پاکستان اسمارٹ کارڈ‘ تصور سے حقیقت تک

اسمارٹ قومی شناختی کارڈ گم ہونے کی صورت میں بھی اس کے غلط استعمال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

طارق ملک

رائٹ برادران کوجدید ہوائی جہازوں کا'' جدامجد'' کہا جاسکتا ہے تاہم پرواز کا موجودہ تصور کبھی ان کے ذہن میں نہ تھا۔

پرواز کے حوالے اور قصے کہانیاں اتنی ہی پرانی ہیں جتناکہ انسان ۔ چینیوں نے تیسری صدی قبل مسیح میں پتنگیں اڑائیں اور گرم ہوا کے غبارے کو فضا میں اڑان بھرائی ۔ یونان میںDaedalus نے جو کہ ایک دستکارتھا ''Crete'' سے باہر نکلنے کے لیے اپنے اور اپنے بیٹے کے ''پر ''بنائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہان کے پر پگھل گئے اور وہ سمندر میں گر کر ڈوب گیا جس کے بعد سمندر کو اسی کے نام سے منسوب کیا گیا۔ ایک مسلمان سائنسدان عباس ابنِ فرناس نے بھی ہوائی جہاز بنایا اور ایک بار لینڈنگ کے دوران اس کی کمر زخمی ہوگئی کیونکہ اس نے جہاز میں توازن برقرار رکھنے کے لیے '' دم'' نہیں بنائی تھی۔ برصغیر پاک ہند میں Jatayu اورSampah دو ایسے خدا مانے جاتے ہیں جن کے 'پر' تھے ۔ اس طرح 15ویں صدی عیسوی میںLeonardo da Vinci نے اڑنے والی مشین کا قلمی نسخہ لکھا تھا۔

تاہم رائٹ برادرز کو اب بھی جدید پروازوں کا اولین کردار مانا جاتا ہے جو میرے خیال میں غلط بھی نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اتنے بڑے خواب کو حقیقت بنانا کوئی معمولی بات نہیں۔کئی بیرونی عناصر نے رائٹ کے ہوائی جہاز کو اڑنے کے قابل بتایا۔ بھاپ سے چلنے والے انجن نے کشش ثقل کے اثرات کو توڑنے کے لیے مطلوبہ ہارس پاور فراہم کی ۔ کئی انجینئرز اورڈیزائنرز نے عشروں تک کام کرکے ہوائی جہاز کے ڈیزائن میں موجود خامیوں اور نقائص پرقابو پایا ۔ اس سلسلے میں کئی تحقیقی مسودے چھان بین کے لیے موجود ہیں۔ رائٹ برادران کو کس چیز نے دوسرے لوگوں سے ممتاز بنایا ، وہ ان کا طریقۂ کار یا اپروچ تھی جس میں ڈیزائن کی تیاری کو پرواز کے اصولوں کے مطابق بنانا اور سب سے بڑھ کر دن رات انتھک محنت اور کامیابی کی لگن شامل تھی۔

میں نے نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کو بھی رائٹ برادران کی طرح پرواز سے قبل برسوں تک پوری لگن سے مصروف عمل پایا۔ نادرا نے ایک انقلابی منصوبے یعنی اسمارٹ قومی شناختی کارڈ (SNIC) پیش کی ہے۔ چپ سے لیس یہ شناختی دستاویز نہ صرف ناقابل تصور سیکیورٹی اور سہولت فراہم کرتا ہے بلکہ یہ شہریوں کو کئی خدمات کی فراہمی کے لیے درکار واحد کارڈ بھی ہے ۔

شہریوں کی رجسٹریشن اور کوائف اکٹھے کرنے کا کام 1973 میں اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا ۔ ایک بار کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا '' درست قومی اعداد وشمار نہ ہو نے کی وجہ سے یہ ملک تاریک دور سے گزر رہا ہے۔ نادرا کے قیام کے ذریعے2000 میں شہریوں کے ڈیٹابیس کا آغاز کیا گیا ۔ آج نادرا کے ادارے کی حیثیت بدلتے ہوئے میں یہ کہوں گا کہ نادرا نہ صرف شہریوں کی رجسٹریشن اورڈیٹابیس کو مینٹین رکھ رہا ہے بلکہ یہ پاکستانیوں کو خدمات کی فراہمی میں ہر قدم سہولت دے رہا ہے۔

اسمارٹ قومی شناختی کارڈ( SNIC)نادرا کے گزشتہ کام کا تسلسل اور ملک کی ضرورت ہے پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ شناختی کارڈ میں بہت محدود سیکیورٹی فیچرز ڈالے جاسکتے ہیں۔ کوئی شخص بھی نادرا کے جاری کردہ CNIC کی نقل تیار نہیں کر سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں تصاویر کے رد و بدل سے فراڈ بھی کیے گئے۔ موجود ہ ID سے شہریوں کی دور سے تصدیق بھی نہیں ہوسکتی ۔ جو شخص بھی کسی دوسرے کا شناختی کارڈ کسی طرح ہتھیا لے وہ اسے کسی بھی طرح غیر قانونی طورپر استعمال کرسکتا ہے جیسے کسی ممنوع علاقے میں داخل ہونا یا کسی دوسرے کے نام پر ووٹ ڈالنا۔ تیسری بات یہ ہے کہ موجودہ شناختی کارڈ میں ڈیٹا محفوظ کرنے یا ڈیٹا بیس کی ترمیم کا کوئی آسان طریقہ نہیں۔


سیکیورٹی خدشات کو دورکرنے کے لیے ہم نے SNIC کے ڈیزائن میں36 سیکیورٹی فیچرز شامل کیے ہیں جس سے یہ دنیا کا محفوظ ترین کارڈ بن گیا ہے۔ یہ کارڈ کئی تہوں میں پرنٹ کیا گیا ہے اور ہر تہہ کی اپنی سیکیورٹی ہے اور محفوظ کمیونیکیشن کے لیے ایسے پروٹوکولز شامل کیے گئے ہیں جن سے یہ چپ دور سے read کی جاسکتی ہے۔ شہریوں کی دور سے تصدیق کے لیے کارڈ پر Mach-on-card applet ڈیزائن کی گئی ہے جب کسی شہری کاSNICکسی مشین ریڈر پر رکھا جاتا ہے تو پہلے یہ کارڈ پر اپنی تصدیق کرتا ہے جس کے بعدکارڈ اس Readerپر اپنی تصدیق وثوثیق کرتا ہے۔ جب دونوں طرف سے توثیق ہوجائے گی توDevice شہری کے فنگرپرنٹس مانگے گی اور ان کی توثیق کارڈ میں محفوظ فنگر پرنٹس سے کی جائے گی۔

اس طرح پاکستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقے کے شہری کی بھی تصدیق ممکن ہو جائے گی۔ حتیٰ کہ ایسے علاقے میں بھی جہاں بجلی نہ ہونے کے سبب ڈیوائسز، بیٹریوں پر چل رہی ہوں۔ اس کارڈ کی بدولت اب کسی بھی علاقے میں ووٹ ڈالنے والے کے بارے میں حکومت کو یقین کامل ہوگا کہ یہ وہی شخص ہے جو ووٹر لسٹ میں موجود ہے۔ یہ ان ہزاروں فراڈ میں سے ایک ہوگا جو کہ ممکنہ طورپر عام شناختی کارڈ سے کیے جاسکتے ہیں۔چپ میں زیادہ ترجگہ نجی شعبے کے لیے دستیاب ہوگی کہ وہ اسے اپنی خدمات اور مصنوعات کے لیے استعمال کرسکیں ۔

پہلے پہل نجی شعبے کو اس کی خدمات شاید گراں محسوس ہوں لیکن جب ایک خاص حد سے زیادہ افراد کے پاس یہ کارڈ آجائے گا تو یہ ایک بہتر سہولت تصور کی جائے گی۔بالٓاخر ہر فرد کو یہی کارڈ بنوانا ہے جس میں ان کا ڈرائیونگ لائسنس ، اسکول کارڈ ، اسپتال کارڈ، جم کی ممبر شپ اور دیگر بہت سی سہولیات ہوں گی۔ یہ کارڈ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے معیار کے عین مطابق ہے اوراسے سفری دستاویزات یعنی پاسپورٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے ۔

عمومی سطح پر یہ کارڈ کچھ شہریوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے تاہم کچھ نجی کمپنیوں کے لیے یہ کارڈ شاید اپنی خدمات کی دور دراز پسماندہ علاقوں تک وسعت کے لحاظ سے منافع بخش نہ ہو۔ایسے حالات میں حکومت کو مداخلت کرنا چاہیے تاکہ کچھ معاشی مجبوریوں کے سبب کسی کے بھی شہری حقوق متاثر نہ ہوں۔اس کی ایک مثال برانچ کے بغیر بینکاری ہے۔

جہاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رقوم کی ترسیل کے لیے رولز میں نرمی کرتے ہوئے نادرا کے شناختی کارڈ کو سند تسلیم کیا ہے اس کے بغیرشاید پاکستان میں برانچ کے بغیر بنکاری میں اتنی وسعت نہ آتی۔

اسمارٹ قومی شناختی کارڈ گم ہونے کی صورت میں بھی اس کے غلط استعمال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ کارڈ سے کسی بھی ٹرانزیکشن کے لیے فنگر پرنٹس کی تصدیق ضروری ہے ۔ کوئی بھی شہری گھر پر ایک سے زیادہ کارڈ بنوا کر رکھ سکتا ہے ۔ اور ایک کارڈ گم ہونے پر دوسرا استعمال کرسکتا ہے ۔ سیکیورٹی کے در پیش مسائل کے پیش نظر کارڈ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اس میں شہری کی شناخت کے بغیر اضافی معلومات نہیں ڈالی جاسکتیں۔اسمارٹ کارڈ ملک میں منتخب نادرا رجسٹریشن سینٹرز پربنوایا جاسکتا ہے۔ رائٹ برادران کی طرح ہم کامیاب ہوتے ہیں یا Icarus کی طرح ناکام، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ لوگ اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں اور کس طرح اس کی افادیت کو سمجھتے ہیں۔ایک ذمے دار سرکاری ادارے کی حیثیت سے ہم اسمارٹ کارڈ میں بہتری کے لیے آپ کی تجاویز اور آراء کاخیر مقدم کرتے ہیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ اس کارڈ کے بارے میں جانیے اور ہمیں بتائیے کہ ہم کیا مزید بہتری لاسکتے ہیں۔

(مضمون نگار چیئرمین نادرا ہیں)
Load Next Story