صدر اوباما کی باتیں
اگرایٹم بم یاجوہری موادان جنونیوں کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اسے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کریں گے
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایٹمی تحفظات کے موضوع پر ہونے والی دو روزہ عالمی سربراہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں امریکی صدر بارک اوباما نے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ جوہری ہتھیار اور ایٹمی مواد دہشت گردوں کی عالمی تنظیموں کے ہاتھ لگ سکتا ہے جس سے پوری دنیا کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
اس حوالے سے امریکی صدر نے آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کا بطور خاص نام لیا اور کہا اس جیسے دہشت گرد گروپوں کے شدت پسند جنونی لوگوں کی جوہری یا 'ڈرٹی بم' تک رسائی روکنے کے لیے مزید تعاون درکار ہے۔ اس دو روزہ کانفرنس میں 50 سے زائد عالمی رہنماوں اور نمایندوں نے شرکت کی۔ اوباما نے اپنے خطاب میں آئی ایس کی جانب سے منظرِ عام پر آنے والی ایک ویڈیو رپورٹ کا بھی حوالہ دیا اور کہا اس سے دہشتگردوں کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اوباما نے دعویٰ کیا کہ کہ ہماری مشترکہ کوششوں ہی کی وجہ سے ابھی تک کوئی دہشت گرد گروپ ایٹم بم یا جوہری مواد سے تیار شدہ 'ڈرٹی بم' تک رسائی نہیں حاصل کر سکا۔ اگر ایٹم بم یا جوہری مواد ان جنونیوں کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اسے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ امریکی صدر نے انکشاف کیا کہ دنیا بھر میں اندازاً دو ہزار ٹن جوہری مواد موجود ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہ سارا ہی مواد مناسب طریقے سے محفوظ بھی ہے۔
اوباما نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا بم بھی پوری دنیا کو ہلا کر رکھ سکتا ہے، جس میں محض ایک سیب کے سائز کے برابر جوہری مواد استعمال کیا گیا ہو۔ پلوٹونیم کی کم سے کم مقدار بھی لاکھوں انسانوں کو ہلاک اور زخمی کر سکتی ہے اور ایسا ہوا تو یہ انسانی، سیاسی، اقتصادی اور ماحولیاتی ہر اعتبار سے ایک ایسی بڑی تباہی ہو گی، جس کے نتائج کا دنیا عشروں تک سامنا کرتی رہے گی۔ ایسا کوئی بھی واقعہ ہماری دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔
امریکی صدر نے کانفرنس کے بعد اپنے چینی، فرانسیسی اور ترک ہم منصبوں سے بھی ملاقات کی اور دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون کو مزید بڑھانے پر زور دیا جب کہ شمالی کوریا کے جوہری تجربات کو امن کے لیے رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں جن کے داعش کے ہاتھ لگنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
دریں اثنا اوباما انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدار تھامس کنٹری مین نے، جو جوہری عدم پھیلاو کے محکمے اسسٹنٹ سیکریٹری ہیں، اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جوہری سلامتی کانفرنس نے پاکستان اور بھارت کو مل بیٹھ کر اعتماد سازی کے اقدامات کرنے کا موقع بھی فراہم کیا تا کہ دونوں ملکوں میں کسی تنازعے کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔
تھامس کنٹریمین نے کہا امریکا دونوں ملکوں میں مذاکرات کی فضا پیدا کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے جوہری مواد اور ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کا ذکر کرتے ہوئے کنٹری مین نے کہا انھوں نے اس سلسلے میں جو اقدامات کیے ہیں ان سے امریکا متاثر ہے۔ امریکی عہدیدار نے اپنی سیاسی مصلحت کے تحت پاکستان و بھارت کو ایٹمی مواد کے تحفظ میں مساوی قرار دے دیا حالانکہ بھارت میں پانچ ایٹمی حادثات وقوع پذیر ہو چکے ہیں جب کہ پاکستان میں گذشتہ چالیس سال سے کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا اس اعتبار سے دونوں ملکوں کو برابر قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ پاکستان کی برتری تسلیم کرتے ہوئے اسے جوہری سپلائر گروپ کی ممبرشپ دی جانی چاہیے۔ نیز اس حوالے سے پاکستان پر ناجائز دباو ڈالنے کی روش کو بھی بند کیا جانا چاہیے۔
امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے سرد جنگ کے اپنے تجربے کی بات ہے کہ ہتھیاروں کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جو ڈیٹرنس کے زمرے میں نہیں آتیں اور ایسے ہتھیار رکھتے ہوئے تنازع میں ان کے استعمال کی خواہش پیدا ہوتی ہے جس سے تنازع بڑھ جاتا ہے۔ انھوں نے کہا اگرچہ یہ بات ایک مفروضہ ہے مگر سرد جنگ کے دوران اپنے تیار کردہ ہتھیاروں کی وجہ سے امریکا اور سوویت یونین جوہری جنگ کے قریب آ گئے تھے۔
کنٹری مین نے کہا ہم پاکستان اور بھارت کے ساتھ اسی مسئلے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکا پاک بھارت تعلقات کے معاملے میں جج کا کردار ادا نہیں کر سکتا کہ وہ تعاون کر رہے ہیں یا نہیں بلکہ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ دونوں کے مذاکرات کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس حوالے سے امریکا کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہونا چاہیے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کرتا ہے مگر بھارت کسی نہ کسی بہانے پہلو تہی سے باز نہیں آتا اور اگر رضامند ہوتا بھی ہے تو پیشگی شرائط کے ساتھ جو پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتیں۔
پاکستان نے پٹھانکوٹ واقعہ کی تحقیقات کی فراغدلانا پیشکش کی مگر بھارت پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کی راہ میں خواہ مخواہ کی رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے جو پٹھانکوٹ پہنچی ہوئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بلوچستان سے بھارت کا ایک ہائی پروفائل جاسوس رنگے ہاتھوں پکڑا گیا جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیوں میں ملوث تھا جس کا اس نے اعتراف بھی کیا ہے مگر بھارت ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے نان اسٹیٹ ایکٹر قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں امریکا کی یہ پالیسی کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ پر امن مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔
اس حوالے سے امریکی صدر نے آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ) کا بطور خاص نام لیا اور کہا اس جیسے دہشت گرد گروپوں کے شدت پسند جنونی لوگوں کی جوہری یا 'ڈرٹی بم' تک رسائی روکنے کے لیے مزید تعاون درکار ہے۔ اس دو روزہ کانفرنس میں 50 سے زائد عالمی رہنماوں اور نمایندوں نے شرکت کی۔ اوباما نے اپنے خطاب میں آئی ایس کی جانب سے منظرِ عام پر آنے والی ایک ویڈیو رپورٹ کا بھی حوالہ دیا اور کہا اس سے دہشتگردوں کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اوباما نے دعویٰ کیا کہ کہ ہماری مشترکہ کوششوں ہی کی وجہ سے ابھی تک کوئی دہشت گرد گروپ ایٹم بم یا جوہری مواد سے تیار شدہ 'ڈرٹی بم' تک رسائی نہیں حاصل کر سکا۔ اگر ایٹم بم یا جوہری مواد ان جنونیوں کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اسے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ امریکی صدر نے انکشاف کیا کہ دنیا بھر میں اندازاً دو ہزار ٹن جوہری مواد موجود ہے اور ایسا نہیں ہے کہ یہ سارا ہی مواد مناسب طریقے سے محفوظ بھی ہے۔
اوباما نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسا بم بھی پوری دنیا کو ہلا کر رکھ سکتا ہے، جس میں محض ایک سیب کے سائز کے برابر جوہری مواد استعمال کیا گیا ہو۔ پلوٹونیم کی کم سے کم مقدار بھی لاکھوں انسانوں کو ہلاک اور زخمی کر سکتی ہے اور ایسا ہوا تو یہ انسانی، سیاسی، اقتصادی اور ماحولیاتی ہر اعتبار سے ایک ایسی بڑی تباہی ہو گی، جس کے نتائج کا دنیا عشروں تک سامنا کرتی رہے گی۔ ایسا کوئی بھی واقعہ ہماری دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔
امریکی صدر نے کانفرنس کے بعد اپنے چینی، فرانسیسی اور ترک ہم منصبوں سے بھی ملاقات کی اور دہشتگردی سے مقابلہ کرنے کے لیے باہمی تعاون کو مزید بڑھانے پر زور دیا جب کہ شمالی کوریا کے جوہری تجربات کو امن کے لیے رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کے لیے خطرہ ہیں جن کے داعش کے ہاتھ لگنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔
دریں اثنا اوباما انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدار تھامس کنٹری مین نے، جو جوہری عدم پھیلاو کے محکمے اسسٹنٹ سیکریٹری ہیں، اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جوہری سلامتی کانفرنس نے پاکستان اور بھارت کو مل بیٹھ کر اعتماد سازی کے اقدامات کرنے کا موقع بھی فراہم کیا تا کہ دونوں ملکوں میں کسی تنازعے کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔
تھامس کنٹریمین نے کہا امریکا دونوں ملکوں میں مذاکرات کی فضا پیدا کرنے کی حمایت کرتا ہے۔ دونوں ملکوں کے جوہری مواد اور ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کا ذکر کرتے ہوئے کنٹری مین نے کہا انھوں نے اس سلسلے میں جو اقدامات کیے ہیں ان سے امریکا متاثر ہے۔ امریکی عہدیدار نے اپنی سیاسی مصلحت کے تحت پاکستان و بھارت کو ایٹمی مواد کے تحفظ میں مساوی قرار دے دیا حالانکہ بھارت میں پانچ ایٹمی حادثات وقوع پذیر ہو چکے ہیں جب کہ پاکستان میں گذشتہ چالیس سال سے کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا اس اعتبار سے دونوں ملکوں کو برابر قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ پاکستان کی برتری تسلیم کرتے ہوئے اسے جوہری سپلائر گروپ کی ممبرشپ دی جانی چاہیے۔ نیز اس حوالے سے پاکستان پر ناجائز دباو ڈالنے کی روش کو بھی بند کیا جانا چاہیے۔
امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے سرد جنگ کے اپنے تجربے کی بات ہے کہ ہتھیاروں کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جو ڈیٹرنس کے زمرے میں نہیں آتیں اور ایسے ہتھیار رکھتے ہوئے تنازع میں ان کے استعمال کی خواہش پیدا ہوتی ہے جس سے تنازع بڑھ جاتا ہے۔ انھوں نے کہا اگرچہ یہ بات ایک مفروضہ ہے مگر سرد جنگ کے دوران اپنے تیار کردہ ہتھیاروں کی وجہ سے امریکا اور سوویت یونین جوہری جنگ کے قریب آ گئے تھے۔
کنٹری مین نے کہا ہم پاکستان اور بھارت کے ساتھ اسی مسئلے پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکا پاک بھارت تعلقات کے معاملے میں جج کا کردار ادا نہیں کر سکتا کہ وہ تعاون کر رہے ہیں یا نہیں بلکہ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ دونوں کے مذاکرات کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس حوالے سے امریکا کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہونا چاہیے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کی اپنی سی پوری کوشش کرتا ہے مگر بھارت کسی نہ کسی بہانے پہلو تہی سے باز نہیں آتا اور اگر رضامند ہوتا بھی ہے تو پیشگی شرائط کے ساتھ جو پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتیں۔
پاکستان نے پٹھانکوٹ واقعہ کی تحقیقات کی فراغدلانا پیشکش کی مگر بھارت پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کی راہ میں خواہ مخواہ کی رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے جو پٹھانکوٹ پہنچی ہوئی ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بلوچستان سے بھارت کا ایک ہائی پروفائل جاسوس رنگے ہاتھوں پکڑا گیا جو پاکستان میں بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیوں میں ملوث تھا جس کا اس نے اعتراف بھی کیا ہے مگر بھارت ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے نان اسٹیٹ ایکٹر قرار دینے پر تلا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں امریکا کی یہ پالیسی کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ پر امن مذاکرات کی میز پر بیٹھے۔