کج کرو سرکار
’’کوئی ایک مسئلہ ہو تو بتاؤں سرکار!!!‘‘ اس نے سسکی لی، ’’ میں تو بیاہ کر مسائل کے نرغے میں پھنس گئی ہوں
''مائی باپ... میرے سرکار... کج کرو!! '' اپنے بھاری جثے کے ساتھ جب اس نے پیر صاحب کے سامنے گھٹنے ٹیکے تو وہ ان کی گود کے عین سامنے لگ بھگ سجدے میں ہی چلی گئی تھی اور اب اسے اپنا وزن سنبھال کر واپس اٹھنا مشکل ہو رہا تھا، پیر صاحب اسے بھی عقیدت کا ایک انداز ہی سمجھے تھے اور اس کے سر پر انھوں نے دست '' شفقت '' رکھا۔
''کیا مسئلہ ہے مائی تیرا؟ '' انھوں نے دبدبے سے پوچھا تو وہ کانپنے لگی۔
''کوئی ایک مسئلہ ہو تو بتاؤں سرکار!!!'' اس نے سسکی لی، '' میں تو بیاہ کر مسائل کے نرغے میں پھنس گئی ہوں، میری مرحومہ ماں، اللہ اسے جنت نصیب کرے، کہا کرتی تھی کہ سسرال تو نام ہی پھندے کا ہے، جس میں انسان ایک دفعہ پھنس جائے تو بے بس ہو جاتا ہے، نہ اندر رہ کر مطمین اور نہ باہر نکلنے کی کوئی صورت ''
''ہوں ... '' پیر صاحب نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا، سوچا کہ اسے پھندے سے نکلنے کا مشورہ دیں کہ نہیں، انھیں اس میں عدم دلچسپی ہوئی، ''تیری ماں نے کیوں پھنسایا تجھے پھندے میں، اگر وہ کہتی تھی کہ سسرال نام ہی پھندے کا ہے؟ ''
'' بس سرکار، مجھ نمانی کی قسمت جو ماٹھی تھی!! '' اس نے اپنی مظلومیت کا رونا رویا، '' جانے کن کنگلوں سے واسطہ پڑ گیا ہے ''
اپنے جثے سے تو وہ قطعی کنگلوں کے گھر رہنے والی نہیں لگ رہی تھی، کھا کھا کر چربی کی تہوں میں چھپا ہوا بدن اور جسم کے ظاہری حصوں میں گوشت کی تہیں!! انھیں سمجھ میں نہ آیا کہ کیا چاہتی تھی وہ۔'' کیاچاہتی ہو مائی! اپنا اور میرا وقت ضایع نہ کرو، باہر ایک نظر دیدار کرنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور تم اپنی کہانی لے کر بیٹھ گئی ہو!! '' انھوں نے اسے ڈانٹا مگر اسے ان کی ڈانٹ بھی بری نہ لگی، '' کیا مسئلہ اہم ہے جس کے لیے دعا کروانے کو آئی ہو؟''
''کیا کیا بتاؤں سرکار! سو ساسوں کے برابر ایک ساس ہے، شوہر ہے تو اس کا غصہ ناک پر دھرا رہتا ہے، بھائی کی اولاد نہ ہونے کے باعث میری نندیں اس کی دوسری شادی کروانے کو تلی ہوئی ہیں، جانے کب میری ساس مرے گی اور گھر کا نظام میرے ہاتھ میں آئے گا، ابھی تک تو میرا میاں جو کماتا ہے لا کر ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے، مجھے پائی پائی کے لیے ساس کی محتاجی ہے، دو کنواری نندیں ہیں جو میرے سینے پرمونگ دلنے کو بیٹھی ہوئی ہیں!! '' پیر صاحب نے پھر کن انکھیوں سے اس کے بیان کی تصدیق کرنا چاہی مگر انھیں کوئی مونگ دلتا ہوا نظر نہ آیا تھا، '' کوئی تعویذ دیں سرکار، کوئی دعا کریں میرے حق میں، کوئی حل بتائیں کہ کیا کروں ؟؟ خود زہر کھا لوں یا ان سب لوگوں کو کھانے میںزہر ملا کر دے دوں جنھوں نے میری زندگی کو اجیرن بنایا ہوا ہے؟ ''
تمہیں ان سب مسائل میں سے کون سا مسئلہ سب سے زیادہ تنگ کرتا ہے؟ '' پیر صاحب کو اس کے معاملے سے ذرا سی دلچسپی پیدا ہوئی تھی، یوں تو جتنی نفسیات وہ جانتے تھے اس کے مطابق انھیں علم تھا کہ اس ملک کی ہر عورت کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے، چونکہ ان کی کل معلومات کا دائرہ اسی ملک تک محدود تھا اس لیے انھیں علم نہ تھا کہ دنیا کی ہر عورت کو اپنی سسرال میں اسی نوعیت کے مسائل درپیش ہوتے ہیں ،کوئی اپنے حال میں مطمئن نہیں ہوتی، نہ ہی کوئی سسرال والے اپنی بہو سے مطمئن ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے کئی رشتے اور ماں باپ کا گھر چھوڑ کر آتی ہے تو اسے نئے گھر میں رویوں کی سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ سنبھل ہی نہیں پاتی اور پے در پے اس پر ایسے وار ہوتے ہیں کہ وہ سسرال کو اپنے دشمنوں کی سر زمین سمجھ لیتی ہے۔
''ساس '' اس نے فوراً کہا، '' وہ سارے فساد کی جڑ ہے، اس کا دل ہی نہیں چاہتا کہ اپنی سلطنت میں کسی کی شراکت برداشت کرے، مجھے بیاہ کر تو خود اپنی پسند سے لائی مگر پہلے دن سے اسے مجھ میں اتبی برائیاں نظر آنے لگیں اور پھر وہ میری ایک بات کی چار چار بنا کر میرے شوہر کو شکایتیں لگاتی ہے، جو سنتا بعد میں ہے اور دھنتا پہلے!!''
''تو کیا علاج کیا جائے تمہاری ساس کا ؟ '' پیر صاحب نے اس سے پوچھا۔
''ساس... میرا خیال ہے پیر صاحب کہ دل کی ایسی بری نہیں ہے، اصل میں اسے شہ ہے اپنی بیاہی اور کنواری بیٹیوں کی، اگر وہ اسے بات بے بات منفی مشورے نہ دیں تو شاید!!!'' اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، '' مگر بزرگ عورت ہے، بیمار بھی رہتی ہے، چار دن اور جی لے گی، اس کے بعد بھی نندیں تو کئی سال تک میرے خلاف محاذ کھولے رکھنے والی ہیں ، میرا خیال ہے کہ آپ میری ساس کو رہنے دیں، میری چاروں نندوں کا کچھ کریں جناب، ایسا کہ وہ پانی تک نہ مانگ سکیں!''
''کیا تم چاہتی ہو کہ میں کچھ ایسا کروں کہ تمہاری نندیں مر جائیں؟ '' پیر صاحب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے، کوئی عورت اپنے جیسی دوسری عورت کی ایسی دشمن ہو سکتی ہے، انھیں بھی معلوم تھا کہ مرد سے زیادہ عورت کا استحصال عورت ہی کرتی ہے۔
''نہیں نہیں سرکار!!! '' وہ فوراً بولی، '' کج کرو سرکار، کج وی کرو، مگر جو بھی ہو میرا دامن صاف رہے، کسی کو علم نہ ہو کہ میں نے آپ سے کوئی عمل کروایا ہے، بس وہ چاروں کی چاروں !!''
''تو تم چاہتی ہو کہ ان کے دل تمہاری طرف سے نرم ہو جائیں ؟ '' پیر صاحب کو کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا تھا، دو بن بیاہی نندیں گھر میں کام کار تو کرتی ہی ہوں گی یا اس کا ہاتھ بٹاتی ہوں گی تو وہ کب چاہے گی کہ اس کی معاون نندیں مر جائیں، اور جو دو بیاہی ہوئی تھیں وہ کون سا ہمہ وقت اس کے ہاں رہتی تھیں۔
''سرکار، میرا اصل قصور وار تو وہ ہے جس کے ساتھ نکاح کے بول پڑھ کر میں اس گھر میں آئی تھی، میری شکایت پر تو اس نے کبھی کسی کو تیکھی نظر سے بھی نہیں دیکھا اور ان کی شکایت پر وہ فوراً مجھے مارنے کو لپکتا ہے، بہنیں اسے کہتی ہیں کہ اولاد کی خاطر دوسری شادی کر لو تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر اللہ نے اس کے نصیب میں اولاد لکھی ہے تو مجھ سے ہی ہو جائے گی، فوراً میسنا گھنا بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کی بہنیں ان لڑکیوں کے نام گنوانے لگتی ہیں جو ہماری شادی سے قبل بھی اس پر مرتی تھیں اور اب بھی اس کا نام سن کر ٹھنڈی آہیں بھرتی ہیں اور اس عمر کے دوہاجو سے بیاہ کرنے کو تڑپ رہی ہیں!!'' اس نے اپنے شوہر کا شکوہ کیا۔
''سمجھ گیا '' پیر صاحب نے سر ہلایا، '' تم چاہتی ہو کہ میں کچھ ایسا عمل کروں کہ اس سارے فساد کی جڑ، جو کہ بقول تمہارے، تمہارا شوہر ہے، وہ نہ رہے؟ ''
''ارے نہیں نہیں '' اس نے فوراً پیر صاحب کے گھٹنے پکڑے، '' ایسا نہ کریں سرکار، میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی، اسے کچھ نہ ہو!! ''
''حیرت ہے، اسے سارے فساد کی جڑ کہہ رہی ہو، بتا بھی رہی ہو کہ وہ تمہیں وقت بے وقت اور سب کے سامنے ذلیل بھی کرتا ہے، مار کٹائی بھی کرتا ہے، دوسری شادی کرنے پر بھی تلا ہوا ہے، نہ تمہیں اخراجات کے لیے رقم دیتا ہے نہ بیوی ہونے کا مان اور عزت... ان سب مسائل کی وجہ وہی ہے اور تم مسائل سے چھٹکارا چاہتی ہو تو تمہیں اپنے شوہر سے ہی چھٹکارا چاہیے نا؟ ''
''نہیں میری سرکار '' اس نے ہاتھ باندھے، '' میں ایسا ہر گز نہیں چاہتی!!''
''تم مجھے کوئی پاگل لگتی ہو، اگر تم اسے پسند نہیں کرتیں اور تم بھی اسے پسند نہیں ہو تو... '' پیر صاحب کافی غصے میں آ گئے تھے۔
''نہیں سرکار، مائی باپ!! وہ اپنی بیوہ ماں کا بڑھاپے کا اکلوتا سہارا ہے ، چار بہنوں کا اکلوتا بھائی، ان کے میکے کا مان، مرد ذات ہے ، کبھی کسی کے کہنے میں غصے میں آ جاتا ہے، مار کٹائی کر لیتا ہے مگر جب اس کا مزاج اچھا ہو تو مجھ سے ہنس کر پیار سے بات کر لیتا ہے، چلیں، میرے نصیب میں اگر اولاد نہیں اور اس کی خاطر وہ دوسری شادی کر لیتا ہے تو مجھے کون سا چھوڑ رہا ہے وہ! میں اس کی ماں کی خدمت کر کے آخرت کے لیے اجر کما لوں گی اور دوسری سے جو بچے ہوں گے... وہ بھی تو میرے شوہر کے ہی ہوں گے نا، جو میری نصف ذات کو مکمل کرتا ہے، اس کے بچے آدھے اس کی بیوی کے اور آدھے اس کے ہوں گے اور میں اسے اس ادھورے پن کی تکمیل کی خاطر قبول کر لوں گی، برداشت بھی کر لوں گی، اس معاشرے میں اکیلی عورت کا کیا وجود، کیا مستقبل اور کیا تحفظ؟ بیوہ اور مطلقہ، دونوں ہی یہاں تر نوالے سمجھی جاتی ہیں ، جنھیں کھانے کو ہر کوئی دانت تیز کیے بیٹھا ہوتا ہے، زیادہ کٹ گئی ہے، تھوڑی رہ گئی ہے وہ بھی جی لوں گی جیسی بھی نصیب میں ہے!!!'' اس نے اپنی چادر کے پلو سے لال رنگ کے دو نوٹ کھول کر پیر صاحب کے قدموں کے سامنے ڈھیر میںشامل کر دیے اور انھیںسلام کر کے روانہ ہوئی۔
پیر صاحب اسے جاتے ہوئے دیکھ کر پریشان تھے، وہ براؤن نہ سہی تو کم از کم تین نیلے نوٹ تو اس سے نکلوا ہی لیتے...وہ تذبذب میں تھے بلکہ اچھے خاصے پریشان تھے کہ اگر اس طرح دل کا غبار نکال کر، کسی سے کہہ سن کر عورتوں کو خود ہی عقل آنا شروع ہو گئی تو ان کے کاروبار کا کیا ہو گا! نہ صرف وہ، بلکہ ان کا چیلا بھی وہی سوچ رہا تھا اور اسے بھی تشویش تھی کہ اسی کاروبار سے اس کا روزگار وابستہ تھا۔
''کج کرو سرکار!'' چیلے نے پیر صاحب کے کان کے پاس کہہ کر انھیں چونکا دیا۔
''کیا مسئلہ ہے مائی تیرا؟ '' انھوں نے دبدبے سے پوچھا تو وہ کانپنے لگی۔
''کوئی ایک مسئلہ ہو تو بتاؤں سرکار!!!'' اس نے سسکی لی، '' میں تو بیاہ کر مسائل کے نرغے میں پھنس گئی ہوں، میری مرحومہ ماں، اللہ اسے جنت نصیب کرے، کہا کرتی تھی کہ سسرال تو نام ہی پھندے کا ہے، جس میں انسان ایک دفعہ پھنس جائے تو بے بس ہو جاتا ہے، نہ اندر رہ کر مطمین اور نہ باہر نکلنے کی کوئی صورت ''
''ہوں ... '' پیر صاحب نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا، سوچا کہ اسے پھندے سے نکلنے کا مشورہ دیں کہ نہیں، انھیں اس میں عدم دلچسپی ہوئی، ''تیری ماں نے کیوں پھنسایا تجھے پھندے میں، اگر وہ کہتی تھی کہ سسرال نام ہی پھندے کا ہے؟ ''
'' بس سرکار، مجھ نمانی کی قسمت جو ماٹھی تھی!! '' اس نے اپنی مظلومیت کا رونا رویا، '' جانے کن کنگلوں سے واسطہ پڑ گیا ہے ''
اپنے جثے سے تو وہ قطعی کنگلوں کے گھر رہنے والی نہیں لگ رہی تھی، کھا کھا کر چربی کی تہوں میں چھپا ہوا بدن اور جسم کے ظاہری حصوں میں گوشت کی تہیں!! انھیں سمجھ میں نہ آیا کہ کیا چاہتی تھی وہ۔'' کیاچاہتی ہو مائی! اپنا اور میرا وقت ضایع نہ کرو، باہر ایک نظر دیدار کرنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور تم اپنی کہانی لے کر بیٹھ گئی ہو!! '' انھوں نے اسے ڈانٹا مگر اسے ان کی ڈانٹ بھی بری نہ لگی، '' کیا مسئلہ اہم ہے جس کے لیے دعا کروانے کو آئی ہو؟''
''کیا کیا بتاؤں سرکار! سو ساسوں کے برابر ایک ساس ہے، شوہر ہے تو اس کا غصہ ناک پر دھرا رہتا ہے، بھائی کی اولاد نہ ہونے کے باعث میری نندیں اس کی دوسری شادی کروانے کو تلی ہوئی ہیں، جانے کب میری ساس مرے گی اور گھر کا نظام میرے ہاتھ میں آئے گا، ابھی تک تو میرا میاں جو کماتا ہے لا کر ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے، مجھے پائی پائی کے لیے ساس کی محتاجی ہے، دو کنواری نندیں ہیں جو میرے سینے پرمونگ دلنے کو بیٹھی ہوئی ہیں!! '' پیر صاحب نے پھر کن انکھیوں سے اس کے بیان کی تصدیق کرنا چاہی مگر انھیں کوئی مونگ دلتا ہوا نظر نہ آیا تھا، '' کوئی تعویذ دیں سرکار، کوئی دعا کریں میرے حق میں، کوئی حل بتائیں کہ کیا کروں ؟؟ خود زہر کھا لوں یا ان سب لوگوں کو کھانے میںزہر ملا کر دے دوں جنھوں نے میری زندگی کو اجیرن بنایا ہوا ہے؟ ''
تمہیں ان سب مسائل میں سے کون سا مسئلہ سب سے زیادہ تنگ کرتا ہے؟ '' پیر صاحب کو اس کے معاملے سے ذرا سی دلچسپی پیدا ہوئی تھی، یوں تو جتنی نفسیات وہ جانتے تھے اس کے مطابق انھیں علم تھا کہ اس ملک کی ہر عورت کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے، چونکہ ان کی کل معلومات کا دائرہ اسی ملک تک محدود تھا اس لیے انھیں علم نہ تھا کہ دنیا کی ہر عورت کو اپنی سسرال میں اسی نوعیت کے مسائل درپیش ہوتے ہیں ،کوئی اپنے حال میں مطمئن نہیں ہوتی، نہ ہی کوئی سسرال والے اپنی بہو سے مطمئن ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے کئی رشتے اور ماں باپ کا گھر چھوڑ کر آتی ہے تو اسے نئے گھر میں رویوں کی سختی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ سنبھل ہی نہیں پاتی اور پے در پے اس پر ایسے وار ہوتے ہیں کہ وہ سسرال کو اپنے دشمنوں کی سر زمین سمجھ لیتی ہے۔
''ساس '' اس نے فوراً کہا، '' وہ سارے فساد کی جڑ ہے، اس کا دل ہی نہیں چاہتا کہ اپنی سلطنت میں کسی کی شراکت برداشت کرے، مجھے بیاہ کر تو خود اپنی پسند سے لائی مگر پہلے دن سے اسے مجھ میں اتبی برائیاں نظر آنے لگیں اور پھر وہ میری ایک بات کی چار چار بنا کر میرے شوہر کو شکایتیں لگاتی ہے، جو سنتا بعد میں ہے اور دھنتا پہلے!!''
''تو کیا علاج کیا جائے تمہاری ساس کا ؟ '' پیر صاحب نے اس سے پوچھا۔
''ساس... میرا خیال ہے پیر صاحب کہ دل کی ایسی بری نہیں ہے، اصل میں اسے شہ ہے اپنی بیاہی اور کنواری بیٹیوں کی، اگر وہ اسے بات بے بات منفی مشورے نہ دیں تو شاید!!!'' اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، '' مگر بزرگ عورت ہے، بیمار بھی رہتی ہے، چار دن اور جی لے گی، اس کے بعد بھی نندیں تو کئی سال تک میرے خلاف محاذ کھولے رکھنے والی ہیں ، میرا خیال ہے کہ آپ میری ساس کو رہنے دیں، میری چاروں نندوں کا کچھ کریں جناب، ایسا کہ وہ پانی تک نہ مانگ سکیں!''
''کیا تم چاہتی ہو کہ میں کچھ ایسا کروں کہ تمہاری نندیں مر جائیں؟ '' پیر صاحب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے، کوئی عورت اپنے جیسی دوسری عورت کی ایسی دشمن ہو سکتی ہے، انھیں بھی معلوم تھا کہ مرد سے زیادہ عورت کا استحصال عورت ہی کرتی ہے۔
''نہیں نہیں سرکار!!! '' وہ فوراً بولی، '' کج کرو سرکار، کج وی کرو، مگر جو بھی ہو میرا دامن صاف رہے، کسی کو علم نہ ہو کہ میں نے آپ سے کوئی عمل کروایا ہے، بس وہ چاروں کی چاروں !!''
''تو تم چاہتی ہو کہ ان کے دل تمہاری طرف سے نرم ہو جائیں ؟ '' پیر صاحب کو کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگا تھا، دو بن بیاہی نندیں گھر میں کام کار تو کرتی ہی ہوں گی یا اس کا ہاتھ بٹاتی ہوں گی تو وہ کب چاہے گی کہ اس کی معاون نندیں مر جائیں، اور جو دو بیاہی ہوئی تھیں وہ کون سا ہمہ وقت اس کے ہاں رہتی تھیں۔
''سرکار، میرا اصل قصور وار تو وہ ہے جس کے ساتھ نکاح کے بول پڑھ کر میں اس گھر میں آئی تھی، میری شکایت پر تو اس نے کبھی کسی کو تیکھی نظر سے بھی نہیں دیکھا اور ان کی شکایت پر وہ فوراً مجھے مارنے کو لپکتا ہے، بہنیں اسے کہتی ہیں کہ اولاد کی خاطر دوسری شادی کر لو تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر اللہ نے اس کے نصیب میں اولاد لکھی ہے تو مجھ سے ہی ہو جائے گی، فوراً میسنا گھنا بن کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کی بہنیں ان لڑکیوں کے نام گنوانے لگتی ہیں جو ہماری شادی سے قبل بھی اس پر مرتی تھیں اور اب بھی اس کا نام سن کر ٹھنڈی آہیں بھرتی ہیں اور اس عمر کے دوہاجو سے بیاہ کرنے کو تڑپ رہی ہیں!!'' اس نے اپنے شوہر کا شکوہ کیا۔
''سمجھ گیا '' پیر صاحب نے سر ہلایا، '' تم چاہتی ہو کہ میں کچھ ایسا عمل کروں کہ اس سارے فساد کی جڑ، جو کہ بقول تمہارے، تمہارا شوہر ہے، وہ نہ رہے؟ ''
''ارے نہیں نہیں '' اس نے فوراً پیر صاحب کے گھٹنے پکڑے، '' ایسا نہ کریں سرکار، میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی، اسے کچھ نہ ہو!! ''
''حیرت ہے، اسے سارے فساد کی جڑ کہہ رہی ہو، بتا بھی رہی ہو کہ وہ تمہیں وقت بے وقت اور سب کے سامنے ذلیل بھی کرتا ہے، مار کٹائی بھی کرتا ہے، دوسری شادی کرنے پر بھی تلا ہوا ہے، نہ تمہیں اخراجات کے لیے رقم دیتا ہے نہ بیوی ہونے کا مان اور عزت... ان سب مسائل کی وجہ وہی ہے اور تم مسائل سے چھٹکارا چاہتی ہو تو تمہیں اپنے شوہر سے ہی چھٹکارا چاہیے نا؟ ''
''نہیں میری سرکار '' اس نے ہاتھ باندھے، '' میں ایسا ہر گز نہیں چاہتی!!''
''تم مجھے کوئی پاگل لگتی ہو، اگر تم اسے پسند نہیں کرتیں اور تم بھی اسے پسند نہیں ہو تو... '' پیر صاحب کافی غصے میں آ گئے تھے۔
''نہیں سرکار، مائی باپ!! وہ اپنی بیوہ ماں کا بڑھاپے کا اکلوتا سہارا ہے ، چار بہنوں کا اکلوتا بھائی، ان کے میکے کا مان، مرد ذات ہے ، کبھی کسی کے کہنے میں غصے میں آ جاتا ہے، مار کٹائی کر لیتا ہے مگر جب اس کا مزاج اچھا ہو تو مجھ سے ہنس کر پیار سے بات کر لیتا ہے، چلیں، میرے نصیب میں اگر اولاد نہیں اور اس کی خاطر وہ دوسری شادی کر لیتا ہے تو مجھے کون سا چھوڑ رہا ہے وہ! میں اس کی ماں کی خدمت کر کے آخرت کے لیے اجر کما لوں گی اور دوسری سے جو بچے ہوں گے... وہ بھی تو میرے شوہر کے ہی ہوں گے نا، جو میری نصف ذات کو مکمل کرتا ہے، اس کے بچے آدھے اس کی بیوی کے اور آدھے اس کے ہوں گے اور میں اسے اس ادھورے پن کی تکمیل کی خاطر قبول کر لوں گی، برداشت بھی کر لوں گی، اس معاشرے میں اکیلی عورت کا کیا وجود، کیا مستقبل اور کیا تحفظ؟ بیوہ اور مطلقہ، دونوں ہی یہاں تر نوالے سمجھی جاتی ہیں ، جنھیں کھانے کو ہر کوئی دانت تیز کیے بیٹھا ہوتا ہے، زیادہ کٹ گئی ہے، تھوڑی رہ گئی ہے وہ بھی جی لوں گی جیسی بھی نصیب میں ہے!!!'' اس نے اپنی چادر کے پلو سے لال رنگ کے دو نوٹ کھول کر پیر صاحب کے قدموں کے سامنے ڈھیر میںشامل کر دیے اور انھیںسلام کر کے روانہ ہوئی۔
پیر صاحب اسے جاتے ہوئے دیکھ کر پریشان تھے، وہ براؤن نہ سہی تو کم از کم تین نیلے نوٹ تو اس سے نکلوا ہی لیتے...وہ تذبذب میں تھے بلکہ اچھے خاصے پریشان تھے کہ اگر اس طرح دل کا غبار نکال کر، کسی سے کہہ سن کر عورتوں کو خود ہی عقل آنا شروع ہو گئی تو ان کے کاروبار کا کیا ہو گا! نہ صرف وہ، بلکہ ان کا چیلا بھی وہی سوچ رہا تھا اور اسے بھی تشویش تھی کہ اسی کاروبار سے اس کا روزگار وابستہ تھا۔
''کج کرو سرکار!'' چیلے نے پیر صاحب کے کان کے پاس کہہ کر انھیں چونکا دیا۔