نابینا شہر میں آئینہ
22 مارچ کو بیلجیئم کے شہر برسلزکے ہوائی اڈے اور میٹرو ٹرمینل پر بم حملے ہوئے
لاہور:
22 مارچ کو بیلجیئم کے شہر برسلزکے ہوائی اڈے اور میٹرو ٹرمینل پر بم حملے ہوئے، جن میں کم وبیش 32 افراد جاں بحق، جب کہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ بیلجیئم حملہ پیرس میں ہونے والے خونریزحملوں کے بعد کسی یورپی شہر پر دوسرا بڑاخونریز حملہ تھا، لیکن ابھی ان حملوں کی بازگشت جاری تھی کہ ایسٹر کے موقعے پر لاہور شہر کو خودکش حملہ آور نے خون میں نہلادیا، جس میں 72 افراد لقمہ اجل بنے اور 300 سے زائد شدید زخمی ہیں۔
پاکستان میں اب تک سیکڑوں کی تعداد میں خودکش حملے، بم دھماکے اور مختلف نوعیت کی تخریبی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں، مگر لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والی درندگی اور سفاکی ایک ایسا دلدوز واقعہ ہے، جس کی نظیر تلاش کرنا مشکل ہے۔ اس درندگی کو بیان کرنے کے لیے لغتوں میں الفاظ کا قحط پڑگیا ہے۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے، جس نے ہر حساس انسان کو غم واندوہ میں ڈبودیا ہے، مگر حکمران اشرافیہ اور ریاستی ادارے اپنی نااہلی کے سبب اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ بڑے سے بڑا سانحہ بھی ان کی غیر فعالیت ختم کرنے میں ناکام ہے۔
ریاستی اداروں کے غیر فعال (Dysfunctional) ہونے کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جس روز لاہور میں یہ سانحہ رونما ہوا، اسلام آباد میں بعض مذہبی تنظیموں کی جانب سے ایک بڑا ہجوم اکٹھا تھا۔ انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ مشتعل مجمع کسی بھی وقت کوئی تخریبی کارروائی کرنے کے علاوہ اسلام آباد کی طرف پیش قدمی بھی کرسکتا ہے، مگر وفاقی حکومت کے زیر انتظام اسلام آباد پولیس اور پنجاب حکومت کے زیر کنٹرول راولپنڈی کی انتظامیہ ان رپورٹس سے بے خبر چین کی بانسری بجاتی رہی ۔ یہ بتایا جارہا ہے کہ انٹیلی جنس اداروں نے اس بارے میں رپورٹ کی کاپی خصوصی طور پر وفاقی وزیر داخلہ کو بھی بھجوائی تھی، مگر وہ بھی خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ عقیدے کے نام پر دہشت گردی گزشتہ تین دہائیوں سے عالمی مظہر (Phenomenon) کے طور پر سامنے آیا ہے۔ جس پر قابو پانے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں بھی جارہی ہیں، مگر پاکستان میں یہ مسئلہ حکمران اشرافیہ کے فکری تضادات اور دہرے معیارات کے باعث مسلسل الجھتا جارہا ہے۔ بعض حلقوں کو گمان ہے کہ شدت پسندی کے حد سے بڑھ جانے کے باعث مقتدر اشرافیہ کا اس بارے میں بیانیہ (Narrative) تبدیل ہورہا ہے، لیکن اس تصور کو محض خوش فہمی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب تک ریاستی منصوبہ سازوں کا ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں روایتی بیانیہ تبدیل نہیں ہوگا، مذہبی شدت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ اسلام آباد میں چار روز تک جو کچھ ہوا، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کبھی ایک مسلک اور کبھی دوسرے مسلک کے جنگجو جتھوں کی سرپرستی کرنا حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے، جب کہ آزاد فکر سیاست کا راستہ ہمیشہ روکا جاتا ہے۔
مقتدر اشرافیہ کی دہشت گردی کے مظہرکے حوالے سے کنفیوزڈ طرز عمل کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ایک برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان (NAP) کی ایک دو شقوں کو چھوڑ کر باقی تمام شقیں سردخانے میں پڑی ہوئی ہیں، جب کہ حکمران اشرافیہ مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت اور ان کے سہولت کاروں کے بارے میں کھل کر کارروائی کرنے میں ہنوز ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
APS پشاور کے بعد باچاخان یونیورسٹی، پھر چند دیگر شہر اور اب لاہور میں جو کچھ ہوا ہے، وہ ریاستی اداروں کی ناقص حکمت عملیوں اور بدترین کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس سلسلے میں دو پہلو قابل غور ہیں۔ اول، حکومت اور اس کے ادارے اتنے برس گزر جانے کے باوجود Re-active حکمت عملی کے تحت کام کررہے ہیں۔ ان میں Pro-active کارکردگی کی صلاحیت ہی نہیں ہے، جس کی وجہ سے دہشت گردی کے مظہر پر قابو پایا جانا ممکن نہیں ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ریاست اس مظہر کے حوالے سے مختلف نوعیت کے ابہام میں مبتلا ہے، جو ٹھوس اور پائیدار اقدام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 68 برس کی تاریخ کے دوران پاکستان پر لکھی گئی تمام کتابیں اکھٹا کرکے ان میں سے کسی بھی ایک کتاب میں درج کوئی ایک سطر ایسی دکھادی جائے، جس میں یہ تحریر ہو کہ پاکستان کو آزاد فکر اور روشن خیال شہریوں کی جانب سے کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچایا گیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آزاد فکر اور روشن خیال افراد یا تنظیموں نے اس ملک میں جمہوریت، فکری آزادی اور تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کی جدوجہد ضرور کی ہے لیکن انھوں نے پرتشدد راہ کبھی اختیار نہیں کی۔
اس کے برعکس ان تمام حلقوں نے اس ملک میں کبھی عقیدے اور کبھی مسلک کے نام پر انتشار پھیلانے کا کوئی موقع ضایع نہیں کیا، جو 13 اگست 1947 تک اس ملک کے قیام کے مخالف رہے تھے اور اب مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان عناصر نے آمروں کے ہاتھ مضبوط کیے۔
ان کی متعارف کردہ آئینی ترامیم اور نافذ کردہ امتیازی قوانین کو تحفظ دینے میں ان آمروں کا ہر ممکن ساتھ دیا، جس کی وجہ سے شہریوں کے بنیادی شہری اور انسانی حقوق سلب ہوئے اور معاشرہ فرقہ وارانہ اور مسلکی بنیادوں پر تقسیم درتقسیم کا شکار ہوتا چلا گیا۔ جس کی وجہ سے مختلف نوعیت کے امتیازات نے پورے سماجی ڈھانچے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آج پاکستانی معاشرہ زد پذیری (Vulnerabililty) کی آخری حدود کو چھورہا ہے۔
اگر اب تک ہونے والے 10 عام انتخابات اور 8 بلدیاتی انتخابات کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں، تو مسلکی بنیادوں پر قائم جماعتوں کو لگ بھگ 5 فیصد مقبول ووٹ پڑتے رہے ہیں، جس سے ان کی عوامی قبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، لیکن ریاستی اسٹبلشمنٹ، جو ریاست اور سیاست کو اپنی مضبوط گرفت میں رکھنے کی خواہشمند ہے، قومی سیاسی جماعتوں کو اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچانے کے لیے ان جماعتوں کو استعمال کرتی ہے۔
جس کی وجہ سے عوامی تائید نہ رکھنے کے باوجود یہ جماعتیں اتنی طاقتور ہوچکی ہیں کہ ریاستی منصوبہ سازی پر اثرانداز ہونے کے علاوہ مقبول سیاسی حکومتوں کو گرانے کا بھی اہم ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ یوں یہ جماعتیں عوام کی کردار سازی کرکے انھیں بہتر اور کارآمد شہری بنانے کے بجائے سیاسی عمل میں Nuisence پیدا کرنے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ جب ہر سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ادارہ اپنی آمدن اور اخراجات کا آڈٹ کرانے کا قانونی طور پر پابند ہے، ملک کے مختلف حصوں میں سرگرم سماجی تنظیمیں ملنے والی اندرونی اور بیرونی امداد کا حساب کتاب دینے کی پابندہوتی ہیں، پھر ملک بھر میں قائم مدارس اندرون اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد کا حساب کتاب دینے اور آمدن اور اخراجات کا آڈٹ کرانے سے کیوں گریزاں ہیں؟ اس کا مطلب صاف ظاہر ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اس کے علاوہ چند دیگر سوالات بھی ہر ذہن میں ابھر رہے ہیں۔
اول، وہ کیا اسباب ہیں کہ ریاستی منتظمہ ان مذہبی جماعتوں کے خلاف کارروائی سے کیوں گریز کررہی ہے، جن کے رہنماؤں کے گھروں سے دہشت گرد برآمد ہوتے رہے ہیں؟ جن کے بارے میں مصدقہ رپورٹس ہیں کہ وہ دہشت گردوں کو مختلف نوعیت کی سہولیات مہیا کرتے ہیں؟ دوئم، ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کا مشتعل ہجوم توڑ پھوڑ کرتا ہوا راولپنڈی سے اسلام آباد پہنچتا ہے اور Red Zone پر قابض ہوجاتا ہے۔ مگر نہ جانے وہ کون سی مصلحتیں تھیں کہ نہ صرف انھیں حساس علاقے میں جانے سے روکا نہیں گیا، بلکہ ہر قسم کی اشتعال انگیز تقاریر برداشت کی گئیں اور پھر انھیں واپسی کا محفوظ راستہ (Safe exit) فراہم کیا گیا؟ جب کہ اسی روز کراچی میں اپنی تنخواہوں کے لیے مطالبہ کرنے والے کالج اساتذہ کی پولیس نے اچھی خاصی دھنائی کردی۔
ہم سیکولر اور تھیوکریسی کی بحث میں الجھنا نہیں چاہتے، ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ 1973 کے آئین کو اس کی اصل حالت میں بحال کردیا جائے۔ وہ تمام آئینی شقیں جو حقوق انسانی کے عالمی اعلان نامہ سے متصادم ہیں اور ایسی تمام آئینی ترامیم جو فوجی آمروں نے جبراً اپنی قائم کردہ اسمبلیوں سے منظور کرائی ہیں، انھیں فی الفور منسوخ کردیا جائے۔ ساتھ ہی ریاست کے منطقی جواز کی بحث ہمیشہ کے لیے بند کردی جائے۔ آئین میں جو کچھ درج ہے وہی پاکستان کا حال اور مستقبل ہو۔ اسی طرح وفاقیت کے تصور کے خلاف مختلف حلقے جو سازشیں کررہے ہیں اور چھوٹے صوبوں کو نوآبادیات بنانے کی جو کوششیں کی جارہی ہیں، ملک کی سلامتی اور بقا کی خاطر ان کا قلع قمع کیا جائے۔ اگر پارلیمان کو مکمل فیصلہ ساز ادارہ تسلیم کرلیا جائے اور یہ مان لیا جائے کہ آئین میں ترمیم واضافے کا حق صرف اور صرف پارلیمان کو ہے، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ گورننس کے حالیہ بحران پر قابو نہ پایا جاسکے۔ جس کی وجہ سے امن وامان کی صورتحال دگرگوں ہے اور مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی روز کا معمول بن گئی ہے۔