ملکی نظام اور اس کی کمزوریاں

پاکستان میں دہشت گردی نے ملکی نظام میں موجود کمزوریوں، پیچیدگیوں اور خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے


Editorial April 04, 2016
ہمارا معاشرتی نظام قبائلی بھی ہے اور ہمارے ہاں بندوبستی ، شہری اور دیہاتی علاقے بھی ہیں فوٹو؛ فائل

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس انور ظہیر جمالی نے گزشتہ روز اسلام آباد میں صوبائی انصاف کمیٹیوں کی پہلی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خاصی فکر انگیز باتیں کی ہیں۔ اخبارات کے مطابق انھوں نے کہاکہ ہم پچھلے کئی سال سے انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں، سانحہ گلشن اقبال میں 74 سے زائد افراد جاں بحق اور کم از کم 300 زخمی ہوئے، اس سے کہیں زیادہ تعداد میں ان کے خاندان کے افراد اس سانحے سے براہ راست متاثر ہوئے ہیں ۔

مقننہ نے اس حوالے سے اپنی بصیرت کے مطابق اقدامات اٹھائے ہیں، انتظامیہ بھی اپنے محدود وسائل سے اس قسم کے درد ناک صورت حال سے نبرد آزما ہے لیکن شعبہ انصاف سے وابستہ ہم لوگوں کو بھی اپنے دائرہ اختیار اور بساط کے مطابق دستیاب وسائل میں اس منظر نامے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔

پاکستان میں دہشت گردی نے ملکی نظام میں موجود کمزوریوں'پیچیدگیوں اور خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔نظام میں یہ کمزوریاں'پیچیدگیاں اور خامیاں ہمہ جہت ہیں'پاکستان میںدہشت گردی کا جو کلچر پروان چڑھا ہے،اس سے نمٹنے کے لیے نظام میں مناسب میکنزم یا قوانین موجود نہیں تھے۔

اداروں کے لیے چونکہ یہ نیا مظہر تھا' اس لیے ہر جگہ کمزوریاں سامنے آئیں اور اس کے ساتھ ساتھ ضابطہ جاتی پیچیدگیاں اور خامیاں بھی سامنے آ گئیں' ان کا فائدہ دہشت گردوں' ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں نے اٹھایا ۔جناب چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں اعتراف کیا کہ اگرچہ انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہماری ذمے داری ہے تاہم بلا شبہ مجرموں کوسزا دینے کی شرح میں کمی ہمارے سب کے لیے باعث تشویش ہے ۔ اس سے نہ صرف اداروں کی انفرادی کارکردگی بلکہ پورے عدالتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔

چونکہ کوئی ایک ادارہ ازخود سزا یابی کی شرح میں تبدیلی نہیں لا سکتا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ شعبہ انصاف سے وابستہ تمام ادارے باہم مل کر مربوط کوشش کریں ۔ ہمیں اپنے معمولات سے ہٹ کر اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ ضرر رسیدہ افراد کو انصاف کی فراہمی میں بظاہر ہماری ناکامی نظام انصاف پر عوامی اعتماد کو بری طرح متاثر کر رہی ہے اور عوام انصاف کے لیے دیگر ذرائع تلاش کر رہے ہیں اور نتیجتاً مروجہ نظام عدل بے ثمر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنی کارکردگی کا ایمانداری اور کھلے دل سے ناقدانہ جائزہ لینا ہو گا۔

بلاشبہ موجودہ نظام انصاف سے عیاں عوام میں مایوسی بڑھی ہے' یہ امر خوش آئند ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو بھی حالات کا بخوبی اندازہ ہے۔ امید کا تقاضا یہی ہے کہ نظام میں جن کمزوریوں کی نشاندہی جناب چیف جسٹس نے کی ہے، انھیں دور کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جا رہی ہے۔

آج عدلیہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ متحرک اور فعال ہے اور آنیوالے وقت میں اس کا یہ کردارمزید بہتر ہوتا چلا جائے گا۔جناب چیف جسٹس نے مزید کہا کہ صوبائی انصاف کمیٹیاں اپنے مقامی پولیس تھانوں اور عدالتوں کے ذریعے اور فوجداری انصاف کی ضلعی ارتباطی کمیٹیوں کے ممبر کی حیثیت سے ضلعی سطح تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں جن کی کارکردگی اور سفارشات کا جائزہ اب براہ راست صوبائی سطح پر متعلقہ ادارہ لے سکتا ہے ۔

ہمارا معاشرتی نظام قبائلی بھی ہے اور ہمارے ہاں بندوبستی ، شہری اور دیہاتی علاقے بھی ہیں جہاں سرزد ہونے والے جرائم کی اپنی نوعیت اور شکلیں ہیں جو شہروں میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم اور ارتکاب کے انداز سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایسے جرائم کے خدوخال ، ان کے وقوع پذیر ہونے کے رجحانات اور ان سے نبردآزما ہونے کے لیے استعداد کار میں اضافہ کے حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان سے موثر طریقے سے نمٹنے اور ابھرتے ہوئے چیلنجوں کی نوعیت کا تعین کیا جا سکے ۔

ایسی ہی ایک کاوش پولیس آرڈر 2002 کے تحت متعارف کیا گیا ( سالانہ پولیس منصوبہ جات ) تھا جس کے ذریعے کوشش کی گئی تھی کہ پولیس نظام زیادہ فعال ، معلومات کا حامل اور ہر ضلعے کے لیے جامع منصوبہ بندی پر مبنی ہو ۔ بد قسمتی سے یہ کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ ہمیں ادارہ جاتی بد انتظامی اور نااہلیت کو کم کرنا ہے اور اپنی صفوں سے بدعنوانی اور مجرمانہ طرز عمل کو ختم کرنا ہے جو ہمارے آئینی اقدار ، قانون کی حکمرانی اور خدمات کی فراہمی کے نظام کی بے توقیری کا باعث بن رہی ہے ۔ ہمیں اپنے اداروں کو جدید بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

پاکستان میں نظام میں غیر معمولی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ مختلف جرائم کے حوالے سے جہاں موجود اور مروجہ سزاؤں اور جرمانوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے وہاں فراہمی انصاف کے لیے مروجہ میکنزم میں تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔جزا اور سزا کے تصورات کو عملی صورت دینے کے لیے بھی اقدامات کی ضرورت ہے۔

نظام میں اتنی طاقت ہونی چاہیے کہ وہ دہشت گردوں،جرائم پیشہ گروہوں، وائٹ اور بلو کالر جرائم کرنے والوں کی بلاخوف و خطر بیخ کنی کر سکے۔اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدوں پر براجمان طاقتور شخصیات کے احتساب کا میکنزم بھی آسان اور ہر خاص و عام کے لیے قابل رسائی ہونا چاہیے۔اس طریقے سے ہی وطن عزیز میں قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں