انتہاپسند نظریے سے جنگ کی ضرورت

جس طرح ظالم کی عمر بہت کم ہوتی ہے، اسی طرح اس کے ظلم کی عمر بھی بہت کم ہوتی ہے


محمد عارف شاہ April 04, 2016

جس طرح ظالم کی عمر بہت کم ہوتی ہے، اسی طرح اس کے ظلم کی عمر بھی بہت کم ہوتی ہے، جب وہ پوری ہوجاتی ہے تو اس کا غرور جھک جاتا ہے، اس کا ظلم مٹ جاتا ہے، حالات اسے مجبور کردیتے ہیں، قدرت اس کی کمر توڑ دیتی ہے، وہ اس قدر مجبور ہوجاتا ہے کہ اپنی دولت، اپنی قوت، اپنی ذہانت اور اپنی غیر معمولی صلاحیتیں استعمال کرنے کے قابل نہیں رہتا۔

بلاشبہ پاک فوج نے ظالم دہشتگردوں کے غرور کو توڑ دیا ہے، اب وہ ہر محاذ پر پسپا ہوتے جارہے ہیں، چھپ کر وار کررہے ہیں، ایسا ہی ایک وار لاہور میں کیا گیا، لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں 72 سے زائد افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔ سفاک اور وحشی درندوں نے بزدلانہ حرکت کرتے ہوئے زندہ دلان شہر لاہور کو خون میں نہلادیا۔ پوری قوم ایک مرتبہ پھر کرب اور صدمے سے دوچار ہے۔

شدت پسندی کا عفریت اس سے پہلے عبادت گاہوں پر حملہ آور ہوکر ثابت کرچکا کہ وہ تقدیس کی حرمت سے بیگانہ ہے۔ کوچہ و بازار میں پرامن شہریوں کو خاک اور خون میں نہلاکر واضح کرچکا کہ یہ جنونی گروہ ہے اور معمولات زندگی کا حسن پہچاننے سے قاصر ہے۔

ریاست کے اہم ترین دفاعی اداروں اور سفارت خانوں پر حملہ آور ہوکر مذہبی شدت پسندوں نے بتادیا کہ وہ انسانی اجتماع کی بنیادی علامتوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں۔ دہشتگردوں کی سوچ ایک جنون ہے جو وحشت کی صورت میں انسانی بستیوں پر اترتی ہے، یہ کوئی ایسی سوچ نہیں جسے تہذیب کے دائرے میں جگہ دی جاسکے، یہ ایک وحشت ہے، جو پھولوں، پرندوں اور بچوں کے تعاقب میں ہے، جسے انسانی مسرت سے عداوت ہے، جو مسکراہٹ سے نفرت کرتی ہے اور جو اپنے اظہار کے لیے آگ، لہو اور آنسو ہی کی زبان جانتی ہے۔

10سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے مگر پاکستان سے دہشتگردی کا ناسور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سال 2016 کے آغاز میں عسکری قیادت نے بھرپور عزم کا اظہار کیا تھا کہ یہ دہشتگردی کے خاتمے کا سال ہے لیکن یکے بعد دیگرے دہشتگردی کے واقعات نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وطن عزیز میں دہشتگرد عناصر ایک بار پھر پنپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں جن دہشتگردوں کی کمر ٹوٹی تھی، کیا وہ ایک بار پھر کھڑے ہونے کی کوشش کررہے ہیں؟ کیا ملک میں دہشتگرد تنظیمیں پھر منظم ہوکر کارروائیوں میں مگن ہیں؟ یا پھر کوئی نئی دہشتگرد تنظیم پاکستان میں اپنی دہشت پیدا کرنے کے لیے ایسی کارروائیاں کررہی ہے؟ یہ سب وہ سوالات ہیں جن کے جواب کا ہر پاکستانی متلاشی ہے۔

مگر ہمیں یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ نفرتوں کے زہر سے سیراب کی گئی فصل کی کٹائی اتنی جلدی ممکن نہیں، پاک فوج اپنی تمام تر قوت و توانائی کے ساتھ انسانیت کے دشمنوں کو کچلنے میں مصروف ہے۔ طالبان، القاعدہ اور اب ممکنہ طور پر داعش کی خونریز وارداتوں میں ملوث مہیب غیر ریاستی عناصر ملکی سالمیت شہریوں کے صبر اور سیکیورٹی فورسز کے عزم و استقلال کو مسلسل چیلنج کررہے ہیں۔

ملک حالت جنگ میں ہے، ایک ایسی جنگ جس میں نادیدہ دشمن سے واسطہ ہے، جو بزدل ہے، چھپ کر حملہ کررہا ہے، ہمارے اندر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ پاک فوج وطن عزیز کی بقا و سلامتی، استحکام اور انسانیت کے دشمنوں کے خاتمے کا تہیہ کیے ہوئے ہے، ضرب عضب نے دہشتگردوں کو اپاہج کردیا ہے، بلاشبہ حالیہ دو برسوں میں دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کامیاب کارروائیاں ہوئی ہیں، شمالی وزیرستان میں آپریشن کے نتیجے میں ملک بھر میں اطمینان محسوس کیا جارہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ نظریاتی محاذ پر دہشتگردی کو شکست دینے کے کوئی انتظامات نظر نہیں آرہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ دہشتگردی کو دو نکاتی بنیادی حکمت عملی کے بغیر شکست نہیں دی جاسکتی۔ اول یہ کہ دہشتگرد کا جو بھی نظریہ ہے اس کا موثر نظریاتی توڑ اور متبادل کشش آپ کے پاس کیا ہے؟ دوم یہ کہ کیا آپ کے سوچنے کی رفتار دہشتگرد کی سوچ سے کم از کم ڈیڑھ گنا تیز ہے یا نہیں؟

آج ملک کی مسلح افواج سمیت تمام اداروں کی ایک ہی نیت ہے کہ دہشتگردی کو شکست دی جائے، ملک سے شدت پسندی کا خاتمہ ہو، انتہاپسندی کا جن پھر بوتل میں واپس چلا جائے، لیکن ہر قسم کی کوشش کے بعد نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ملک کے دشمن نئی طاقت سے حملہ آور ہوتے ہیں۔ من حیث القوم ہمارا المیہ ہے کہ ہم پاکستان سے دہشتگرد تو ختم کرنا چاہتے ہیں مگر دہشتگردی کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے، شدت پسند تو ہمارے نشانے پر ہوتا ہے مگر شدت پسندی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

انتہاپسند شخصیات پر تو قانون اپنی گرفت مضبوط کرتا ہے مگر انتہاپسندی جوں کی توں ہے۔ جب تک ہم دہشتگرد کے بجائے دہشتگردی، انتہاپسند کے بجائے انتہاپسندی اور شدت پسند کے بجائے شدت پسندی کو ختم نہیں کریں گے، معاملات یونہی چلتے رہیں گے۔ آج ہم نے اگر کالعدم تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، یا پھر کوئی اور کالعدم تنظیم ختم کردی ہے مگر پھر وہی سوچ کسی دوسری تنظیم کے ساتھ شامل ہوکر اسی ڈگر پر چل پڑی ہے۔ اصل میں ہم نے ابھی تک اس سوچ کو ختم کرنے کی طرف توجہ نہیں دی، دہشتگرد تو آپریشن نے ختم کردیے مگر ان کی سوچ آج بھی وہیں موجود ہے۔

فتح کا کوئی نعم البدل نہیں، دہشتگردوں کو فوجی میدان میں شکست دینا تو لازمی ہے، کیونکہ کسی بھی نظریے کے نام پر بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلنے کی کسی بھی گروہ کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ خون ریزی کو فوجی قوت ہی سے کچلنا ہوگا، لیکن معاملات کو دوبارہ درست ڈگر پر لانے کے لیے اصلی اور بنیادی جنگ اس انتہاپسند نظریے سے لڑنا ہوگی، جس نے ایک خاص مائنڈ سیٹ کو جنم دیا اور جس کی کوئی ظاہری سرحدیں نہیں کہ جنھیں باڑ یا بیریئر لگاکر روکا جائے۔

انتہاپسندوں نے جدید ٹیکنالوجی کے ٹولز کو بڑی چابک دستی اور مہارت سے استعمال کیا۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، فیس بک، ٹوئٹر، و دیگر ویب سائٹس ان کا وہ ذریعہ ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے پیغامات و نظریات کی ترویج کرتے چلے جارہے ہیں۔

دہشتگردوں کو نظریاتی محاذ پر شکست دینے کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی کے جدید ذرائع کو بھی بھرپور انداز میں بروئے کار لایا جائے۔ اس سلسلے میں وہ ادارے جن کا تعلق میڈیا و انٹرنیٹ سے ہے اور جنھوں نے رائے سازی کے سلسلے میں نہ صرف تحقیق کی ہے بلکہ اس کو موثر انداز میں مختلف پروگرامز کے ذریعے استعمال بھی کیا ہے، اہم کردار کے حامل ہوسکتے ہیں۔ عوام ان پر اعتماد کرنے کو بھی تیار ہیں۔

اس لیے ان کے ذریعے انتہاپسندی کا موثر انداز میں مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ گو انتہاپسندی نہایت سنجیدہ معاملہ ہے لیکن اس کے مقابلے کے لیے ایسا ہلکا پھلکا انداز اپنانا چاہیے کہ عوام اس میں کشش محسوس کریں، نظریات کی جنگ میں اس طریقہ کار کی اشد ضرورت ہے۔

یاد رکھیے، خارجی کے بجائے داخلی دشمن زیادہ خطرناک ہوتا ہے، کیونکہ وہ ہمارے اندر موجود ہوتا ہے، ہمیں اس داخلی دشمن اور دہشتگرد کو سارے ملک، ایک ایک شہر، قصبے، گاؤں، گلی گلی سے چن کر نکالنا ہے اور منطقی انجام تک پہنچانا ہے، یہ کام صرف حکومت کا ہی نہیں، پوری قوم کا ہے، یہ ہر شہری کا فرض ہے کہ اس مسئلے پر حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہو۔ ہمت کیجیے پورے جوش و ولولے کے ساتھ پاک فوج کی پشت پر کھڑے ہوجائیے کہ اسے یہ جنگ جیتنے کے لیے آپ کی بڑی ضرورت ہے۔

خون شہدائے پشاور کے صدقے ملک کے طول و عرض میں جہالت سے لبریز وحشت کے خلاف فضا بن چکی ہے، اس فضا کو بحیثیت ایک زندہ قوم جلا بخشنے کی ضرورت ہے، یقین کیجیے کہ بیس کروڑ عوام کے عزم صمیم کے طوفان کے آگے چند ہزار قاتل اور ان کا اسلحہ و بارود ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |