وہ بہادر تھے مگر ہارے ہوئے لشکر میں تھے
اس کالم کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کا وہ فائنل مقابلہ شروع ہو گا
اس کالم کی اشاعت کے چند گھنٹے بعد ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی کا وہ فائنل مقابلہ شروع ہو گا جسے بلاشبہ کروڑوں لوگ براہِ راست گراؤنڈ یا ٹی وی پر دیکھیں گے اور جس میں (ایشیا کپ سمیت) ناکامی اور متنازعہ کارکردگی کی وجہ سے آج کل ایک بار پھر ٹیم اور اس کی مینجمنٹ کا محاسبہ نما کورٹ مارشل یا پوسٹ مارٹم ہو رہا ہے۔ ان مقابلوں کے آغاز سے پہلے ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں پاکستان کا ساتواں نمبر تھا اور اب بھی ساتواں ہی ہے۔ یعنی بظاہر ہم سے نیچے والی تینوں ٹیموں کی کارکردگی بھی اپنے معیار پر قائم رہی ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہے۔
مقابلے میں شامل دسویں اور آخری ٹیم کو ایسوسی ایٹ ممبر ممالک کے درمیان ہونے والے ایک سخت ٹورنامنٹ میں سب کو شکست دے کر کوالیفائی کرنا تھا اور یہ معرکہ افغانستان کی ٹیم نے سر کیا۔ واضح رہے کہ یہ ملک کم و بیش آدھی صدی سے حالت جنگ میں ہے اور جہاں آج تک نہ تو کسی انٹرنیشنل ٹیم نے دورہ کیا ہے اور نہ ہی وہاں فرسٹ کلاس کرکٹ کی سطح کا کوئی نظام رائج ہے۔ یعنی ایک طرح سے یہ سب کلب کرکٹرز تھے جب کہ ان کے مقابلے میں بین الاقوامی معیار کی چند ٹیموں (آئرلینڈ۔ اسکاٹ لینڈ۔ یو اے ای۔ ہالینڈ) کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل زمبابوے کی ٹیم بھی تھی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2016ء میں ان کلب کرکٹرز کی مجموعی کارکردگی ورلڈ کپ کی دو فاتح ٹیموں یعنی پاکستان اور سری لنکا سے بھی بہت بہتر رہی ہے کہ جیتے تو وہ بھی چار میں سے ایک ہی میچ ہیں لیکن یہ فتح ویسٹ انڈیز کے خلاف تھی جو اس وقت فائنل کھیل رہی ہے۔ سیمی فائنل ہارنے والی دونوں ٹیموں بھارت اور نیوزی لینڈ سمیت دس میں سے آٹھ ٹیمیں اپنے ہاتھوں پر ہار کا داغ لے کر دوڑ سے باہر ہو چکی ہیں۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق آسٹریلیا، بھارت، ساؤتھ افریقہ اور نیوزی لینڈ کو سیمی فائنلز کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا جب کہ پانچ سے آٹھ نمبر پر انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، پاکستان اور سری لنکا تھے اور نویں دسویں پوزیشن کے لیے بنگلہ دیش اور افغانستان کا نام لیا جا رہا تھا۔ عملی طور پر پہلے گروپ کی دو ٹیموں یعنی آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقہ نے توقع سے کم اور دوسرے گروپ کی انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز نے توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب کہ افغانستان کی کارکردگی آخری چار ٹیموں میں سب سے بہتر اور غیر متوقع رہی۔
نیوزی لینڈ ٹیم اس بار بھی حسب معمول اور اپنی روایت کے مطابق سیمی فائنلز میں ہمت ہار گئی لیکن گروپ میچز میں اس کا ریکارڈ سب سے اچھا رہا کہ وہ واحد ٹیم تھی جس نے اپنے چاروں کے چاروں میچ جیتے۔ دوسری طرف بھارت نے بھی یہ پہلا میچ ہارنے کے بعد بہت ہمت دکھائی اور اگلے تینوں میچ جیت لیے اور امید کی جا رہی تھی کہ یہی دو ٹیمیں فائنل میں مدمقابل ہوں گی۔ اگرچہ انگلینڈ کی طرف سے جین روئے، مورگن، جورڈن، جوروٹ اور بٹلر اور ویسٹ انڈیز کی جانب سے گیل، چارلس، سمنز بدری اور آندرے رسل نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ہارنے والی ٹیموں کے کچھ کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی ان سے کم نہیں تھی اور وہ بجاطور پر ریاض مجید کے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
ان جانباز لیکن شکست خوردہ سپاہیوں میں اگرچہ اکثر نے صرف ایک یا دو میچوں میں ہی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مگر ان میں دو تین ایسے نام بھی ہیں جو ''پلیئر آف دی ٹورنامنٹ'' کے اعزاز کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیے جا سکتے تھے۔ مثال کے طور پر بھارت کے ویرات کوہلی اور نیوزی لینڈ کے مارٹن گپٹل کے نام فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ان سے کم تر سطح پر فائنل تک پہنچ سکنے والی ٹیموں کے جن کھلاڑیوں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
ان میں آسٹریلیا کے عثمان خواجہ، اسمتھ، میکسویل اور فالکنر، ساؤتھ افریقہ کے ڈی کاک، ہاشم آملہ، ڈوپلیسی اور عمران طاہر، بھارت کے یوراج، نہرا، دھونی اور ایشون، نیوزی لینڈ کے ولیمسن، اینڈرسن، سینٹز اور سوڈھی، پاکستان کے محمد عامر اور محمد حفیظ، سری لنکا کے دلشان اور چندی مل، بنگلہ دیش کے محمود اللہ اور تمیم اقبال اور افغانستان کے شہزاد، اصغر، سمیع اور محمد نبی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کہلانے کا حق دار اس وقت تک انگلینڈ کے جوئے روٹ اور بھارت کے ویرات کوہلی میں سے کسی ایک کو ہونا چاہیے۔
ہاں اگر فائنل میں سمنز اور گیل یا بٹلر اور جین روئے میں سے کوئی ایک بہت یادگار قسم کی اننگز کھیلی جائے تو اور بات ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کا فارمیٹ کچھ ایسا ہے کہ اس میں کسی بالر کا بہترین کھلاڑی ٹھہرنا ایک آدھ میچ کے لیے تو ممکن ہے مگر پورے ٹورنامنٹ میں غیر معمولی نوعیت کی کارکردگی کو قائم رکھنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔
اب آئیے اسی پس منظر میں ایک نظر اپنی ٹیم اور اس کی کارکردگی پر بھی ڈالتے ہیں ایک بات جس کا ڈھنڈورا بورڈ کے افسران بیشتر الیکٹرانک میڈیا کے اسپورٹس پروگراموں میں بہت پیٹا گیا یہ تھی کہ ہماری بیٹنگ میں تو کچھ مسائل ہیں لیکن ہماری بالنگ خصوصاً پیس اٹیک زبردست، بے مثال اور انتہائی طاقتور وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہے۔ جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ وسیم اور وقار کے بعد سے سوائے محمد عامر اور کسی حد تک عمرگل اور محمد آصف کے، ہم نے کوئی ایسا فاسٹ بالر پیدا کیا ہی نہیں جو تسلسل اور قوت کے ساتھ مخالف ٹیم کو آؤٹ کر سکنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
بدقسمتی سے ان میں سے دو جوئے اور ایک انجریز کی نذر ہو گیا۔ باقی رہے یہ وہاب ریاض، محمد عرفان، راحت علی، عمران خان، احسان عادل، سہیل خان، اعزاز چیمہ، تنویر احمد اور محمد سمیع جیسے ''خالی جگہ پُر کریں'' قسم کے باؤلرز تو ان میں سے کسی پر بھی سنجیدگی سے محنت نہیں کی گئی۔ ورنہ شاید ان میں سے دو چار کسی کام آ سکتے۔
میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ ہر بار آٹھ یا نو رنز فی اوور کی ایوریج دینے والے بالرز کی کارکردگی کو کپتان شاہد آفریدی نے کس طرح قابل تعریف اور لائق اطمینان قرار دیا۔ البتہ جہاں تک ہماری بیٹنگ کا تعلق ہے اس میں صرف دو ایسے بلے بازوں کی کمی ہے جو محدود اوورز کا میچ اس طرح سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جیسی ٹیسٹ کرکٹ میں یونس خان اور مصباح الحق رکھتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ 20 اوورز کے میچوں میں وہی ٹیمیں زیادہ کامیاب رہتی ہیں جن کے پہلے چار نمبروں کے کھلاڑی مسلسل اور تیز اسکور کرتے ہیں۔ موجودہ ٹیم میں اپنی تکنیک کی کچھ غلطیوں اور اوور ویٹ جسم کے باوجود صرف شرجیل خان ہی اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ احمد شہزاد، محمد حفیظ اور عمر اکمل تمام تر صلاحیت کے باوجود اوپر کے نمبروں پر اس طرح کی بیٹنگ نہیں کر پاتے جس کا ان سے تقاضا کیا جاتا ہے۔
اس طرح مڈل آرڈر میں سوائے سرفراز احمد کے کوئی بھی کھلاڑی تسلسل سے پرفارم نہیں کر رہا جب کہ لوئر آرڈر میں بھی اعلیٰ درجے کے آل راؤنڈرز، اسپنرز اور فاسٹ بالرز کی شدید کمی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نئے لڑکوں کو چانس دینے کی وجہ سے ہمارے بورڈ نے فواد عالم، بابراعظم، عماد وسیم، جنید خان اور اعزاز چیمہ کو کھیلنے کے اتنے مواقع نہیں دیے جن کے وہ حق دار تھے جب کہ شاید آفریدی سمیت وہاب ریاض، انور علی، محمد عرفان اور محمد سمیع کو ضرورت سے زیادہ ایکسپوزر دیا گیا ہے۔
یہاں اس بات سے اتفاق کیے بغیر بھی چارہ نہیں کہ ہمارے بورڈ کی پالیسیوں اور کرکٹ کے ڈھانچے میں بھی کچھ ایسی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے ورلڈ کلاس ٹیلنٹ نہ تو پیدا ہو رہا ہے اور نہ ہی سامنے آ رہا ہے۔ رہی سہی کسر اس گلی ڈنڈا نما ٹی ٹوئنٹی نے پوری کر دی ہے کہ جس میں کامیابی کے لیے آپ کو ایک سو دس 110% فیصد ٹیلنٹ اور فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے ٹیسٹ کرکٹ واحد فارمیٹ ہے جس میں ہماری کارکردگی نسبتاً بہتر ہے۔ مستقبل قریب یعنی انگلستان کے دورے کی حد تک تو ہمیں یونس خان اور مصباح الحق میسر ہوں گے مگر ان کے بعد کیا ہو گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر میں سرے سے کوئی ایسا بہادر سپاہی ہی نہ رہے جو ہار کو جیت میں بدل سکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
مقابلے میں شامل دسویں اور آخری ٹیم کو ایسوسی ایٹ ممبر ممالک کے درمیان ہونے والے ایک سخت ٹورنامنٹ میں سب کو شکست دے کر کوالیفائی کرنا تھا اور یہ معرکہ افغانستان کی ٹیم نے سر کیا۔ واضح رہے کہ یہ ملک کم و بیش آدھی صدی سے حالت جنگ میں ہے اور جہاں آج تک نہ تو کسی انٹرنیشنل ٹیم نے دورہ کیا ہے اور نہ ہی وہاں فرسٹ کلاس کرکٹ کی سطح کا کوئی نظام رائج ہے۔ یعنی ایک طرح سے یہ سب کلب کرکٹرز تھے جب کہ ان کے مقابلے میں بین الاقوامی معیار کی چند ٹیموں (آئرلینڈ۔ اسکاٹ لینڈ۔ یو اے ای۔ ہالینڈ) کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ اسٹیٹس کی حامل زمبابوے کی ٹیم بھی تھی۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2016ء میں ان کلب کرکٹرز کی مجموعی کارکردگی ورلڈ کپ کی دو فاتح ٹیموں یعنی پاکستان اور سری لنکا سے بھی بہت بہتر رہی ہے کہ جیتے تو وہ بھی چار میں سے ایک ہی میچ ہیں لیکن یہ فتح ویسٹ انڈیز کے خلاف تھی جو اس وقت فائنل کھیل رہی ہے۔ سیمی فائنل ہارنے والی دونوں ٹیموں بھارت اور نیوزی لینڈ سمیت دس میں سے آٹھ ٹیمیں اپنے ہاتھوں پر ہار کا داغ لے کر دوڑ سے باہر ہو چکی ہیں۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق آسٹریلیا، بھارت، ساؤتھ افریقہ اور نیوزی لینڈ کو سیمی فائنلز کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا جب کہ پانچ سے آٹھ نمبر پر انگلینڈ، ویسٹ انڈیز، پاکستان اور سری لنکا تھے اور نویں دسویں پوزیشن کے لیے بنگلہ دیش اور افغانستان کا نام لیا جا رہا تھا۔ عملی طور پر پہلے گروپ کی دو ٹیموں یعنی آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقہ نے توقع سے کم اور دوسرے گروپ کی انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز نے توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب کہ افغانستان کی کارکردگی آخری چار ٹیموں میں سب سے بہتر اور غیر متوقع رہی۔
نیوزی لینڈ ٹیم اس بار بھی حسب معمول اور اپنی روایت کے مطابق سیمی فائنلز میں ہمت ہار گئی لیکن گروپ میچز میں اس کا ریکارڈ سب سے اچھا رہا کہ وہ واحد ٹیم تھی جس نے اپنے چاروں کے چاروں میچ جیتے۔ دوسری طرف بھارت نے بھی یہ پہلا میچ ہارنے کے بعد بہت ہمت دکھائی اور اگلے تینوں میچ جیت لیے اور امید کی جا رہی تھی کہ یہی دو ٹیمیں فائنل میں مدمقابل ہوں گی۔ اگرچہ انگلینڈ کی طرف سے جین روئے، مورگن، جورڈن، جوروٹ اور بٹلر اور ویسٹ انڈیز کی جانب سے گیل، چارلس، سمنز بدری اور آندرے رسل نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے لیکن ہارنے والی ٹیموں کے کچھ کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی ان سے کم نہیں تھی اور وہ بجاطور پر ریاض مجید کے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
ان جانباز لیکن شکست خوردہ سپاہیوں میں اگرچہ اکثر نے صرف ایک یا دو میچوں میں ہی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ مگر ان میں دو تین ایسے نام بھی ہیں جو ''پلیئر آف دی ٹورنامنٹ'' کے اعزاز کے لیے بھی شارٹ لسٹ کیے جا سکتے تھے۔ مثال کے طور پر بھارت کے ویرات کوہلی اور نیوزی لینڈ کے مارٹن گپٹل کے نام فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ان سے کم تر سطح پر فائنل تک پہنچ سکنے والی ٹیموں کے جن کھلاڑیوں نے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
ان میں آسٹریلیا کے عثمان خواجہ، اسمتھ، میکسویل اور فالکنر، ساؤتھ افریقہ کے ڈی کاک، ہاشم آملہ، ڈوپلیسی اور عمران طاہر، بھارت کے یوراج، نہرا، دھونی اور ایشون، نیوزی لینڈ کے ولیمسن، اینڈرسن، سینٹز اور سوڈھی، پاکستان کے محمد عامر اور محمد حفیظ، سری لنکا کے دلشان اور چندی مل، بنگلہ دیش کے محمود اللہ اور تمیم اقبال اور افغانستان کے شہزاد، اصغر، سمیع اور محمد نبی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں ٹورنامنٹ کے بہترین کھلاڑی کہلانے کا حق دار اس وقت تک انگلینڈ کے جوئے روٹ اور بھارت کے ویرات کوہلی میں سے کسی ایک کو ہونا چاہیے۔
ہاں اگر فائنل میں سمنز اور گیل یا بٹلر اور جین روئے میں سے کوئی ایک بہت یادگار قسم کی اننگز کھیلی جائے تو اور بات ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کا فارمیٹ کچھ ایسا ہے کہ اس میں کسی بالر کا بہترین کھلاڑی ٹھہرنا ایک آدھ میچ کے لیے تو ممکن ہے مگر پورے ٹورنامنٹ میں غیر معمولی نوعیت کی کارکردگی کو قائم رکھنا تقریباً ناممکنات میں سے ہے۔
اب آئیے اسی پس منظر میں ایک نظر اپنی ٹیم اور اس کی کارکردگی پر بھی ڈالتے ہیں ایک بات جس کا ڈھنڈورا بورڈ کے افسران بیشتر الیکٹرانک میڈیا کے اسپورٹس پروگراموں میں بہت پیٹا گیا یہ تھی کہ ہماری بیٹنگ میں تو کچھ مسائل ہیں لیکن ہماری بالنگ خصوصاً پیس اٹیک زبردست، بے مثال اور انتہائی طاقتور وغیرہ وغیرہ وغیرہ ہے۔ جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ وسیم اور وقار کے بعد سے سوائے محمد عامر اور کسی حد تک عمرگل اور محمد آصف کے، ہم نے کوئی ایسا فاسٹ بالر پیدا کیا ہی نہیں جو تسلسل اور قوت کے ساتھ مخالف ٹیم کو آؤٹ کر سکنے کی اہلیت رکھتا ہو۔
بدقسمتی سے ان میں سے دو جوئے اور ایک انجریز کی نذر ہو گیا۔ باقی رہے یہ وہاب ریاض، محمد عرفان، راحت علی، عمران خان، احسان عادل، سہیل خان، اعزاز چیمہ، تنویر احمد اور محمد سمیع جیسے ''خالی جگہ پُر کریں'' قسم کے باؤلرز تو ان میں سے کسی پر بھی سنجیدگی سے محنت نہیں کی گئی۔ ورنہ شاید ان میں سے دو چار کسی کام آ سکتے۔
میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ ہر بار آٹھ یا نو رنز فی اوور کی ایوریج دینے والے بالرز کی کارکردگی کو کپتان شاہد آفریدی نے کس طرح قابل تعریف اور لائق اطمینان قرار دیا۔ البتہ جہاں تک ہماری بیٹنگ کا تعلق ہے اس میں صرف دو ایسے بلے بازوں کی کمی ہے جو محدود اوورز کا میچ اس طرح سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جیسی ٹیسٹ کرکٹ میں یونس خان اور مصباح الحق رکھتے ہیں۔
ہم نے دیکھا کہ 20 اوورز کے میچوں میں وہی ٹیمیں زیادہ کامیاب رہتی ہیں جن کے پہلے چار نمبروں کے کھلاڑی مسلسل اور تیز اسکور کرتے ہیں۔ موجودہ ٹیم میں اپنی تکنیک کی کچھ غلطیوں اور اوور ویٹ جسم کے باوجود صرف شرجیل خان ہی اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ احمد شہزاد، محمد حفیظ اور عمر اکمل تمام تر صلاحیت کے باوجود اوپر کے نمبروں پر اس طرح کی بیٹنگ نہیں کر پاتے جس کا ان سے تقاضا کیا جاتا ہے۔
اس طرح مڈل آرڈر میں سوائے سرفراز احمد کے کوئی بھی کھلاڑی تسلسل سے پرفارم نہیں کر رہا جب کہ لوئر آرڈر میں بھی اعلیٰ درجے کے آل راؤنڈرز، اسپنرز اور فاسٹ بالرز کی شدید کمی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نئے لڑکوں کو چانس دینے کی وجہ سے ہمارے بورڈ نے فواد عالم، بابراعظم، عماد وسیم، جنید خان اور اعزاز چیمہ کو کھیلنے کے اتنے مواقع نہیں دیے جن کے وہ حق دار تھے جب کہ شاید آفریدی سمیت وہاب ریاض، انور علی، محمد عرفان اور محمد سمیع کو ضرورت سے زیادہ ایکسپوزر دیا گیا ہے۔
یہاں اس بات سے اتفاق کیے بغیر بھی چارہ نہیں کہ ہمارے بورڈ کی پالیسیوں اور کرکٹ کے ڈھانچے میں بھی کچھ ایسی خرابیاں ہیں جن کی وجہ سے ورلڈ کلاس ٹیلنٹ نہ تو پیدا ہو رہا ہے اور نہ ہی سامنے آ رہا ہے۔ رہی سہی کسر اس گلی ڈنڈا نما ٹی ٹوئنٹی نے پوری کر دی ہے کہ جس میں کامیابی کے لیے آپ کو ایک سو دس 110% فیصد ٹیلنٹ اور فٹنس کی ضرورت ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے ٹیسٹ کرکٹ واحد فارمیٹ ہے جس میں ہماری کارکردگی نسبتاً بہتر ہے۔ مستقبل قریب یعنی انگلستان کے دورے کی حد تک تو ہمیں یونس خان اور مصباح الحق میسر ہوں گے مگر ان کے بعد کیا ہو گا؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ لشکر میں سرے سے کوئی ایسا بہادر سپاہی ہی نہ رہے جو ہار کو جیت میں بدل سکنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔