اب مزید غلطی سے بچیں
زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیارات کا حصول اور انھیںآزادانہ استعمال کرنے کی ضرورت رکھنے کی خواہش ایک فطری جبلت ہے۔
اس امر میں کوئی کلام نہیں کہ کاروبارِ سلطنت چلانے کے لیے ملک کا آئین ہی سب سے زیادہ طاقتور،مستند اورمقدس حوالہ ہوتا ہے۔ آئین و قانون کی عملداری،حکمرانی اور بالادستی ہی سے ریاست کے تمام اداروں کے اختیارات میں توازن اور ربط پید اہوتا ہے۔
آپ دنیا بھر کے مہذب اور عادلانہ جمہوری معاشروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر ملک میں آئین و قانون کی پاسداری سب سے پہلا رہنما اُصول ہوتی ہے اور ریاست کے تمام ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے، اپنی طاقت کو منوانے اور دوسرے کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرنے کی بجائے اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں جس سے تنظیم مملکت کی روانی میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی سازشی تھیوری جنم لیتی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیارات کا حصول اور انھیںآزادانہ استعمال کرنے کی ضرورت رکھنے کی خواہش ایک فطری جبلت ہے، کوئی بھی فرد خواہ وہ خاندان کا سربراہ ہو یا کسی پنچائیت کمیٹی کا، کسی تنظیم، جماعت یا ادارے کا اعلیٰ ترین عہدیدار ہو یا کسی ملک کا حاکمِ اعلیٰ اس کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ہر حکم کی بجا آوری میں تمام لوگ اس کے اشارہ ابرو پر سر تسلیم خم کردیں، لیکن یہ حقیقت بھی اظہرمن الشمس ہے کہ انصاف کی فراہمی اور اختیارات کے استعمال میں توازن کا قیام ہی ایک عادلانہ و جمہوری معاشرے کی تعمیر میں صحت مند عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ ناانصافی، حق تلفی، ظلم و زیادتی، اناپرستی، ذاتی عناد، باہمی رنجشیں، اختیارات کا آزادانہ استعمال اور دوسروں کے دائرہ کار میں مداخلت سے نہ صرف قومی سطح پر لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ معاشروں میں انتشار، اداروں کے عدم استحکام اور حکومتوں کے زوال کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ جہاں طاقت کے استعمال اور آمرانہ طرزِ عمل سے اپنی ضد اور انا کی تسکین کے لیے اپنی بات منوانے اور رہنما آئینی اصولوں کو پامال کرنے کی روایت پڑ جائے وہاں منصفانہ معاشرتی و سماجی نظام، مستحکم جمہوری حکومتوں کے قیام اور ریاستی اداروں کے استحکام پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں گزشتہ چھ دہائیوں سے ملک کے آئینی و ریاستی اداروں کے درمیان طاقت و اختیارات کے استعمال کے حوالے سے ایک سرد جنگ کی کیفیت طاری ہے کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی کا شور، کبھی عسکری آمریت کا غلبہ، کبھی میڈیا کی حاکمیت اورکبھی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور کبھی نظریہ ضرورت کے استعمال نے آئین و قانون کی بالادستی، ریاستی اداروں کے درمیان توازن کے قیام اور جمہوریت کے استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ 60 سال گزرنے کے باوجود ریاست کے تینوں اہم ترین اداروں کے درمیان خوشگوار تعلق کے باہمی تعاون اور اعتماد کا فقدان ہے۔
ریاستی اداروں کے سربراہوں کو حاصل آئینی اختیارات کے استعمال کا سوال پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ آئینی حدود سے تجاوز اور ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت بلکہ چیلنج کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں، آئینی و قانونی ماہرین اور تجزیہ نگار و مبصرین ملک کے دو اہم ترین ریاستی اداروں کے سربراہوں کے درمیان حتمی آئینی اختیارات کے استعمال کے حوالے سے تصادم کی فضا پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسے مرحلے پر جب ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے چند قدم کے فاصلے پر ہے اور وطن عزیز بغیر کسی سیاسی تصادم کے اطمینان بخش ماحول میں نئے انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے تو فضا میں ''ٹاپوں'' کی آواز سنائی دینے کے خدشات کا اظہار یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے اور حالات کی سنگینی کا احساس بھی۔
اسی لیے ملک کے فہیمدہ مزاج اور دور اندیش حلقے معاملات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں جیساکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب نے واضح طور پر کہا ہے کہ کسی فرد یا ادارے کو ملکی مفاد کے حتمی تعین کا حق حاصل نہیں یہ اتفاق رائے ہی سے ممکن ہے، اداروں کوکمزور کرنا یا آئین سے تجاوز کرنا ہمیں راستے سے ہٹا دے گا۔ قیادت اور سپاہ کے درمیان قائم رشتے کو تقسیم کرنے کی کوشش برداشت نہیں کی جاسکتی۔ آرمی چیف نے مزید فرمایا کہ تمام اداروں کا آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہی بہتر مستقبل کی ضمانت ہے، عین اسی دن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بیان بھی اخبارات کی زینت بنا جس میں انھوں نے فرمایا کہ ٹینکوں اور میزائلوں کی بنیاد پر ملکی استحکام کے تعین کے دن لد گئے، سپریم کورٹ حتمی اختیارات رکھتی ہے، آئین کی بالادستی قائم رکھنا سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے۔
دونوں چیف صاحبان کے بیانات میں آئین کی بالادستی قائم رکھنے اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کا تاثر واضح طور پر نظر آتا ہے جو یقیناً ایک مثبت سوچ کی علامت ہے، دونوں چیف کے بیانات کو میڈیا میں ''لیڈنگ یا بریکنگ نیوز'' کے طور پر لیا گیا اور تبصرے و تجزیے شروع ہوگئے، چونکہ اصغر خان کیس، ریلوے اراضی اسکینڈل اور دیگر مقدمات میں بعض سابق جرنیلوں کے ملوث ہونے پر عدالتی احکامات اور ان پر عمل درآمد کی خبروں کی میڈیا میں ٹھیک ٹھاک منظر کشی کی گئی تھی تو ابتداء میں آرمی چیف کے بیان کو میڈیا کے لیے وارننگ تصور کیا گیا اور عدلیہ فوج تصادم کا تاثر پس منظر میں چلا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ حالات اس نہج تک کیوں پہنچے بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق عدلیہ کی بحالی، فعالیت اور آزادی ایک حوصلہ افزا امر ہے ۔ صورتحال واضح ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ تحمل و برداشت سے کام لیا جائے، اسی میں سب کا بھلا ہے۔ آرمی چیف نے درست کہا کہ ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں، لیکن یاد رکھیں کہ اب مزید غلطیوں سے بچیں۔
آپ دنیا بھر کے مہذب اور عادلانہ جمہوری معاشروں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہر ملک میں آئین و قانون کی پاسداری سب سے پہلا رہنما اُصول ہوتی ہے اور ریاست کے تمام ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے، اپنی طاقت کو منوانے اور دوسرے کے دائرہ اختیار میں مداخلت کرنے کی بجائے اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں جس سے تنظیم مملکت کی روانی میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی سازشی تھیوری جنم لیتی ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ زیادہ سے زیادہ طاقت اور اختیارات کا حصول اور انھیںآزادانہ استعمال کرنے کی ضرورت رکھنے کی خواہش ایک فطری جبلت ہے، کوئی بھی فرد خواہ وہ خاندان کا سربراہ ہو یا کسی پنچائیت کمیٹی کا، کسی تنظیم، جماعت یا ادارے کا اعلیٰ ترین عہدیدار ہو یا کسی ملک کا حاکمِ اعلیٰ اس کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ہر حکم کی بجا آوری میں تمام لوگ اس کے اشارہ ابرو پر سر تسلیم خم کردیں، لیکن یہ حقیقت بھی اظہرمن الشمس ہے کہ انصاف کی فراہمی اور اختیارات کے استعمال میں توازن کا قیام ہی ایک عادلانہ و جمہوری معاشرے کی تعمیر میں صحت مند عامل کا کردار ادا کرتا ہے۔ ناانصافی، حق تلفی، ظلم و زیادتی، اناپرستی، ذاتی عناد، باہمی رنجشیں، اختیارات کا آزادانہ استعمال اور دوسروں کے دائرہ کار میں مداخلت سے نہ صرف قومی سطح پر لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ معاشروں میں انتشار، اداروں کے عدم استحکام اور حکومتوں کے زوال کا بھی سبب بن جاتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ جہاں طاقت کے استعمال اور آمرانہ طرزِ عمل سے اپنی ضد اور انا کی تسکین کے لیے اپنی بات منوانے اور رہنما آئینی اصولوں کو پامال کرنے کی روایت پڑ جائے وہاں منصفانہ معاشرتی و سماجی نظام، مستحکم جمہوری حکومتوں کے قیام اور ریاستی اداروں کے استحکام پر سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے وطن عزیز دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں گزشتہ چھ دہائیوں سے ملک کے آئینی و ریاستی اداروں کے درمیان طاقت و اختیارات کے استعمال کے حوالے سے ایک سرد جنگ کی کیفیت طاری ہے کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی کا شور، کبھی عسکری آمریت کا غلبہ، کبھی میڈیا کی حاکمیت اورکبھی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت اور کبھی نظریہ ضرورت کے استعمال نے آئین و قانون کی بالادستی، ریاستی اداروں کے درمیان توازن کے قیام اور جمہوریت کے استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ 60 سال گزرنے کے باوجود ریاست کے تینوں اہم ترین اداروں کے درمیان خوشگوار تعلق کے باہمی تعاون اور اعتماد کا فقدان ہے۔
ریاستی اداروں کے سربراہوں کو حاصل آئینی اختیارات کے استعمال کا سوال پھر سے سر اٹھا رہا ہے۔ آئینی حدود سے تجاوز اور ایک دوسرے کے دائرہ کار میں مداخلت بلکہ چیلنج کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں، آئینی و قانونی ماہرین اور تجزیہ نگار و مبصرین ملک کے دو اہم ترین ریاستی اداروں کے سربراہوں کے درمیان حتمی آئینی اختیارات کے استعمال کے حوالے سے تصادم کی فضا پروان چڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسے مرحلے پر جب ملک میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے چند قدم کے فاصلے پر ہے اور وطن عزیز بغیر کسی سیاسی تصادم کے اطمینان بخش ماحول میں نئے انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے تو فضا میں ''ٹاپوں'' کی آواز سنائی دینے کے خدشات کا اظہار یقیناً خطرے کی گھنٹی ہے اور حالات کی سنگینی کا احساس بھی۔
اسی لیے ملک کے فہیمدہ مزاج اور دور اندیش حلقے معاملات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں جیساکہ جنرل اشفاق پرویز کیانی صاحب نے واضح طور پر کہا ہے کہ کسی فرد یا ادارے کو ملکی مفاد کے حتمی تعین کا حق حاصل نہیں یہ اتفاق رائے ہی سے ممکن ہے، اداروں کوکمزور کرنا یا آئین سے تجاوز کرنا ہمیں راستے سے ہٹا دے گا۔ قیادت اور سپاہ کے درمیان قائم رشتے کو تقسیم کرنے کی کوشش برداشت نہیں کی جاسکتی۔ آرمی چیف نے مزید فرمایا کہ تمام اداروں کا آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا ہی بہتر مستقبل کی ضمانت ہے، عین اسی دن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا بیان بھی اخبارات کی زینت بنا جس میں انھوں نے فرمایا کہ ٹینکوں اور میزائلوں کی بنیاد پر ملکی استحکام کے تعین کے دن لد گئے، سپریم کورٹ حتمی اختیارات رکھتی ہے، آئین کی بالادستی قائم رکھنا سپریم کورٹ کی ذمے داری ہے۔
دونوں چیف صاحبان کے بیانات میں آئین کی بالادستی قائم رکھنے اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کا تاثر واضح طور پر نظر آتا ہے جو یقیناً ایک مثبت سوچ کی علامت ہے، دونوں چیف کے بیانات کو میڈیا میں ''لیڈنگ یا بریکنگ نیوز'' کے طور پر لیا گیا اور تبصرے و تجزیے شروع ہوگئے، چونکہ اصغر خان کیس، ریلوے اراضی اسکینڈل اور دیگر مقدمات میں بعض سابق جرنیلوں کے ملوث ہونے پر عدالتی احکامات اور ان پر عمل درآمد کی خبروں کی میڈیا میں ٹھیک ٹھاک منظر کشی کی گئی تھی تو ابتداء میں آرمی چیف کے بیان کو میڈیا کے لیے وارننگ تصور کیا گیا اور عدلیہ فوج تصادم کا تاثر پس منظر میں چلا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ حالات اس نہج تک کیوں پہنچے بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق عدلیہ کی بحالی، فعالیت اور آزادی ایک حوصلہ افزا امر ہے ۔ صورتحال واضح ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ تحمل و برداشت سے کام لیا جائے، اسی میں سب کا بھلا ہے۔ آرمی چیف نے درست کہا کہ ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں، لیکن یاد رکھیں کہ اب مزید غلطیوں سے بچیں۔