22 مارچ سے 27 مارچ تک
۔ پاکستان میں دھماکے اور ان سے سیکڑوں لوگوں کا قتل اب معمول کی بات بنا ہوا ہے
2 مارچ 2016 کو بیلجیم کے دارالحکومت برسلز کے مختلف مقامات پر 7 دھماکے ہوئے جن میں مجموعی طور پر 73 افراد ہلاک اور 300 کے قریب زخمی ہوئے۔ یہ دھماکے ایئرپورٹ یورپی یونین کے دفتر کے قریب میٹرو اسٹیشن میں ہوئے۔ ایئرپورٹ اور میٹرو اسٹیشن پر عام انسانوں کا ہجوم ہوتا ہے جن میں مختلف قوموں اور ملکوں کے لوگ سفر کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔
ان بے گناہ لوگوں کو اپنی منزل مقصود پر پہنچنے سے دلچسپی ہوتی ہے، انھیں کسی بھی مذہب سے کچھ لینا دینا ہوتا ہے نہ دوستی دشمنی ہوتی ہے، ہر شخص کو فطری طور پر پرامن سفر کی خواہش ہوتی ہے لیکن برسلز کے ایئرپورٹ اور میٹرو اسٹیشن کے مسافروں کو قاتلوں نے اس ملک عدم پہنچا دیا، جہاں سے کوئی مسافر واپس نہیں آتا۔ دنیا کے عوام سوال کر رہے ہیں کہ ان کا قصور، ان کا جرم کیا تھا جس کی انھیں اتنی بھیانک سزا دی گئی کہ ان کے جسم ٹکڑوں میں بٹ گئے؟
27 مارچ 2016 کو یعنی برسلز کے خونی کھیل کے صرف چھ دن بعد پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گلشن اقبال پارک میں جھولوں کے قریب ہوا جہاں تین ہزار کے لگ بھگ بچوں، بڑوں کا ہجوم تھا، مرنے والوں میں بچے اور خواتین کی اکثریت ہے۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ انسانی جسموں کے اعضا دور دور تک بکھر گئے اور علاقہ خون ناحق سے سرخ ہوگیا۔ کہا جا رہا ہے کہ دہشت گرد بارودی جیکٹ پہنے مشکوک حالت میں پارک کے گیٹ پر پہنچا تھا، پارک کے کسی گارڈ نے اسے اندر داخل ہونے سے نہیں روکا۔ گارڈ غیر تربیت یافتہ اور غیر مسلح تھے۔
ان کے پاس صرف سیٹیوں کا ہتھیار تھا، جسے وہ بے مقصد بجاتے پھرتے ہیں۔ پاکستان میں دھماکے اور ان سے سیکڑوں لوگوں کا قتل اب معمول کی بات بنا ہوا ہے، ابھی حال میں چارسدہ یونیورسٹی میں ہونے والے قتل عام کی یاد تازہ ہی تھی کہ لاہور میں یہ دھماکہ ہوگیا۔ کیا ان دھماکوں کے پس منظر میں لاہور کے پبلک مقامات پر جہاں چھٹی کی وجہ سے ہجوم ہوتا ہے، خاص طور پر بچے اور خواتین بڑی تعداد میں آتے ہیں، ان کی حفاظت نہتے گارڈز سیٹیاں بجا کر کرسکتے ہیں؟
لاہور گلشن اقبال پارک کا یہ سانحہ حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ پچھلے ایک عشرے سے جاری قتل و غارت کے خلاف عموماً مذمتی بیانات اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی باتوں کے سوا کوئی ایسے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے جن سے شہری علاقوں میں ہونے والی مسلسل دہشت گردی کو روکا جاسکے۔
آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے شمالی وزیرستان میں جو سخت کارروائیاں کی جا رہی ہیں اس سے بلاشبہ اس علاقے میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے لیکن صرف شمالی وزیرستان ہی پاکستان نہیں۔ پاکستان چار صوبوں اور 20 کروڑ عوام کا ایک ایسا ملک ہے جو سیکڑوں شہروں پر مشتمل ہے، یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ ہماری فوج پورے پاکستان میں پھیلی ہوئی اس المناک قتل وغارت پر اکیلی قابو پالے۔
سیاست میں دور دور کی کوڑی لانے والے اور طرح طرح کے فارمولے اور حکمت عملیاں تشکیل دینے والے اعلیٰ دماغ حضرات صرف جمہوریت کے محور ہی پر گھومتے نظر آتے ہیں۔ مذہبی انتہاپسندی کے حوالے سے آئے روز ہونے والی اس قتل و غارت پر ان مدبرین کے پاس سوائے مذمتی بیانات دینے اور حکومت پر تنقید کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
نان ایشوز پر سیاسی جماعتوں کی کانفرنسیں منعقد کرکے آئیں بائیں شائیں کرنے والے مدبرین کا یہ قومی فرض ہے کہ وہ ملک کی بقا اور عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی اس دہشت گردی کے خلاف ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائیں اور اس کانفرنس میں ایسے مفکروں اہل علم اہل دانش اور اہل قلم کو بلائیں جو قومی اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
دہشت گردی نہ کوئی قومی مسئلہ ہے نہ علاقائی، اب یہ عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں سے لے کر افریقہ کے پسماندہ ملکوں تک بے گناہ عوام کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے اور دنیا کے حکمران اس حوالے سے صرف نشستند، گفتند اور برخاستند کی بے مقصد و بے معنی پریکٹس میں مصروف ہیں یا شام میں بشارالاسد کی حکومت کو رہنا چاہیے یا نہیں جیسے مسئلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔
دہشت گردی خواہ وہ برسلز میں ہو یا پیرس میں یا پاکستان کے شہری علاقوں میں، ایک ہی مقصد کا تسلسل ہے، اگر صورتحال یہی ہے تو کیا عالمی رہنماؤں کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ اس خطرناک مسئلے کے حل کے لیے حکومتوں کے علاوہ اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا تعاون حاصل کریں اور ایک بین الاقوامی مشاورت کے ساتھ ایسی حکمت عملی ایسی منصوبہ بندی اور ایک ایسا موثر طریقہ کار وضع کریں جس میں صرف سیکیورٹی فورسز ہی کا کردار نہ ہو بلکہ اس میں عوام کا بھی بھرپور کردار ہو۔
ہمارے محترم وزیراعظم لگاتار یہ فرماتے رہتے ہیں کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک ہماری جنگ جاری رہے گی۔ بلاشبہ عوام کو مطمئن کرنے اور انھیں حوصلہ دینے کے لیے اس قسم کے بیانات ضروری ہیں لیکن آخری دہشت گرد کے خاتمے کے لیے اب تک ایسی منصوبہ بندی ایسی حکمت عملی نظر نہیں آتی جو ان دعوؤں کی دلیل بن سکے؟
مذہبی انتہاپسندی اب ہماری رگ و پے میں اس طرح سرائیت کرگئی ہے کہ ہم اپنے قومی مفادات اور ملک و ملت کے مستقبل کو بھلا بیٹھے ہیں۔ 27 مارچ کو ہماری مذہبی جماعتوں نے لیاقت باغ راولپنڈی سے جو احتجاجی مارچ شروع کیا، وہ جلاؤ گھیراؤ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درجنوں افسران اور جوانوں کو زخمی کرتا ہوا پارلیمنٹ کے سامنے فروکش ہوگیا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔
عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ 2014 میں طاہرالقادری اور عمران خان کے لاکھوں افراد عورتوں بچوں کے جلوسوں کو پارلیمنٹ ہاؤس پر دھرنا دینے سے روکنے والی اسلام آباد کی انتظامیہ اسی نسبتاً چھوٹے مظاہرے کو کنٹرول کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے؟ کیا اس ریلی سے اسی شام لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونے والے خودکش حملے کو اتفاق کا نام دیا جاسکتا ہے۔
اسی دن کراچی پریس کلب پر فائرنگ صحافیوں کیمرہ مینوں پر تشدد اور کیمرے چھین لینے اور تشدد کے مظاہروں کو بھی اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے؟ اسکولوں اور موبائل فون کو بند کرنے سے اس وباء کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟ یہ ایسے سوال ہیں جن پر وسیع تناظر میں آل پارٹیز کانفرنس میں غور کیا جانا چاہیے اور اس کا حتمی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔