کیا ہماری درس گاہیں نیا شعور پیدا کر رہی ہیں
رائے عامہ یا سیاست کو یونیورسٹی کا رہنما اصول نہیں بننے دینا چاہیے
(قاضی جاوید پاکستان کے نامور دانش ور ہیں،کئی گراں قدر کتابوں کے مصنف ہیں۔زیرِ نظر اقتباس ان کی کتاب ''خاموش اکثریت کا احتجاج '' میں شامل مضمون 'یونیورسٹی اور معاشرہ' سے لیا گیا۔گو کہ یہ مضمون کئی برس پہلے لکھا گیا مگر ہماری یونیورسٹیوں کی موجودہ حالت زارکا بہتر انداز میں تجزیہ کرتا ہے۔)
یہ دفاعی سازوسامان، تیل یا سرمایہ نہیں جسے کے لیے ہم مکمل طور پر دوسروں کے محتاج ہیں۔ یہ علم کا میدان ہے جس میں ہم دوسروں کی مدد کے بغیر اب ایک قدم بھی اٹھانے کے اہل نہیں رہے۔ صرف جدید علوم کی بات نہیں۔ ہمیں تو اپنے بارے میں یہ جاننے کے لیے بھی دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اپنی تاریخ، تہذیب، معیشت، سیاست اور یہاں کے مذہب کے متعلق معیاری معلومات اور تجزیے حاصل کرنے کے لیے ہمیں یورپی، امریکی اور روسی ماہرین اور ان کی تحقیقات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ گویا ہم نے ایسا معاشرہ تخلیق کیا ہے جس میں علم کی تخلیق دم توڑ چکی ہے۔ وہ سچائیوں کے لیے دوسروں کا محتاج ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا معاشرہ روحانی طور پر بانجھ ،تہذیبی اعتبار سے بنجر اور اخلاقی لحاظ سے مردہ معاشرہ ہوتا ہے۔
میں اس تلخ تجربے کے لیے معذرت پیش نہیں کروں گا کہ اس کی تلخی نے صداقت سے جنم لیا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ معاشی، سیاسی اور تہذیبی استحکام کے لیے قوموں کو علوم و فنون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یونیورسٹیاں اس ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔ لہٰذا وقتاً فوقتاً ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے بارے میں عمومی تاثر مایوس کن ہے اور ان کا سرسری تذکرہ بھی امید کی کرن سے محروم ہوتا ہے۔ یہ بات کم و بیش طے شدہ ہے کہ ہماری تہذیبی نشوونما کے سلسلے میں یونیورسٹیاں خوفناک کوتاہیوں کی مرتکب ہوئی ہیں۔ ہمارے رہن سہن اور فکر و نظر کے انداز میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مادی اور تہذیبی حالات بدل رہے ہیں لیکن یونیورسٹیاں جامد و ساکت ہیں۔ گویا وہ زندگی سے محروم ہیں۔
اگر ہم نے دوسروں سے حاصل ہونے والے علم پر گزارہ کرنا ہے تو پھر ہمیں دوسرے درجے کی قوم بن کر رہنا ہوگا۔ لہٰذا جدید دنیا میں ہمارے مقدر کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں اپنے فرائض سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہیں۔ غالباً ہماری یونیورسٹیاں اخلاقی جواز سے محروم ہوچکی ہیں۔ قوم نے ان کے سبب علم و دانش میں ایمان اور اہل علم کی دیانتداری اور حب الوطنی میں اعتماد کھو دیا ہے۔ چنانچہ ادیب اشفاق احمد سے لیکر صدر مملکت جنرل ضیاء الحق تک یہ چرچا کرچکے ہیںکہ اس ملک کی خرابی میں پڑھے لکھے لوگوں نے سب سے زیادہ حصہ لیا ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ عوام کو کسی یونیورسٹی کے بارے میں یہ خوش فہمی نہیں رہی کہ وہ ان کے قومی وجود کا حصہ ہے۔ ان کے مسائل سمجھتی ہے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے پاکستان ایسی سماجی اور مادی تبدیلیوں کی زد میں ہے جن کی مثال اس کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس تیز رو تغیر تبدل کے باعث ایک طبقے میں خوشحالی بڑھ رہی ہے۔ اس کے معیار زندگی کا گراف تیزی سے اوپر کی طرف جارہا ہے جبکہ دوسرے طبقوں کی محرومیوں اور دکھوں میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ مجموعی طور پر معاشرہ بے چینی، کرب اور مایوسی کا شکار ہے۔ دوسری طرف سرکاری حلقوں میں منصوبہ بندی کا احساس بڑھ رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے ہوئے وسائل اس احساس کی شدت تیز کررہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا مطالعہ کرناخ ان کے اسباب و اثرات کا تجزیہ کرنا، منصوبہ بندی کے رہنما اصولوں اور مقاصد کا تعین کرنا نیم خواندہ اور جذباتی سیاست دانوں کے بس کا روگ نہیں۔ یہ کام صرف یونیورسٹیاں سرانجام دے سکتی ہیں۔ اب ہماری یونیورسٹیاں نو آبادیاتی حکمرانوں کی آلۂ کار نہیں کہ ان کے طے کردہ مقاصد کے لیے کام کریں۔ انہیں لازمی طور پر قومی مقاصد طے کرنے ہوں گے۔ معاشرے کی علمی، ذہنی اور فنی ضروریات پوری کرنی ہوں گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں قومی یک جہتی کے لیے فکری و علمی بنیاد فراہم کرنا ہوگی۔
قومی زندگی میں ان کی افادیت اور وقار کا دارومدار انہی باتوں پر ہے۔ لہٰذا ان کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ وہ کس حد تک اپنے آپ کو قومی صورت حال سے ہم آہنگ کرتی ہیں اوہر ایسے علماء و ماہرین پیدا کرتی ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ معاشرے کے پسندیدہ تعصبات، جذبات پرستی، نعرہ بازی اور غیر معقول رویوں سے ہٹ کر معقول فہم و فراست کے اہل ہیں۔ اعلیٰ کردار، خود دار، روشن خیال اور جدید شعور سے لیس ہیں۔
یونیورسٹی کے قیام کے تین بڑے مقاصد ہوتے ہیں
-1 کاروان تہذیب کو رواں دواں رکھنے کی خاطر نوجوانوں کو اعلیٰ مہارت اور علم کا فراہم کرنا۔ وائٹ ہیڈ کے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ یونیورسٹی حال اور مستقبل کو متحد کرکے علم اور زندگی کی لگن برقرار رکھتی ہے۔ یہ فرض جو وہ درس و تدریس کے ذریعے ادا کرتی ہے کسی جدید یونیورسٹی کا کمترین فرض ہوتا ہے۔
-2 زیادہ اہم مقصد یہ ہے کہ یونیورسٹی علم کی حفاظت کرتی ہے اور اس کی ترقی میں حصہ لیتی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے یونیورسٹی تحقیق کے وسائل، موزوں ماحول اور دیگر لوازمات فراہم کرتی ہے۔
-3 قومی تعمیر نومیں یونیورسٹی اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ وہ جدید علوم و دانش کو معاشرے میں فروغ دیتی ہے تاکہ لوگ اپنے مسائل حل کرنے میں لکیر کے فقیر نہ رہیں۔ ان کے سامنے مسائل کے نئے حل آئیں اور وہ ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح یونیورسٹی سماجی خدمت کے مختلف وسیلوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مادی اور تہذیبی اعتبار سے معاشرے کے معیار زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ عوام کی ذہنی زندگی کو جلا بخشتی ہے اور انہیںا علیٰ ثقافت عطا کرتی ہے۔
سیاسی بحرانوں، معاشی مسئلوں اور نفسیاتی الجھنوں کے مارے ہوئے ہمارے معاشرے میں یہ بات پسندیدہ نہیں کہ یونیورسٹیاں درس و تدریس کے روایتی فرائض تک خود کو محدود رکھیں۔ (اب تو وہ یہ کام بھی مناسب طور پر نہیں کرسکتیں۔ تدریسی شعبوں کا نظم و ضبط قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ کوئی یونیورسٹی مقررہ وقت پر امتحان لینے کے اہل بھی نہیںرہی۔) وہ محض معلومات اوردرآمدہ علم فراہم کرنے کا ادارہ بن کر نہیں رہ سکتیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ تحقیق و تجزیے کی اہمیت تسلیم کریں۔ پسماندہ معاشرے میں یونیورسٹی کی ذمہ داری یہ ہے کہ و عوام کی مختلف طبقوں کی تہذیب و تربیت میں وسیع پیمانے حصہ لے۔ بندخول میں پڑے رہنے سے ایسی معاشرتی قوتوں کو فروغ حاصل ہوگا جن سے خود یونیورسٹی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔ ہمارے ہاں ایسے حالات پہلے ہی پیدا ہوچکے ہیں۔ لہٰذا ہماری یونیورسٹیوں کو نہ صرف اپنے وقار کی بحالی بلکہ اپنے وجود کی حفاظت کے لیے بھی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ دیگر قومی اداروں کی طرح یونیورسٹیوں پر بھی خارجی دباؤ بہت زیادہ ہے۔ معاشرے کی پسماندہ قوتیں ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں جن میں تحقیق و تجزیہ اور سچائی کی اشاعت خطرناک مہم بن گئی ہے۔ تاہم یونیورسٹیوں نے بھی ان حالات کے پیدا ہونے میں حصہ لیا۔ نیا شعور پیدا کرنے کے بجائے انہوں نے خاموشی سے معاشرتی دباؤ کے آگے سرجھکا دیا ہے تو اس کی وجہ محض وسائل کی کمی نہیں بلکہ اخلاقی جرأت کا مکمل فقدان ہے۔
عوامی اعتماد حاصل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یونیورسٹیاں رائے عامہ کے آگے جھک جائیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ ہجوم کی تربیت کریں اور اعلیٰ تہذیبی و مادی اقدار کے لیے کشش پیدا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کے زوال میں رائے عامہ اور عوامی تنقید کے خوف نے نمایاں حصہ لیا ہے۔ دنیا کے ایک تہائی حصے پر مشتمل اشتراکی معاشرے میں یونیورسٹیوں کا آزادانہ کردار فنا ہوچکا ہے۔
وہ ریاستی نظریے کو فکری و عملی مواد عطا کرنے کے سرکاری ادارے بن چکی ہیں۔ جمہوری ممالک میں رائے عامہ انہیں تباہ کرنے پر تلی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں علما و فضلا اور ماہرین جاہل ہجوم کے ہاتھوں میں اپنی نکیل دیتے جارہے ہیں۔ فہم و دانش کو جہالت اور تعصبات کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں ایک طرف معاشرے کا بہتر طبقہ خراب ہورہا ہے اور دوسری طرف ہجوم تہذیبی پیش رفت کے مواقع کھورہا ہے۔ روشنی کے چراغ بڑھتے ہوئے اندھیرے کی نذر ہورہے ہیں۔
بلاشبہ یونیورسٹی قوم کے روبرو جوابدہ ہوتی ہے لیکن اس جملے کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹی لوگوں کو مطمئن کرے کہ وہ ان کی فلاح و بہبود میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہے۔ شاید یہ بات عجب دکھائی دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب یونیورسٹی دانش اور سچائی کے نام پر ہجوم کے پیچھے چلنے سے انکار کرتی ہے یا ریاستی دباؤ کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو محض اپنے جواز کی حفاظت نہیں کرتی بلکہ ابتداء میں لعن طعن کا نشانہ بننے کے باوجود لوگوں کا اعتماد حاصل کرلیتی ہے۔ اس کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ سب لوگ اس کا احترام کرنے لگتے ہیں۔ ضروری بات یہ ہے کہ لوگوں کو یہ احساس ہوکہ یونیورسٹی کسی مفاد کا شکار نہیں بلکہ سچائی کی علمبردار ہے۔ کسی گروہ کی آلۂ کار نہیں۔ حق کی متلاشی ہے، یہ احساس اس وقت پیدا ہوسکتا ہے کہ جبیونیورسٹی نظریاتی وابستگیوں سے ماورا ہو۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آزاد دنیا کی یونیورسٹیاں دائیں اور بائیں بازو کے انتہا پسندوںکے مرکز بن چکی ہیں۔ ان کے استاد درس و تحقیق کے فرائض نظر انداز کرکے آئیڈیالوجی کے نام پر فسطائیت کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ خود ہماری یونیورسٹیوں میں بھی حالات زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ رائے عامہ کے بعد آئیڈیالوجی ہی وہ روگ ہے جو یونیورسٹی کی روح کو مسخ کردیتا ہے۔
اکثر صورتوں میں یہ دونوں عوعامل باہم گھل مل جاتے ہیں کیونکہ رائے عامہ عموماً منظم ہوکر آئیڈیالوجی بن جاتی ہے اور علمی و تہذیبی آزادی کا خاتمہ کردیتی ہے۔ مزید برآں یہ آئیڈیالوجی ہی ہے جسے ہاتھیار بناکر ہل اقتدار یونیورسٹی کو اپنی پسندیدہ روش پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہمیں یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یونیورسٹی عوامی امنگوں کی ترجمان نہیں ہوتی بلکہ ان کی نقاد ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ حکومت کے مفادات کا آلۂ کار نہیں ہوتی بلکہ ان کا بے لاگ تجزیہ کرنے کا ادارہ ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ یونیورسٹی معاشرے کا ضمیر ہوتی ہے۔
آمریت ہمیشہ آئیڈیالوجی کا سہارا لیتی ہے۔ یہ بات صرف اشتراکی ممالک کی حد تک درست نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہر جگہ یہی روایت ہے۔ اسی طرح آمریت کسی طور یونیورسٹی کی آزاد نشوونما کا موقع نہیں دے سکتی۔ کیونکہ اس میں ایسے لوگوں کے موجود ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جو موچی دروازے کے شوروغوغا سے نکل کر کسی تجربہ گاہ یا کتب خانے میں جابیٹھیں گے اور ان مفروضات کا سنجیدگی سے تجزیہ کریں گے جن پر حاکموں اور ان ان کے حواریوں کے قول و فعل کا انحصار ہے۔
اس ناگوار صورتحال سے محفوظ رہنے کے لیے پوری دنیا میں مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کے ذریعے یونیورسٹی کی آزادی ختم کی جاتی ہے۔ اسے ریاستی آئیڈیالوجی کا دفاعی مرکز بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں ذہنی، روحانی اور اخلاقی اعتبار سے مفلوج لوگوں کو جمع کردیا جاتا ہے۔ آپ ان یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری کے عملی طریقے پر ذرا توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ یہ معزز استاد اسی طرح بھرتی کیے جاتے ہیں جس طرح اے جی آفس میں کلرک رکھے جاتے ہیں۔ خیر میں اے جی آفس کے کلرکوں کا احترام کم کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔ تاہم ان کے چناؤ اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے تقرر میں کوئی فرق تو ہونا چاہیے۔ فرق کی بنیاد یہ ہے کہ یونیورسٹی کے استاد کو اکیسویں صدی کا انسان ہونا چاہیے۔ یعنی وہ اپنے عہد سے آگے سوچنے کا اہل ہو۔
بہرطور اگر یونیورسٹی نے معاشرے میں تخلیقی کردار ادا کرنا ہے اور عوام کے رومانوی خوابوں، جذباتی نعروں، طفلانہ خواہشوں اور حکومت کے مفاداتی پراپیگنڈے سے ہٹ کر نیکی سچائی اورحسن کو فروغ دینا ہے تو اسے آئیڈیالوجی سے بالاتر ہوناچاہیے۔ اس راہ پر چل کر ہی یونیورسٹی معاشرے اور انسانیت کی بہترین خدمت کرسکتی ہے۔ سچائی تخلیق کرسکتی ہے اور اس کی حفاظت کرسکتی ہے۔ اس طرح فسطائیت کی راہ روک سکتی ہے۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اشتراکی ممالک کی طرح ہماری یونیورسٹیوں کو محض باہر سے خطرہ لاحق نہیں۔ خطرے کی گھنٹیاں ان کے اندر بج رہی ہیں۔ یہ خطرہ یونیورسٹی اساتذہ کی سیاست بازی سے پیدا ہوا ہے۔ دائیں اور بائیں کی آویزش نے ان معزز اداروں کو مضحکہ خیز اکھاڑے بنادیا ہے۔ یہ امر یونیورسٹی اساتذہ کے شایان شان نہیں کیونکہ اس طرح وہ مقام سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مزیدبراں انہیں کوئی علمی آزادی حاصل ہو تو اسے روند ڈالتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں مملکت کا ڈھانچہ فی الحال اس قدر مستحکم نہیں کہ وہ علمی سرگرمیوں کو پوری طرح گرفت میں لے کر انہیں حسب منشا ڈھال سکے، جب اساتذہ سیاست کو اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں تو گویا وہ خودکشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ایک امریکی مبصر کے بقول جب اہل علم سرکاری دباؤ کا مقابلہ کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ہیرو بنتے کا موقع کھودیتے ہیں لیکن جب وہ جان بوجھ کر آزادی کو بے معنی بناتے ہیں تو لازماً گناہ گار بن جاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ سیاسی وابستگی سے نہ صرف یونیورسٹی اپنے جواز سے محروم ہوجاتی ہے بلکہ معاشرہ بھی گھاٹے میں رہتا ہے۔ کیونکہ اس طرح صداقت کی تخلیق اور علم کی نشوونما رک جاتی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والے مادی، تہذیبی اور روحانی فوائد کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ سچائیوں کے فروغ سے ہی معاشرے کی آخر کار بہترین خدمت ہوتی ہے۔ جس بات کو عوام اور سیاست دان معاشرے کے لیے اچھا سمجھتے ہیں وہ ضروری نہیں کہ درست بھی ہو۔ اس کے برعکس جو کچھ سچ ہے وہ لازماً معاشرے کے حق میں بہتر ثابت ہوگا۔ لہٰذا رائے عامہ یا سیاست کو یونیورسٹی کا رہنما اصول نہیں بننے دینا چاہیے۔ کیونکہ تلاش حق، جو یونیورسٹی کا رہنما اصول ہے وہ لوگوں کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔
یہ دفاعی سازوسامان، تیل یا سرمایہ نہیں جسے کے لیے ہم مکمل طور پر دوسروں کے محتاج ہیں۔ یہ علم کا میدان ہے جس میں ہم دوسروں کی مدد کے بغیر اب ایک قدم بھی اٹھانے کے اہل نہیں رہے۔ صرف جدید علوم کی بات نہیں۔ ہمیں تو اپنے بارے میں یہ جاننے کے لیے بھی دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ اپنی تاریخ، تہذیب، معیشت، سیاست اور یہاں کے مذہب کے متعلق معیاری معلومات اور تجزیے حاصل کرنے کے لیے ہمیں یورپی، امریکی اور روسی ماہرین اور ان کی تحقیقات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ گویا ہم نے ایسا معاشرہ تخلیق کیا ہے جس میں علم کی تخلیق دم توڑ چکی ہے۔ وہ سچائیوں کے لیے دوسروں کا محتاج ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا معاشرہ روحانی طور پر بانجھ ،تہذیبی اعتبار سے بنجر اور اخلاقی لحاظ سے مردہ معاشرہ ہوتا ہے۔
میں اس تلخ تجربے کے لیے معذرت پیش نہیں کروں گا کہ اس کی تلخی نے صداقت سے جنم لیا ہے۔ البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ معاشی، سیاسی اور تہذیبی استحکام کے لیے قوموں کو علوم و فنون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یونیورسٹیاں اس ضرورت کو پورا کرتی ہیں۔ لہٰذا وقتاً فوقتاً ان کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے بارے میں عمومی تاثر مایوس کن ہے اور ان کا سرسری تذکرہ بھی امید کی کرن سے محروم ہوتا ہے۔ یہ بات کم و بیش طے شدہ ہے کہ ہماری تہذیبی نشوونما کے سلسلے میں یونیورسٹیاں خوفناک کوتاہیوں کی مرتکب ہوئی ہیں۔ ہمارے رہن سہن اور فکر و نظر کے انداز میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ مادی اور تہذیبی حالات بدل رہے ہیں لیکن یونیورسٹیاں جامد و ساکت ہیں۔ گویا وہ زندگی سے محروم ہیں۔
اگر ہم نے دوسروں سے حاصل ہونے والے علم پر گزارہ کرنا ہے تو پھر ہمیں دوسرے درجے کی قوم بن کر رہنا ہوگا۔ لہٰذا جدید دنیا میں ہمارے مقدر کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں اپنے فرائض سے کس طرح عہدہ برآ ہوتی ہیں۔ غالباً ہماری یونیورسٹیاں اخلاقی جواز سے محروم ہوچکی ہیں۔ قوم نے ان کے سبب علم و دانش میں ایمان اور اہل علم کی دیانتداری اور حب الوطنی میں اعتماد کھو دیا ہے۔ چنانچہ ادیب اشفاق احمد سے لیکر صدر مملکت جنرل ضیاء الحق تک یہ چرچا کرچکے ہیںکہ اس ملک کی خرابی میں پڑھے لکھے لوگوں نے سب سے زیادہ حصہ لیا ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ عوام کو کسی یونیورسٹی کے بارے میں یہ خوش فہمی نہیں رہی کہ وہ ان کے قومی وجود کا حصہ ہے۔ ان کے مسائل سمجھتی ہے اور انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ترقی پذیر ملک کی حیثیت سے پاکستان ایسی سماجی اور مادی تبدیلیوں کی زد میں ہے جن کی مثال اس کی پانچ ہزار سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس تیز رو تغیر تبدل کے باعث ایک طبقے میں خوشحالی بڑھ رہی ہے۔ اس کے معیار زندگی کا گراف تیزی سے اوپر کی طرف جارہا ہے جبکہ دوسرے طبقوں کی محرومیوں اور دکھوں میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ مجموعی طور پر معاشرہ بے چینی، کرب اور مایوسی کا شکار ہے۔ دوسری طرف سرکاری حلقوں میں منصوبہ بندی کا احساس بڑھ رہا ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے ہوئے وسائل اس احساس کی شدت تیز کررہے ہیں۔ ان تبدیلیوں کا مطالعہ کرناخ ان کے اسباب و اثرات کا تجزیہ کرنا، منصوبہ بندی کے رہنما اصولوں اور مقاصد کا تعین کرنا نیم خواندہ اور جذباتی سیاست دانوں کے بس کا روگ نہیں۔ یہ کام صرف یونیورسٹیاں سرانجام دے سکتی ہیں۔ اب ہماری یونیورسٹیاں نو آبادیاتی حکمرانوں کی آلۂ کار نہیں کہ ان کے طے کردہ مقاصد کے لیے کام کریں۔ انہیں لازمی طور پر قومی مقاصد طے کرنے ہوں گے۔ معاشرے کی علمی، ذہنی اور فنی ضروریات پوری کرنی ہوں گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں قومی یک جہتی کے لیے فکری و علمی بنیاد فراہم کرنا ہوگی۔
قومی زندگی میں ان کی افادیت اور وقار کا دارومدار انہی باتوں پر ہے۔ لہٰذا ان کی کامیابی کا معیار یہ ہے کہ وہ کس حد تک اپنے آپ کو قومی صورت حال سے ہم آہنگ کرتی ہیں اوہر ایسے علماء و ماہرین پیدا کرتی ہیں جو اپنے اپنے شعبوں میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ معاشرے کے پسندیدہ تعصبات، جذبات پرستی، نعرہ بازی اور غیر معقول رویوں سے ہٹ کر معقول فہم و فراست کے اہل ہیں۔ اعلیٰ کردار، خود دار، روشن خیال اور جدید شعور سے لیس ہیں۔
یونیورسٹی کے قیام کے تین بڑے مقاصد ہوتے ہیں
-1 کاروان تہذیب کو رواں دواں رکھنے کی خاطر نوجوانوں کو اعلیٰ مہارت اور علم کا فراہم کرنا۔ وائٹ ہیڈ کے الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ یونیورسٹی حال اور مستقبل کو متحد کرکے علم اور زندگی کی لگن برقرار رکھتی ہے۔ یہ فرض جو وہ درس و تدریس کے ذریعے ادا کرتی ہے کسی جدید یونیورسٹی کا کمترین فرض ہوتا ہے۔
-2 زیادہ اہم مقصد یہ ہے کہ یونیورسٹی علم کی حفاظت کرتی ہے اور اس کی ترقی میں حصہ لیتی ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے یونیورسٹی تحقیق کے وسائل، موزوں ماحول اور دیگر لوازمات فراہم کرتی ہے۔
-3 قومی تعمیر نومیں یونیورسٹی اہم وسیلہ ہوتی ہے۔ وہ جدید علوم و دانش کو معاشرے میں فروغ دیتی ہے تاکہ لوگ اپنے مسائل حل کرنے میں لکیر کے فقیر نہ رہیں۔ ان کے سامنے مسائل کے نئے حل آئیں اور وہ ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ اس طرح یونیورسٹی سماجی خدمت کے مختلف وسیلوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مادی اور تہذیبی اعتبار سے معاشرے کے معیار زندگی کو بہتر بناتی ہے۔ عوام کی ذہنی زندگی کو جلا بخشتی ہے اور انہیںا علیٰ ثقافت عطا کرتی ہے۔
سیاسی بحرانوں، معاشی مسئلوں اور نفسیاتی الجھنوں کے مارے ہوئے ہمارے معاشرے میں یہ بات پسندیدہ نہیں کہ یونیورسٹیاں درس و تدریس کے روایتی فرائض تک خود کو محدود رکھیں۔ (اب تو وہ یہ کام بھی مناسب طور پر نہیں کرسکتیں۔ تدریسی شعبوں کا نظم و ضبط قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ کوئی یونیورسٹی مقررہ وقت پر امتحان لینے کے اہل بھی نہیںرہی۔) وہ محض معلومات اوردرآمدہ علم فراہم کرنے کا ادارہ بن کر نہیں رہ سکتیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ وہ تحقیق و تجزیے کی اہمیت تسلیم کریں۔ پسماندہ معاشرے میں یونیورسٹی کی ذمہ داری یہ ہے کہ و عوام کی مختلف طبقوں کی تہذیب و تربیت میں وسیع پیمانے حصہ لے۔ بندخول میں پڑے رہنے سے ایسی معاشرتی قوتوں کو فروغ حاصل ہوگا جن سے خود یونیورسٹی کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔ ہمارے ہاں ایسے حالات پہلے ہی پیدا ہوچکے ہیں۔ لہٰذا ہماری یونیورسٹیوں کو نہ صرف اپنے وقار کی بحالی بلکہ اپنے وجود کی حفاظت کے لیے بھی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
بلاشبہ دیگر قومی اداروں کی طرح یونیورسٹیوں پر بھی خارجی دباؤ بہت زیادہ ہے۔ معاشرے کی پسماندہ قوتیں ایسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں جن میں تحقیق و تجزیہ اور سچائی کی اشاعت خطرناک مہم بن گئی ہے۔ تاہم یونیورسٹیوں نے بھی ان حالات کے پیدا ہونے میں حصہ لیا۔ نیا شعور پیدا کرنے کے بجائے انہوں نے خاموشی سے معاشرتی دباؤ کے آگے سرجھکا دیا ہے تو اس کی وجہ محض وسائل کی کمی نہیں بلکہ اخلاقی جرأت کا مکمل فقدان ہے۔
عوامی اعتماد حاصل کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یونیورسٹیاں رائے عامہ کے آگے جھک جائیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ ہجوم کی تربیت کریں اور اعلیٰ تہذیبی و مادی اقدار کے لیے کشش پیدا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کے زوال میں رائے عامہ اور عوامی تنقید کے خوف نے نمایاں حصہ لیا ہے۔ دنیا کے ایک تہائی حصے پر مشتمل اشتراکی معاشرے میں یونیورسٹیوں کا آزادانہ کردار فنا ہوچکا ہے۔
وہ ریاستی نظریے کو فکری و عملی مواد عطا کرنے کے سرکاری ادارے بن چکی ہیں۔ جمہوری ممالک میں رائے عامہ انہیں تباہ کرنے پر تلی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں علما و فضلا اور ماہرین جاہل ہجوم کے ہاتھوں میں اپنی نکیل دیتے جارہے ہیں۔ فہم و دانش کو جہالت اور تعصبات کی بھینٹ چڑھایا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں ایک طرف معاشرے کا بہتر طبقہ خراب ہورہا ہے اور دوسری طرف ہجوم تہذیبی پیش رفت کے مواقع کھورہا ہے۔ روشنی کے چراغ بڑھتے ہوئے اندھیرے کی نذر ہورہے ہیں۔
بلاشبہ یونیورسٹی قوم کے روبرو جوابدہ ہوتی ہے لیکن اس جملے کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹی لوگوں کو مطمئن کرے کہ وہ ان کی فلاح و بہبود میں سرگرمی سے حصہ لے رہی ہے۔ شاید یہ بات عجب دکھائی دے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب یونیورسٹی دانش اور سچائی کے نام پر ہجوم کے پیچھے چلنے سے انکار کرتی ہے یا ریاستی دباؤ کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو محض اپنے جواز کی حفاظت نہیں کرتی بلکہ ابتداء میں لعن طعن کا نشانہ بننے کے باوجود لوگوں کا اعتماد حاصل کرلیتی ہے۔ اس کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ سب لوگ اس کا احترام کرنے لگتے ہیں۔ ضروری بات یہ ہے کہ لوگوں کو یہ احساس ہوکہ یونیورسٹی کسی مفاد کا شکار نہیں بلکہ سچائی کی علمبردار ہے۔ کسی گروہ کی آلۂ کار نہیں۔ حق کی متلاشی ہے، یہ احساس اس وقت پیدا ہوسکتا ہے کہ جبیونیورسٹی نظریاتی وابستگیوں سے ماورا ہو۔
اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آزاد دنیا کی یونیورسٹیاں دائیں اور بائیں بازو کے انتہا پسندوںکے مرکز بن چکی ہیں۔ ان کے استاد درس و تحقیق کے فرائض نظر انداز کرکے آئیڈیالوجی کے نام پر فسطائیت کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ خود ہماری یونیورسٹیوں میں بھی حالات زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ رائے عامہ کے بعد آئیڈیالوجی ہی وہ روگ ہے جو یونیورسٹی کی روح کو مسخ کردیتا ہے۔
اکثر صورتوں میں یہ دونوں عوعامل باہم گھل مل جاتے ہیں کیونکہ رائے عامہ عموماً منظم ہوکر آئیڈیالوجی بن جاتی ہے اور علمی و تہذیبی آزادی کا خاتمہ کردیتی ہے۔ مزید برآں یہ آئیڈیالوجی ہی ہے جسے ہاتھیار بناکر ہل اقتدار یونیورسٹی کو اپنی پسندیدہ روش پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہمیں یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ یونیورسٹی عوامی امنگوں کی ترجمان نہیں ہوتی بلکہ ان کی نقاد ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ حکومت کے مفادات کا آلۂ کار نہیں ہوتی بلکہ ان کا بے لاگ تجزیہ کرنے کا ادارہ ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ یونیورسٹی معاشرے کا ضمیر ہوتی ہے۔
آمریت ہمیشہ آئیڈیالوجی کا سہارا لیتی ہے۔ یہ بات صرف اشتراکی ممالک کی حد تک درست نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہر جگہ یہی روایت ہے۔ اسی طرح آمریت کسی طور یونیورسٹی کی آزاد نشوونما کا موقع نہیں دے سکتی۔ کیونکہ اس میں ایسے لوگوں کے موجود ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جو موچی دروازے کے شوروغوغا سے نکل کر کسی تجربہ گاہ یا کتب خانے میں جابیٹھیں گے اور ان مفروضات کا سنجیدگی سے تجزیہ کریں گے جن پر حاکموں اور ان ان کے حواریوں کے قول و فعل کا انحصار ہے۔
اس ناگوار صورتحال سے محفوظ رہنے کے لیے پوری دنیا میں مختلف اقدامات کیے جاتے ہیں۔ قواعد و ضوابط کے ذریعے یونیورسٹی کی آزادی ختم کی جاتی ہے۔ اسے ریاستی آئیڈیالوجی کا دفاعی مرکز بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سب سے بڑا ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں ذہنی، روحانی اور اخلاقی اعتبار سے مفلوج لوگوں کو جمع کردیا جاتا ہے۔ آپ ان یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی تقرری کے عملی طریقے پر ذرا توجہ دیں تو معلوم ہوگا کہ یہ معزز استاد اسی طرح بھرتی کیے جاتے ہیں جس طرح اے جی آفس میں کلرک رکھے جاتے ہیں۔ خیر میں اے جی آفس کے کلرکوں کا احترام کم کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا۔ تاہم ان کے چناؤ اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے تقرر میں کوئی فرق تو ہونا چاہیے۔ فرق کی بنیاد یہ ہے کہ یونیورسٹی کے استاد کو اکیسویں صدی کا انسان ہونا چاہیے۔ یعنی وہ اپنے عہد سے آگے سوچنے کا اہل ہو۔
بہرطور اگر یونیورسٹی نے معاشرے میں تخلیقی کردار ادا کرنا ہے اور عوام کے رومانوی خوابوں، جذباتی نعروں، طفلانہ خواہشوں اور حکومت کے مفاداتی پراپیگنڈے سے ہٹ کر نیکی سچائی اورحسن کو فروغ دینا ہے تو اسے آئیڈیالوجی سے بالاتر ہوناچاہیے۔ اس راہ پر چل کر ہی یونیورسٹی معاشرے اور انسانیت کی بہترین خدمت کرسکتی ہے۔ سچائی تخلیق کرسکتی ہے اور اس کی حفاظت کرسکتی ہے۔ اس طرح فسطائیت کی راہ روک سکتی ہے۔
ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ اشتراکی ممالک کی طرح ہماری یونیورسٹیوں کو محض باہر سے خطرہ لاحق نہیں۔ خطرے کی گھنٹیاں ان کے اندر بج رہی ہیں۔ یہ خطرہ یونیورسٹی اساتذہ کی سیاست بازی سے پیدا ہوا ہے۔ دائیں اور بائیں کی آویزش نے ان معزز اداروں کو مضحکہ خیز اکھاڑے بنادیا ہے۔ یہ امر یونیورسٹی اساتذہ کے شایان شان نہیں کیونکہ اس طرح وہ مقام سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مزیدبراں انہیں کوئی علمی آزادی حاصل ہو تو اسے روند ڈالتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں مملکت کا ڈھانچہ فی الحال اس قدر مستحکم نہیں کہ وہ علمی سرگرمیوں کو پوری طرح گرفت میں لے کر انہیں حسب منشا ڈھال سکے، جب اساتذہ سیاست کو اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں تو گویا وہ خودکشی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ایک امریکی مبصر کے بقول جب اہل علم سرکاری دباؤ کا مقابلہ کرنے سے انکار کرتے ہیں تو ہیرو بنتے کا موقع کھودیتے ہیں لیکن جب وہ جان بوجھ کر آزادی کو بے معنی بناتے ہیں تو لازماً گناہ گار بن جاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ سیاسی وابستگی سے نہ صرف یونیورسٹی اپنے جواز سے محروم ہوجاتی ہے بلکہ معاشرہ بھی گھاٹے میں رہتا ہے۔ کیونکہ اس طرح صداقت کی تخلیق اور علم کی نشوونما رک جاتی ہے۔ اس سے حاصل ہونے والے مادی، تہذیبی اور روحانی فوائد کا امکان ختم ہوجاتا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ سچائیوں کے فروغ سے ہی معاشرے کی آخر کار بہترین خدمت ہوتی ہے۔ جس بات کو عوام اور سیاست دان معاشرے کے لیے اچھا سمجھتے ہیں وہ ضروری نہیں کہ درست بھی ہو۔ اس کے برعکس جو کچھ سچ ہے وہ لازماً معاشرے کے حق میں بہتر ثابت ہوگا۔ لہٰذا رائے عامہ یا سیاست کو یونیورسٹی کا رہنما اصول نہیں بننے دینا چاہیے۔ کیونکہ تلاش حق، جو یونیورسٹی کا رہنما اصول ہے وہ لوگوں کے لیے بہتر ثابت ہوگا۔