اسٹیٹ بینک نے بھی پاکستان اسٹیل فروخت کرنے کی حمایت کردی
بیل آؤٹ پیکیجزکے باوجودانتظامی ومالی رکاوٹیں اسٹیل ملزکی خودکفالت میں حائل ہیں جس سے سپلائی چین متاثر ہورہی ہے،رپورٹ
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی اربوں روپے خسارے سے دوچار پاکستان اسٹیل کی نجکاری کی حمایت کردی ہے۔
مرکزی بینک نے اپنی دوسری سہ ماہی معاشی جائزہ رپورٹ میں فولاد سازی کے شعبے کے بارے میں خصوصی مضمون کے ذریعے معاشی ترقی بالخصوص انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے فولاد سازی کے شعبے کو اہم قرار دیتے ہوئے طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔مرکزی بینک کے مطابق فرسودہ ٹیکنالوجی کے باوجود پاکستان اسٹیل ملز ابھی تک سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتی ہے تاہم اربوں روپے کے بیل آؤٹ پیکیجز کے باوجود مستقل انتظامی اور مالی رکاوٹیں اسے خود کفالت کی منزل سے دور رکھے ہوئے ہیں۔
مرکزی بینک کے مطابق پاکستان اسٹیل کی سست کارکردگی اسٹیل سیکٹر کی پوری سپلائی چین پر اثر انداز ہورہی ہے، اس لیے پاکستان اسٹیل کی نجکاری اس کی کارکردگی کو بحال کرنے میں پائیدار بنیادوں پر مددگار ہوگی اور اس کا باقی کی سپلائی چین پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان فی کس کھپت کے لحاظ سے دنیا کے بیشتر ملکوں سے بہت پیچھے ہے، اسٹیل کی کھپت کا عالمی اوسط 216.9کلو گرام ہے، ایشیائی خطے میں یہ تناسب 261.3کلو گرام ہے، بھارت میں یہ تناسب 58.6کلو گرام تاہم پاکستان میں اب تک اسٹیل کی کھپت 23.5کلو گرام تک محدود ہے۔
پاکستان میں فولاد کی صنعت چھوٹے چھوٹے پلانٹس پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر قدیم ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں، فرسودہ ٹیکنالوجی اور توانائی کے ضیاع کی وجہ سے بلند لاگت کا سامنا ہے، اس لیے پاکستانی صنعت بھارت اور چین کی سستی درمدآت کا مقابلہ نہیں کرپاتیں جہاں تیار کنندگان کو تیاری کے مستعد طریقوں کے فوائد حاصل ہیں، بجلی کی کمی بھی مقامی صنعت کے لیے کڑا چیلنج ہے، اس کے علاوہ بجلی کی قیمت بھی بہت زائد ہے، اس کے ساتھ سستی درآمدات سے بھی مقابلے کا چیلنج درپیش ہے، پاکستان میں بڑے پیمانے پر فولاد تیار کرنے والے نجی تیار کنندگاہ موجود ہیں تاہم انہیں اپنے عمل کو روانی سے چلانے کے لیے مناسب پالیسی اعانت کی ضرورت ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق چین پاکستان راہداری کے تحت جاری سرکاری ترقیاتی رقوم اور انفرااسٹرکچر منصوبے کے آغاز کی وجہ سے آنے والے برسوں میں فولاد کی کھپت میں اضافہ ہونے کا امکان ہے، اگر مقامی پیداوار اور سرمایہ کاری ملک میں اپنی رفتار کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی تو اضافی فولاد کی طلب پوری کرنے کے لیے درآمد پر انحصار سے ملکی ادائیگیوں کے توازن پر بوجھ کا سامنا ہوگا۔
مرکزی بینک نے اپنی دوسری سہ ماہی معاشی جائزہ رپورٹ میں فولاد سازی کے شعبے کے بارے میں خصوصی مضمون کے ذریعے معاشی ترقی بالخصوص انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے فولاد سازی کے شعبے کو اہم قرار دیتے ہوئے طویل مدتی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔مرکزی بینک کے مطابق فرسودہ ٹیکنالوجی کے باوجود پاکستان اسٹیل ملز ابھی تک سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت رکھتی ہے تاہم اربوں روپے کے بیل آؤٹ پیکیجز کے باوجود مستقل انتظامی اور مالی رکاوٹیں اسے خود کفالت کی منزل سے دور رکھے ہوئے ہیں۔
مرکزی بینک کے مطابق پاکستان اسٹیل کی سست کارکردگی اسٹیل سیکٹر کی پوری سپلائی چین پر اثر انداز ہورہی ہے، اس لیے پاکستان اسٹیل کی نجکاری اس کی کارکردگی کو بحال کرنے میں پائیدار بنیادوں پر مددگار ہوگی اور اس کا باقی کی سپلائی چین پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان فی کس کھپت کے لحاظ سے دنیا کے بیشتر ملکوں سے بہت پیچھے ہے، اسٹیل کی کھپت کا عالمی اوسط 216.9کلو گرام ہے، ایشیائی خطے میں یہ تناسب 261.3کلو گرام ہے، بھارت میں یہ تناسب 58.6کلو گرام تاہم پاکستان میں اب تک اسٹیل کی کھپت 23.5کلو گرام تک محدود ہے۔
پاکستان میں فولاد کی صنعت چھوٹے چھوٹے پلانٹس پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر قدیم ٹیکنالوجی استعمال کررہے ہیں، فرسودہ ٹیکنالوجی اور توانائی کے ضیاع کی وجہ سے بلند لاگت کا سامنا ہے، اس لیے پاکستانی صنعت بھارت اور چین کی سستی درمدآت کا مقابلہ نہیں کرپاتیں جہاں تیار کنندگان کو تیاری کے مستعد طریقوں کے فوائد حاصل ہیں، بجلی کی کمی بھی مقامی صنعت کے لیے کڑا چیلنج ہے، اس کے علاوہ بجلی کی قیمت بھی بہت زائد ہے، اس کے ساتھ سستی درآمدات سے بھی مقابلے کا چیلنج درپیش ہے، پاکستان میں بڑے پیمانے پر فولاد تیار کرنے والے نجی تیار کنندگاہ موجود ہیں تاہم انہیں اپنے عمل کو روانی سے چلانے کے لیے مناسب پالیسی اعانت کی ضرورت ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق چین پاکستان راہداری کے تحت جاری سرکاری ترقیاتی رقوم اور انفرااسٹرکچر منصوبے کے آغاز کی وجہ سے آنے والے برسوں میں فولاد کی کھپت میں اضافہ ہونے کا امکان ہے، اگر مقامی پیداوار اور سرمایہ کاری ملک میں اپنی رفتار کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی تو اضافی فولاد کی طلب پوری کرنے کے لیے درآمد پر انحصار سے ملکی ادائیگیوں کے توازن پر بوجھ کا سامنا ہوگا۔