انسانی حقوق کی پامالی کی تشویشناک صورتحال

2015ء میں پاکستان میں 18 خودکش حملے ہوئے اور دہشت گردی کے مجموعی واقعات کی تعداد 706 رہی


Editorial April 03, 2016
ملک میں شعبہ تعلیم اور صحت کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ازحد ضرورت ہے۔ فوٹو؛ فائل

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی جانب سے سال گزشتہ انسانی حقوق کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے اعداد و شمار نہ صرف ملک میں جاری پرتشدد واقعات کی نشاندہی کر رہے ہیں بلکہ اخلاقی اقدار کے انحطاط اور لاقانونیت کے بھی آئینہ دار ہیں۔

ایچ آر سی پی کی جانب سے منعقدہ تقریب میں گزشتہ برس انسانی حقوق کی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2015ء میں پرتشدد واقعات میں 4612 افراد ہلاک ہوئے۔ پاکستان جو گزشتہ دہائی سے امن و امان کی خراب صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، نائن الیون کے بعد دہشتگردوں سے نبرد آزما ہے، سال گزشتہ بھی دہشتگردانہ حملوں کا شکار رہا۔

2015ء میں پاکستان میں 18 خودکش حملے ہوئے، دہشتگردی کے مجموعی واقعات کی تعداد 706 رہی۔ صرف دہشتگردی کے واقعات میں 619 شہری اور سیکیورٹی فورسز کے 348 اہلکار نشانہ بنے، اس کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں، کارکنوں پر 41 حملوں میں 57 افراد ہلاک ہوئے، 4 صحافی بھی قتل ہوئے۔ بلاشبہ آپریشن ضرب عضب نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے لیکن ملک دشمن عناصر بوکھلاہٹ میں عوامی مقامات کو نشانہ بنا رہے ہیں جس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس فرقہ واریت کے 58 واقعات پیش آئے، جیلوں میں 65 قیدی ہلاک ہوئے جب کہ پولیس مقابلوں میں 2108 افراد ہلاک ہوئے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے 151 واقعات پیش آئے تاہم یہ واضح نہ ہو سکا کہ ان کی گمشدگی کب اور کیسے ہوئی؟ لاپتہ افراد کا معاملہ ریاست میں قانونی رٹ کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

ملک میں زیادتی کے بڑھتے واقعات اخلاقی زوال کے آئینہ دار ہیں، گزشتہ سال 1974 لڑکیوں اور 1794 لڑکوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ غیرت کے نام پر قتل کے 987 واقعات رپورٹ ہوئے۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل جیسے اقدام کی روک تھام کے لیے نہ صرف حکومت آگاہی مہم چلا رہی ہے لیکن جاگیردارانہ اور قبائلی کلچر اس مذموم عمل کے فروغ میں مہمیز کا کردار ادا کر رہا ہے۔

خواتین کے حقوق کا بل تو پاس ہو چکا ہے لیکن ملک میں خواتین کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک بھی تسلی بخش نہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک صورتحال شعبہ تعلیم کی ہے، 2015ء میں 25 ملین (2 کروڑ 50 لاکھ) بچے اسکول سے باہر رہے۔ ملک میں شعبہ تعلیم اور صحت کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ازحد ضرورت ہے، حکومتی پالیسیاں اس معاملے میں غیر تسلی بخش ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کے مندرجہ بالا اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے حکومت کو فوری لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تا کہ اگلے سال بہتر نتائج سامنے آ سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں