجر ہو، غریب ہو۔ امریکی نظام میں یہ کوئی خامیاں نہیں، اگر وہ باصلاحیت ہے، اگر وہ قابل ہے۔ قابل اور باصلاحیت باراک حسین اوباما جیت گیا۔ وہ ایک بار پھر امریکا کا صدر بن گیا۔ گوروں کی اکثریت نے نہ اس کا رنگ دیکھا، نہ اس کے باپ دادا کا مذہب، نہ امریکا میں رہائش کی مدت، نہ بینک بیلنس۔ ویل ڈن امریکیو! اگر امریکا ہمارا دوست ہے تو بہت خوب۔ اگر دشمن ہے تو کمال کا دشمن ہے۔