پاکستان کی پہلی پاپ گلوکارہ نازیہ حسن کے مداح ان کی 51ویں سالگرہ منارہے ہیں
نازیہ حسن کو اقوام نے متحدہ نے 1991 میں ثقافتی سفیر برائے پاکستان مقرر کیا تھا
موسیقی کی دنیا میں نئے انداز متعارف کرانے والی پاکستانی پاپ گلوکار نازیہ حسن اگر آج زندہ ہوتیں تو اپنی 51 ویں سالگرہ منا رہی ہوتیں۔
1965 کو آج ہی کے روز کراچی میں پیدا ہونے والی نازیہ حسن پاکستان ٹیلی وژن کراچی کے بچوں کے پروگرام 'کلیوں کی مالا' میں جلوہ گر ہونے لگی تھیں۔ اسی پروگرام میں اُنہوں نے 1975 میں بچوں کا مشہور گیت 'دوستی ایسا ناتا' گایا تھا، بھارتی فلم 'قربانی' کے لیے اُن کے گیت 'آپ جیسا کوئی' کو اُس وقت شہرت حاصل ہوئی تھی، جب اُن کی عمر ابھی صرف پندرہ برس تھی۔ اس گیت کے لیے اُنہیں بھارت کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈ فلم فیئر سے نوازا گیا اور وہ یہ ایوارڈ پانے والی پہلی پاکستانی بنیں۔
نازیہ حسن نے 1981 میں 'ڈِسکو دیوانے' کے نام سے اپنے گیتوں کا ایک یادگار البم ریلیز کیا۔ اس کے بعد 1984 میں 'بُوم بُوم' اور 'ینگ ترنگ'، 1987 میں 'ہاٹ لائن' اور بالآخر 1992 میں 'کیمرا کیمرا' کے نام سے البم منظرِ عام پر آئے۔
نازیہ حسن ایک فنکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان دوست بھی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ موسیقی سے ہونے والی ساری آمدنی کراچی کی پسماندہ بستیوں میں بسنے والے بچوں، محروم نوجوانوں اور غریب خواتین کی بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرتی تھیں۔وہ نیویارک میں سیاسی تجزیہ کار کے طور پر بھی اقوامِ متحدہ سے بھی منسلک رہیں اور 1991 میں اُنہیں پاکستان کے لیے ثقافتی سفیر مقرر کیا گیا۔ نازیہ حسن کو ان کی فنی خدمات پرصدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا جب کہ انہیں پرائڈ آف پرفارمنس، بیسٹ فی میل پلے بیک ایوارڈ اور 15 گولڈ ڈسکس سمیت متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
1995 میں نازیہ حسن کی شادی کراچی کے ایک معروف صنعت کار مرزا اشتیاق بیگ سے ہوئی جن سے ان کا ایک بیٹا عریض حسن ہے۔ اسی دوران وہ پھیپھڑوں کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو ئیں۔ اُن کی ازدواجی زندگی بھی مشکلات سے دوچار رہی اور انتقال سے صرف دَس روز قبل اُن کے شوہر نے اُنہیں طلاق دے دی تھی اور صرف 35 برس کی عمر میں 13 اگست 2000 کو لندن میں انتقال کر گئیں۔
1965 کو آج ہی کے روز کراچی میں پیدا ہونے والی نازیہ حسن پاکستان ٹیلی وژن کراچی کے بچوں کے پروگرام 'کلیوں کی مالا' میں جلوہ گر ہونے لگی تھیں۔ اسی پروگرام میں اُنہوں نے 1975 میں بچوں کا مشہور گیت 'دوستی ایسا ناتا' گایا تھا، بھارتی فلم 'قربانی' کے لیے اُن کے گیت 'آپ جیسا کوئی' کو اُس وقت شہرت حاصل ہوئی تھی، جب اُن کی عمر ابھی صرف پندرہ برس تھی۔ اس گیت کے لیے اُنہیں بھارت کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈ فلم فیئر سے نوازا گیا اور وہ یہ ایوارڈ پانے والی پہلی پاکستانی بنیں۔
نازیہ حسن نے 1981 میں 'ڈِسکو دیوانے' کے نام سے اپنے گیتوں کا ایک یادگار البم ریلیز کیا۔ اس کے بعد 1984 میں 'بُوم بُوم' اور 'ینگ ترنگ'، 1987 میں 'ہاٹ لائن' اور بالآخر 1992 میں 'کیمرا کیمرا' کے نام سے البم منظرِ عام پر آئے۔
نازیہ حسن ایک فنکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان دوست بھی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ موسیقی سے ہونے والی ساری آمدنی کراچی کی پسماندہ بستیوں میں بسنے والے بچوں، محروم نوجوانوں اور غریب خواتین کی بہبود کے منصوبوں پر خرچ کرتی تھیں۔وہ نیویارک میں سیاسی تجزیہ کار کے طور پر بھی اقوامِ متحدہ سے بھی منسلک رہیں اور 1991 میں اُنہیں پاکستان کے لیے ثقافتی سفیر مقرر کیا گیا۔ نازیہ حسن کو ان کی فنی خدمات پرصدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا جب کہ انہیں پرائڈ آف پرفارمنس، بیسٹ فی میل پلے بیک ایوارڈ اور 15 گولڈ ڈسکس سمیت متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔
1995 میں نازیہ حسن کی شادی کراچی کے ایک معروف صنعت کار مرزا اشتیاق بیگ سے ہوئی جن سے ان کا ایک بیٹا عریض حسن ہے۔ اسی دوران وہ پھیپھڑوں کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو ئیں۔ اُن کی ازدواجی زندگی بھی مشکلات سے دوچار رہی اور انتقال سے صرف دَس روز قبل اُن کے شوہر نے اُنہیں طلاق دے دی تھی اور صرف 35 برس کی عمر میں 13 اگست 2000 کو لندن میں انتقال کر گئیں۔