وفا ہے نام کس کا

اگر کسی کے ساتھ وفا کرنی ہو تو ساحل پر لگی گھاس کی طرح کرو


Shehla Aijaz April 03, 2016
[email protected]

شاہ عبداللطیف بھٹائی کہتے ہیں ''اگر کسی کے ساتھ وفا کرنی ہو تو ساحل پر لگی گھاس کی طرح کرو، جب بھی کوئی ڈوبتے ہوئے اس کا سہارا لے تو وہ اس کو بچا لیتی ہے یا خود بھی کنارا چھوڑ کر ساتھ ڈوب جاتی ہے۔''

اس دور میں وفا کا مفہوم بدل گیا ہے ۔ وفا سے مراد ہے جوطاقتور ہے اس کی واہ واہ اور جوکمزور ہے اس سے راستہ بدل لینا۔اس واہ واہ کے چکر میں ہم سب بہت آگے نکل چکے ہیں، اتنے آگے کہ بس اب اس کے آگے کچھ بھی نہیں کہتے ہیں کہ دنیا کے دوکنارے ہیں اور ان کے آگے۔ بس کچھ ایسا ہی ہے ان کے آگے یا تو صرف خون جما دینے والی سردی یا پھر رات تو صرف رات ہی رات اور صبح تو بس صبح ہی صبح۔ نہ میں نہ تُو۔ نہ لڑائی نہ جھگڑا۔ بس واہ واہ۔

ہم کس حد تک وفادار ہیں، تھے اورآگے کی کیا کہیے کہ امید ہمیشہ اچھے کی ہی رکھنی چاہیے بس اسی پر زندہ ہیں پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک کس نے کتنی وفاداری اس سرزمین سے نبھائی اس کو کون تولنے والا ہے کون سرزنش کرنے والا ہے کہ بس واہ واہ کی جے جے کاری سننے کو ملتی ہے ایک بڑا دلچسپ اور سچا واقعہ ہے پاکستان بننے کے بعد مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا لوگ اپنے وطن میں آنے کے لیے بے قرار ہی نہ تھے پریشان بھی تھے کہ حالات بہت خطرناک تھے کب بلوائیوں کی جانب سے حملہ ہوجائے۔

اس آمدورفت کے سلسلے میں بہت سے کیمپ ہندوستان میں بھی بنائے گئے تھے۔ کیونکہ بہت سی آبادیاں بلوائیوں کے ہاتھوں برباد ہوگئی تھیں لوگ اپنی جانیں بچا کر کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور تھے یہ سلسلہ کئی مہینوں پر میحط رہا تھا۔ اسی طرح کا ایک ریلیف کیمپ حصار میں بھی قائم تھا، وہاں کا ڈپٹی کمشنر مسلمان تھا صرف یہی نہیں وہاں کئی اچھے عہدوں کے افسر بھی مسلمان تھے۔

کیمپ میں مسلح مسلمانوں کو خوف تھا کہ کہیں بلوائی ان پر حملہ نہ کردیں وہ ایک وفد بناکر اس ڈپٹی کمشنر کے دفتر گئے اور انھیں سکھوں اور ہندوؤں کے ظلم و ستم بتائے وہاں کی سکھ ہندو پولیس بھی بلوائیوں کی مدد کرتے اور مسلمانوں کو اندھا دھند گولیاں مار کر ہلاک کرتے، اس وقت جب متاثرین کا وفد کمشنر کے پاس گیا اس وقت وہاں کانگریس اور جن سنگھ کے کئی لیڈران بیٹھے تھے اس نے مسلمان وفد کی باتیں سنیں اور ہندو اور سکھ لیڈران کو خوش کرنے کے لیے وفد کو غصے سے گھور کر منہ بگاڑ کر کہا کہ تم نے پاکستان مانگا تھا اس کی خاطر مسلم لیگ کو الیکشن میں ووٹ دے کر کامیاب بنایا اب پاکستان بن گیا ہے جاؤ، اپنے پاکستان۔ یہاں کیوں کھڑے ہو؟

کمشنر موصوف نے صرف اتنا ہی نہیں الٹا انھیں دھکمیاں دیں۔ غالباً محترم کا خیال ہوگا کہ اس طرح اپنے ہی بھائیوں کی تذلیل کرکے اس کے عہدے میں ترقی ہوجائے گی اس کے نمبر بڑھ جائیں گے۔کچھ تو ہوگا۔ جالندھر کا رہنے والا وہ آئی سی ایس پھر بھی ان کی نظروں میں نہ جچ سکا۔ حصار سے وہ دہلی گئے اور اپنے اہل و عیال اور سازو سامان کے ساتھ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر پاکستان آئے یہاں وہ ترقی کرتے کرتے نجانے کیا کچھ بنتے گئے۔

بات ہے پھر وفا کی۔ تمام پلاننگ، سازشیں سب ناکام ہوجاتے ہیں بات صرف آزمائش کی ہوتی ہے۔ پاکستان آکر بھی انھیں عزت ہی ملنا تھی لیکن جس تلخی اور بے وفائی کے زہرکو انھوں نے نجانے کتنے دلوں میں پرویا اس کو کون نکال سکتا ہے۔ جنھیں خوش کرنے، مکھن بازی کے لیے تحفے تحائف، اقربا پروری، کرپشن، حق کی ناقدری لوگ کرتے چلے جاتے ہیں اس کے صلے میں جیبیں تو لبالب بھر جاتی ہیں پر دونوں ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں۔جون ایلیا کا مشہور شعر ہے،

وفا، اخلاص، قربانی، محبت
اب ان لفظوں کا چرچا کیوں کریں ہم

بہرحال ہمارے ملک میں بہت سی پرانی چھٹیاں ختم کردی گئیں۔ بہت اچھی بات ہے اس طرح ورکنگ ڈیز میں اضافہ ہوسکتا ہے مجھے یاد ہے جب چھوٹی تھی تو ہماری ایک استانی صاحبہ جنھیں پڑھانے سے عشق تھا (خدا انھیں اس کا اجر دے) دو مہینوں کی گرمی کی چھٹیاں اور سردی کی مختصر چھٹیوں سے بہت چڑتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا بس چلے تو میں ساری چھٹیاں ختم کردوں بس ہفتے کی ایک چھٹی ہی کافی ہے، اس طرح بچوں کی پڑھائی کا حرج ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کی یوم اقبال کی چھٹی بھی اس میں شامل تھی یقینا وہ بہت خوش ہوئی ہوں گی اور اب تو بہت اہم دنوں کی چھٹیاں بھی بند کردی گئی ہیں۔

ویسے بھی ہمارے شہر میں تو آئے دن ٹرانسپورٹ کی ہڑتال، تیری ہڑتال، میری ہڑتال، ہم سب کی ہڑتال، انجانے کی ہڑتال، بیگانے کی ہڑتال کے سلسلے میں یوں ہی چھٹیاں ہوتی رہتی ہیں لہٰذا بات کچھ سمجھ میں آتی ہے۔ اسی درمیان ایک نئی چھٹی نظر آتی ہے۔ ہولی کی چھٹی۔ باقاعدہ بل پاس ہونے کے بعد یہ چھٹی ہوئی۔ اس منفرد چھٹی کے لیے اس دن باقاعدہ ٹی وی پر خاص نشریات ہونی چاہئیں تاکہ ہمارے بچوں اور آیندہ آنے والی نسلوں میں اس دن کی اہمیت اجاگر ہو۔ فیس بک پر اچھے بھلے مانس بھی رنگوں میں ڈوبے نظر آئے ہمارے تمام معزز وزرا کو بھی اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ اس قسم کی رنگین تقریبات میں حصہ لے کر ان سے اظہار یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

زمانہ طالب علمی میں جب ہم اس قسم کے علامہ اقبال کے غیرت و حمیت سے بھرپور اشعار کی تشریح کیا کرتے تھے تو کاپیوں کے صفحے بھر جاتے تھے۔ چلیں آج کل کے طالب علم بہت سی دشواریوں نما خوب صورتی سے بچ گئے۔ مزے مزے کے رنگوں بھرے نئے نئے فنکشنز نئے نئے رجحانات کہ شاید یہ بھی ہماری قوم کے لیے کوئی آزمائش ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں