ماحولیاتی آلودگی کا خطرناک فیز
اس سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا گیا۔ انسانی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے
اس سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا گیا۔ انسانی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا پانی کی کمی کا شکار ہو رہی ہے۔ اس وقت پوری دنیا کو قلت آب کا ہولناک مسئلہ درپیش ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہماری زمین پر سوا ارب مکعب کلو میٹر پانی موجود ہے لیکن اس میں سے جو پانی انسانی استعمال میں آ سکتا ہے اس کی مقدار صرف دو لاکھ مکعب کلو میٹر ہے۔
اس وقت ایک ارب سے زائد انسانوں کو پینے کا پانی میسر نہیں اور یہ تمام لوگ غریب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں تو ہماری زمین کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن میٹھا اور تازہ پانی جو انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے ضروری ہے جس کے بغیر ہم بہت کم عرصے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو سکتے ہیں اس کی مقدار روئے زمین پر صرف ایک فیصد ہے۔
قلت آب اور دنیا کی آبادی میں گہرا تعلق ہے۔ جیسے جیسے دنیا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میٹھے صاف پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں کئی دہائیوں سے زیرزمین میٹھے پانی کے ذخائر کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر نکالا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے چلی گئی ہے اور ان کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں۔ اس طرح نہ انسانوں کے لیے اور نہ فصلوں کے لیے مناسب پانی دستیاب ہے۔ جس کا نتیجہ پیداوار میں کمی اور خشک سالی میں نکل رہا ہے۔
اس وقت دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اکیسویں صدی کے اختتام تک دنیا کی آبادی گیارہ ارب سے زیادہ ہو جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق 2050ء تک دنیا کی آبادی میں مزید تین ارب انسانوں کا اضافہ ہو جائے گا اور آبادی میں یہ اضافہ ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں ہو گا۔ پانی کی کمی کے مسئلے سے نبٹنے کا ایک ہی حل ہے کہ آبادی میں اضافے پر قابو پایا جائے، گلوبل وارمنگ یعنی دنیا کا بڑھتا درجہ حرارت' سے متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان آٹھویں نمبر پر تھا، اب ترقی کر کے چوتھے نمبر پر آ گیا ہے ۔
جس کے نتیجے میں پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر سیلابوں،سمندری طوفان، شدیدآندھی اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قلت آب کے حوالے سے صورت حال کس قدر سنگین ہے کہ وفاقی وزیر برائے پانی بجلی کے مطابق اگلے پانچ سات برسوں میں پاکستان میں پانی کا قحط پڑ سکتا ہے لیکن ہمارے عوام بے خبرہیں، اقوام متحدہ ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر عالمی اداروں نے کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کو باقاعدہ طور پر قلت آب سے دوچار ملک قرار دے دیا جائے گا کیونکہ 2000ء میں پاکستان کے ہرشہری کو اوسطاً تین ہزار مکعب میٹر پانی دستیاب تھا، اب یہ مقدار کم ہو کر ایک ہزار سے بھی نیچے آ چکی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف ایک ماہ کی ملکی ضروریات کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جب کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس تین سال کی ضروریات کے مطابق پانی موجود ہو۔ پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں اور بیراج بہ مشکل ڈیڑھ سو ہیں جب کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں چار ہزار ڈیم اور بیراج ہیں اور ڈیڑھ سو زیر تعمیر ہیں جب کہ پاکستان پچھلی کئی دہائیوں سے ایک بھی بڑا ڈیم نہیں بنا سکا ہے۔
بارش اور سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے کیوجہ سے ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کوہر سال 36 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے ایک عشرے کے دوران 48ممالک کو پانی کی قلت عدم استحکام سے دوچار کر دے گی، ان میں سے کچھ ریاستوں کاوجود بھی خطرے میں پڑ سکتاہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔گزشتہ ایک صدی میں دنیا میں کوئلے اور تیل کے جلائے جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن ڈائی اکسائیڈ نے دنیا کو موسمی شدائد سے محفوط رکھنے والی' اوزون کی تہہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں توانائی پیدا کرنے کے نتیجے میں ہماری فضا میں ہر سال 23 ارب ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سیکنڈ میں 700 ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ فضا میں شامل ہوکر عالمی ماحول کے درجہ حرارت میں انتہائی اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی انسانی صحت پر شدید اثرات مرتب کر رہی ہے جس کے نتیجے میں سانس جلد پیٹ کی بیماریاں عام ہیں ،گردے پھیپھڑے، بینائی کا متاثر ہونے کے علاوہ سب سے خطرناک چیز یہ ہے کہ مختلف قسم کے دماغی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں آکسیجن کم پیدا ہوتی ہے اور دماغ کو کم آکسیجن ملنے سے انسانی دماغ سکڑتا ہے۔ پاکستانی اسپتالوں میں داخل ہونے والا ہر دوسرا شخص ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہے۔
پاکستان ماحولیات کے حوالے سے زمانہ قیامت صغریٰ میں داخل ہو چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب کام چھوڑ کر ہمارے حکمران اس ہولناک خطرے سے نمٹنے کے لیے کمر کس لیں لیکن ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ فخر سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ توانائی کی قلت پر قابو پانے کے لیے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بنائیں جائیں گے۔ جس سے قیامت صغریٰ قیامت کبریٰ میں بدل سکتی ہے۔
یورپ اور امریکا کوئلے اور گیس سے چلنے والے بجلی گھر اور ایٹمی بجلی گھر بھی بند کر رہے ہیں یہاں تک کہ امریکا اور یورپ اپنے ماحول کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کے لیے اپنی صنعتیں بھارت اور چین منتقل کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں اپنے عوام اور اپنی زمین سے محبت۔
النینو سے پیدا ہونے والا موسمی بگاڑ جو سیلاب خشک سالی کا باعث بنتا ہے۔ وہ بگاڑ موجودہ سال کے آخر میں ختم ہو جائے گا۔
اس وقت ایک ارب سے زائد انسانوں کو پینے کا پانی میسر نہیں اور یہ تمام لوگ غریب ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں تو ہماری زمین کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے لیکن میٹھا اور تازہ پانی جو انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے ضروری ہے جس کے بغیر ہم بہت کم عرصے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو سکتے ہیں اس کی مقدار روئے زمین پر صرف ایک فیصد ہے۔
قلت آب اور دنیا کی آبادی میں گہرا تعلق ہے۔ جیسے جیسے دنیا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میٹھے صاف پانی کی قلت بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں کئی دہائیوں سے زیرزمین میٹھے پانی کے ذخائر کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر نکالا جا رہا ہے جس کے نتیجے میں زیرزمین پانی کی سطح خطرناک حد تک نیچے چلی گئی ہے اور ان کے ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں۔ اس طرح نہ انسانوں کے لیے اور نہ فصلوں کے لیے مناسب پانی دستیاب ہے۔ جس کا نتیجہ پیداوار میں کمی اور خشک سالی میں نکل رہا ہے۔
اس وقت دنیا کی آبادی ساڑھے سات ارب ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اکیسویں صدی کے اختتام تک دنیا کی آبادی گیارہ ارب سے زیادہ ہو جائے گی۔ ایک اندازے کے مطابق 2050ء تک دنیا کی آبادی میں مزید تین ارب انسانوں کا اضافہ ہو جائے گا اور آبادی میں یہ اضافہ ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں ہو گا۔ پانی کی کمی کے مسئلے سے نبٹنے کا ایک ہی حل ہے کہ آبادی میں اضافے پر قابو پایا جائے، گلوبل وارمنگ یعنی دنیا کا بڑھتا درجہ حرارت' سے متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان آٹھویں نمبر پر تھا، اب ترقی کر کے چوتھے نمبر پر آ گیا ہے ۔
جس کے نتیجے میں پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر سیلابوں،سمندری طوفان، شدیدآندھی اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قلت آب کے حوالے سے صورت حال کس قدر سنگین ہے کہ وفاقی وزیر برائے پانی بجلی کے مطابق اگلے پانچ سات برسوں میں پاکستان میں پانی کا قحط پڑ سکتا ہے لیکن ہمارے عوام بے خبرہیں، اقوام متحدہ ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دیگر عالمی اداروں نے کہا کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کو باقاعدہ طور پر قلت آب سے دوچار ملک قرار دے دیا جائے گا کیونکہ 2000ء میں پاکستان کے ہرشہری کو اوسطاً تین ہزار مکعب میٹر پانی دستیاب تھا، اب یہ مقدار کم ہو کر ایک ہزار سے بھی نیچے آ چکی ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف ایک ماہ کی ملکی ضروریات کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جب کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے ضروری ہے کہ اس کے پاس تین سال کی ضروریات کے مطابق پانی موجود ہو۔ پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں اور بیراج بہ مشکل ڈیڑھ سو ہیں جب کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں چار ہزار ڈیم اور بیراج ہیں اور ڈیڑھ سو زیر تعمیر ہیں جب کہ پاکستان پچھلی کئی دہائیوں سے ایک بھی بڑا ڈیم نہیں بنا سکا ہے۔
بارش اور سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے کیوجہ سے ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت کوہر سال 36 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگلے ایک عشرے کے دوران 48ممالک کو پانی کی قلت عدم استحکام سے دوچار کر دے گی، ان میں سے کچھ ریاستوں کاوجود بھی خطرے میں پڑ سکتاہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔گزشتہ ایک صدی میں دنیا میں کوئلے اور تیل کے جلائے جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کاربن ڈائی اکسائیڈ نے دنیا کو موسمی شدائد سے محفوط رکھنے والی' اوزون کی تہہ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں توانائی پیدا کرنے کے نتیجے میں ہماری فضا میں ہر سال 23 ارب ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سیکنڈ میں 700 ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ فضا میں شامل ہوکر عالمی ماحول کے درجہ حرارت میں انتہائی اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی انسانی صحت پر شدید اثرات مرتب کر رہی ہے جس کے نتیجے میں سانس جلد پیٹ کی بیماریاں عام ہیں ،گردے پھیپھڑے، بینائی کا متاثر ہونے کے علاوہ سب سے خطرناک چیز یہ ہے کہ مختلف قسم کے دماغی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں آکسیجن کم پیدا ہوتی ہے اور دماغ کو کم آکسیجن ملنے سے انسانی دماغ سکڑتا ہے۔ پاکستانی اسپتالوں میں داخل ہونے والا ہر دوسرا شخص ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہے۔
پاکستان ماحولیات کے حوالے سے زمانہ قیامت صغریٰ میں داخل ہو چکا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب کام چھوڑ کر ہمارے حکمران اس ہولناک خطرے سے نمٹنے کے لیے کمر کس لیں لیکن ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں۔ فخر سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ توانائی کی قلت پر قابو پانے کے لیے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بنائیں جائیں گے۔ جس سے قیامت صغریٰ قیامت کبریٰ میں بدل سکتی ہے۔
یورپ اور امریکا کوئلے اور گیس سے چلنے والے بجلی گھر اور ایٹمی بجلی گھر بھی بند کر رہے ہیں یہاں تک کہ امریکا اور یورپ اپنے ماحول کو ہر طرح کی آلودگی سے پاک صاف رکھنے کے لیے اپنی صنعتیں بھارت اور چین منتقل کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں اپنے عوام اور اپنی زمین سے محبت۔
النینو سے پیدا ہونے والا موسمی بگاڑ جو سیلاب خشک سالی کا باعث بنتا ہے۔ وہ بگاڑ موجودہ سال کے آخر میں ختم ہو جائے گا۔