اسلام پسند بھٹو
’’اسلام ہمارا دین ہے‘‘ پیپلز پارٹی کے منشور کا پہلا نقطہ تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کی تاریخ ہو یا وفات کا دن ہو یا اقتدار سے بے دخلی کا موقع ہو تو انھیں ضرور یاد کیا جائے گا۔ دیکھا جائے گا کہ کون سے کام انھوں نے اچھے کیے اور کئی کاموں کو ناپسندیدہ ٹھہرایا جائے گا۔ تاریخ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو کھنگالے گی۔
ہر کوئی اپنی پسند کی عینک سے بھٹو کو دیکھے گا۔ آج ہم ان کے ان تمام اسلامی کاموں کا جائزہ لیں گے جو قدرت نے بھٹو کے ہاتھوں سر انجام دیے۔ حیرت انگیز طور پر صرف پانچ برسوں کے اقتدار میں بھٹو نے بے شمار وہ کام کیے جو آج تک کے تمام حکمرانوں نے مل کر بھی نہیں کیے۔ جاگیردار خاندان میں جنم لینے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بظاہر لبرل بھٹو سے وہ انوکھے کام سر انجام پائے کہ حیرت ہوتی ہے۔
''اسلام ہمارا دین ہے'' پیپلز پارٹی کے منشور کا پہلا نقطہ تھا۔ پاکستان کا ذہین ترین سیاستدان جانتا تھا کہ اس راہ کو چھوڑ کر کسی اور راستے کا انتخاب اس ملک کے عوام قبول نہیں کریں گے۔ اصغر خان اس بات کو نہ سمجھ سکے اور اچھے فوجی افسر کہلانے کے باوجود ناکام سیاستدان کہلائے۔ جب بھٹو نے معیشت کے لیے سوشلزم کے راستے کا انتخاب کیا تو عوام کی بڑی اکثریت نے اسے ناپسند کیا۔ قائد عوام نے ''اسلامی سوشلزم کو مساوات محمدیؐ'' کہہ کر سمجھایا کہ غریبوں کے حقوق اور محنت کش کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے معاوضے کی ادائیگی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں۔
ایوب خان کے وزیر کے طور پر کام کرنے والے بھٹو اچھی طرح سے جانتے تھے کہ چاند نظر آنے کے مسئلے پر کس طرح علما اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ ہوا تھا۔ اس تنازعے سے بچنے کے لیے بھٹو نے فوراً ''رویت ہلال کمیٹی'' قائم کردی۔ کوثر نیازی کو مذہبی امور کی وزارت دے کر علما کرام سے قریبی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ بھٹو کے اقتدار کے ابتدائی دور کے کام تھے۔ ایسے میں 73 میں آئین تشکیل دینے کا موقع آیا۔
ذہین اور تاریخ ساز بھٹو نے جہاں قوم پرستوں سے تعاون کی راہ نکالی وہیں انھوں نے مذہبی پارٹیوں کے مطالبات پر بھی توجہ دی۔ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام قرار پایا۔ آج بظاہر یہ آسان کام لگتا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ایوب نے 62 کے آئین میں مملکت کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' نہیں رکھا تھا، احتجاج کے بعد اسے قبول کیا تھا۔ بھٹو نے ایوب کی غلطیوں سے بچتے ہوئے جہاں آئین کو پارلیمانی بنایا وہیں پانچ آرٹیکلز کو اسلامی دفعات کے عنوان سے دستور کا حصہ بنایا۔
اسلامی سربراہ کانفرنس نے بھٹو کو اسلامی دنیا کا بڑا لیڈر بنادیا۔ انھوں نے دنیا کو بتادیا سرمایہ دارانہ ہاتھی ہو یا اشتراکی ریچھ اور غیر جانبدار ممالک کی تیسری دنیا کے علاوہ بھی ایک اور دنیا ہے۔ فروری 74 میں ہونے والی اس کانفرنس میں شاہ فیصل، انور سادات اور حواری بومدین جیسے رہنما شریک ہوئے۔ لاہور کے ایک جلسے میں قذافی کا ہاتھ اٹھا کر بھٹو نے اس میدان کا نام ''قذافی اسٹیڈیم'' رکھا۔ علاقائیت، قومیت اور لسانیت کے بت توڑ کر کلمے کی بنیاد پر اکٹھا ہونے کا جذبہ بھٹو جیسے رہنما کے وژن کے بغیر ممکن نہ تھا۔ وقت کا پہیہ چند ماہ ہی آگے بڑھا تھا کہ ایک پرانے معاملے نے سر اٹھایا۔ ایک مذہبی طلبا تنظیم ملتان کے کچھ طالب علم ربوہ سے گزرے تو انھوں نے ''خاتم الانبیاؐ'' کے نعرے لگائے۔
واپسی پر وہی نعرے لگائے تو ان پر حملہ کردیا گیا۔ وہیں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک اٹھی۔ ستمبر 74 میں بھٹو نے اسمبلی کے بند کمرے کے اجلاس میں علما اور احمدیوں کے دلائل سنے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ نے آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم کرکے مسلمان کی تعریف متعین کردی۔ حضور اکرمؐ کو آخری نبی ماننے والا ہی حقیقی مسلم کہلانے کا مستحق ہوگا۔ یہ مسئلہ 53 میں بھی اٹھا تھا۔ یہ دور خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمیٰ کا دور تھا۔ چند شہروں میں مارشل لا لگا کر جنرل اعظم خان کو ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا۔
افہام و تفہیم اور سیاسی گفتگو کے بجائے اس مسئلے کو طاقت سے دبادیا گیا۔ مولانا مودودی کو ایک کتاب ''قادیانی مسئلہ'' لکھنے پر فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی۔ دباؤ پر اسے خود ہی عمر قید میں تبدیل کرکے پھر انھیں رہا کردیا گیا۔ بھٹو نے اس مسئلے کو التوا میں ڈالنے کے بجائے حل کرنے کی طرف توجہ دی۔ گو لبرل اور سیکولر طبقہ بھٹو کے اسلامی فیصلوں پر انھیں معاف کرنے کو تیار نہیں لیکن جب قدرت کو یہ کام بھٹو کے ہاتھوں سرانجام دلوانا تھا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔
''گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے'' کی بات بھٹو کی زبان سے ادا ہوئی تھی۔ ڈاکٹر قدیر کو پاکستان بلاکر انھوں نے ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ایٹمی دھماکا نواز شریف کے دور میں ہوا۔ یہ بھی سچائی ہے کہ یورینیم کی افزودگی کا بہت بڑا کام جنرل ضیا الحق کے دور میں انجام پایا۔ سب کچھ تب ہوا جب بھٹو نے ایک کام کی بنیاد رکھ دی تھی۔ آج اس مرحلے پر میزائل ٹیکنالوجی کو پاکستان لانے کا کریڈٹ بے نظیر بھٹو کو دینے میں کنجوسی نہیں کی جانی چاہیے۔ بھٹو کے ہاتھوں جس دفاعی حصار کی بنیاد رکھی گئی اسے ''اسلامی بم'' قرار دیا گیا۔ یہ حقیقت ہو یا زیادتی لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان اگر اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بنا تو اس کی بنیاد بھٹو نے رکھی تھی۔
بھٹو نے مارچ 77 میں انتخابات کروائے۔ پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاجی تحریک شروع کی ۔ کچھ وقت گزرا تو اسے ''تحریک نظام مصطفیٰؐ'' کا نام دیا گیا۔ اس نازک مرحلے پر بھٹو نے جمعہ کی تعطیل کا اعلان کردیا۔ بیس برسوں تک پاکستان میں ہفتہ وار چھٹی اتوار کے بجائے جمعۃ المبارک کو ہوتی رہی تاوقتیکہ 97 میں نواز شریف نے اسے تبدیل نہیں کردیا۔ پاکستان کے دو مقبول ترین وزرائے اعظم کے مختلف فیصلوں کو تاریخ کس نظر سے دیکھے گی؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
یہی وہ دور تھا جب بھٹو نے شراب اور جوئے پر پابندی عائد کردی۔ ان کے اس فیصلے کو ''مشروب مغرب'' سے شغف رکھنے والے اور ریس کے رسیا لوگوں نے پسند کیا۔ ممکن ہے چھپ چھپا کر تمام کام ہوتے ہوں لیکن جب بھی بھٹو کے اسلامی کاموں کا تذکرہ ہوگا تو ضرور کہا جائے گا کہ زلفی کے کھاتے میں یہ کام بھی ہیں۔ جاتے جاتے ہی سہی اور احتجاجی تحریک کے دوران ہی سہی، بھٹو کے ہاتھوں شراب اور جوئے پر پابندی لگ ہی گئی۔ آج بھٹو کے اسلامی کاموں کی اہمیت کا اتنا زیادہ احساس نہ ہو لیکن جلد ہی ہوگا۔ 2028 بھٹو کی صد سالہ سالگرہ اور 2029 پچاس سالہ برسی کے سال ہوں گے۔ ان دو برسوں میں پاکستان کی جامعات کے درجنوں طلبا و طالبات ذوالفقار علی بھٹو پر مقالات لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہے ہوں گے۔
ان میں ایک مقالہ ''اسلام پسند بھٹو'' بھی ہوسکتا ہے۔ ایک کالم میں دی گئی مختصر باتوں کو تحقیق کرکے کئی سو صفحات کی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس وقت تک اگر راقم زندہ رہا اور کالم لکھتا رہا تو ''ایکسپریس'' میں کالم نگاری کی ربع صدی سے زیادہ وقت گزار چکا ہوگا۔ اگر بھٹو پر کالم لکھنے والے طالب علم یا طالبہ نے آج کے کالم سے استفادہ کیا ہوگا تو یہ خوشی کی بات ہوگی۔ یہ خوشی اس وقت دوچند ہوجائے گی جب ایک نوجوان مقالہ نگار ایک سینئر سٹیزن کو ایک کتاب ارسال کرے جس کا نام ہو ''اسلام پسند بھٹو''۔
ہر کوئی اپنی پسند کی عینک سے بھٹو کو دیکھے گا۔ آج ہم ان کے ان تمام اسلامی کاموں کا جائزہ لیں گے جو قدرت نے بھٹو کے ہاتھوں سر انجام دیے۔ حیرت انگیز طور پر صرف پانچ برسوں کے اقتدار میں بھٹو نے بے شمار وہ کام کیے جو آج تک کے تمام حکمرانوں نے مل کر بھی نہیں کیے۔ جاگیردار خاندان میں جنم لینے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بظاہر لبرل بھٹو سے وہ انوکھے کام سر انجام پائے کہ حیرت ہوتی ہے۔
''اسلام ہمارا دین ہے'' پیپلز پارٹی کے منشور کا پہلا نقطہ تھا۔ پاکستان کا ذہین ترین سیاستدان جانتا تھا کہ اس راہ کو چھوڑ کر کسی اور راستے کا انتخاب اس ملک کے عوام قبول نہیں کریں گے۔ اصغر خان اس بات کو نہ سمجھ سکے اور اچھے فوجی افسر کہلانے کے باوجود ناکام سیاستدان کہلائے۔ جب بھٹو نے معیشت کے لیے سوشلزم کے راستے کا انتخاب کیا تو عوام کی بڑی اکثریت نے اسے ناپسند کیا۔ قائد عوام نے ''اسلامی سوشلزم کو مساوات محمدیؐ'' کہہ کر سمجھایا کہ غریبوں کے حقوق اور محنت کش کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے معاوضے کی ادائیگی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں۔
ایوب خان کے وزیر کے طور پر کام کرنے والے بھٹو اچھی طرح سے جانتے تھے کہ چاند نظر آنے کے مسئلے پر کس طرح علما اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ ہوا تھا۔ اس تنازعے سے بچنے کے لیے بھٹو نے فوراً ''رویت ہلال کمیٹی'' قائم کردی۔ کوثر نیازی کو مذہبی امور کی وزارت دے کر علما کرام سے قریبی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ یہ بھٹو کے اقتدار کے ابتدائی دور کے کام تھے۔ ایسے میں 73 میں آئین تشکیل دینے کا موقع آیا۔
ذہین اور تاریخ ساز بھٹو نے جہاں قوم پرستوں سے تعاون کی راہ نکالی وہیں انھوں نے مذہبی پارٹیوں کے مطالبات پر بھی توجہ دی۔ ریاست کا سرکاری مذہب اسلام قرار پایا۔ آج بظاہر یہ آسان کام لگتا ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ایوب نے 62 کے آئین میں مملکت کا نام ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' نہیں رکھا تھا، احتجاج کے بعد اسے قبول کیا تھا۔ بھٹو نے ایوب کی غلطیوں سے بچتے ہوئے جہاں آئین کو پارلیمانی بنایا وہیں پانچ آرٹیکلز کو اسلامی دفعات کے عنوان سے دستور کا حصہ بنایا۔
اسلامی سربراہ کانفرنس نے بھٹو کو اسلامی دنیا کا بڑا لیڈر بنادیا۔ انھوں نے دنیا کو بتادیا سرمایہ دارانہ ہاتھی ہو یا اشتراکی ریچھ اور غیر جانبدار ممالک کی تیسری دنیا کے علاوہ بھی ایک اور دنیا ہے۔ فروری 74 میں ہونے والی اس کانفرنس میں شاہ فیصل، انور سادات اور حواری بومدین جیسے رہنما شریک ہوئے۔ لاہور کے ایک جلسے میں قذافی کا ہاتھ اٹھا کر بھٹو نے اس میدان کا نام ''قذافی اسٹیڈیم'' رکھا۔ علاقائیت، قومیت اور لسانیت کے بت توڑ کر کلمے کی بنیاد پر اکٹھا ہونے کا جذبہ بھٹو جیسے رہنما کے وژن کے بغیر ممکن نہ تھا۔ وقت کا پہیہ چند ماہ ہی آگے بڑھا تھا کہ ایک پرانے معاملے نے سر اٹھایا۔ ایک مذہبی طلبا تنظیم ملتان کے کچھ طالب علم ربوہ سے گزرے تو انھوں نے ''خاتم الانبیاؐ'' کے نعرے لگائے۔
واپسی پر وہی نعرے لگائے تو ان پر حملہ کردیا گیا۔ وہیں سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی تحریک اٹھی۔ ستمبر 74 میں بھٹو نے اسمبلی کے بند کمرے کے اجلاس میں علما اور احمدیوں کے دلائل سنے۔ اس کے بعد پارلیمنٹ نے آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم کرکے مسلمان کی تعریف متعین کردی۔ حضور اکرمؐ کو آخری نبی ماننے والا ہی حقیقی مسلم کہلانے کا مستحق ہوگا۔ یہ مسئلہ 53 میں بھی اٹھا تھا۔ یہ دور خواجہ ناظم الدین کی وزارت عظمیٰ کا دور تھا۔ چند شہروں میں مارشل لا لگا کر جنرل اعظم خان کو ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا۔
افہام و تفہیم اور سیاسی گفتگو کے بجائے اس مسئلے کو طاقت سے دبادیا گیا۔ مولانا مودودی کو ایک کتاب ''قادیانی مسئلہ'' لکھنے پر فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنادی۔ دباؤ پر اسے خود ہی عمر قید میں تبدیل کرکے پھر انھیں رہا کردیا گیا۔ بھٹو نے اس مسئلے کو التوا میں ڈالنے کے بجائے حل کرنے کی طرف توجہ دی۔ گو لبرل اور سیکولر طبقہ بھٹو کے اسلامی فیصلوں پر انھیں معاف کرنے کو تیار نہیں لیکن جب قدرت کو یہ کام بھٹو کے ہاتھوں سرانجام دلوانا تھا تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔
''گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے'' کی بات بھٹو کی زبان سے ادا ہوئی تھی۔ ڈاکٹر قدیر کو پاکستان بلاکر انھوں نے ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کی بنیاد رکھ دی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ ایٹمی دھماکا نواز شریف کے دور میں ہوا۔ یہ بھی سچائی ہے کہ یورینیم کی افزودگی کا بہت بڑا کام جنرل ضیا الحق کے دور میں انجام پایا۔ سب کچھ تب ہوا جب بھٹو نے ایک کام کی بنیاد رکھ دی تھی۔ آج اس مرحلے پر میزائل ٹیکنالوجی کو پاکستان لانے کا کریڈٹ بے نظیر بھٹو کو دینے میں کنجوسی نہیں کی جانی چاہیے۔ بھٹو کے ہاتھوں جس دفاعی حصار کی بنیاد رکھی گئی اسے ''اسلامی بم'' قرار دیا گیا۔ یہ حقیقت ہو یا زیادتی لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان اگر اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بنا تو اس کی بنیاد بھٹو نے رکھی تھی۔
بھٹو نے مارچ 77 میں انتخابات کروائے۔ پاکستان قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگا کر احتجاجی تحریک شروع کی ۔ کچھ وقت گزرا تو اسے ''تحریک نظام مصطفیٰؐ'' کا نام دیا گیا۔ اس نازک مرحلے پر بھٹو نے جمعہ کی تعطیل کا اعلان کردیا۔ بیس برسوں تک پاکستان میں ہفتہ وار چھٹی اتوار کے بجائے جمعۃ المبارک کو ہوتی رہی تاوقتیکہ 97 میں نواز شریف نے اسے تبدیل نہیں کردیا۔ پاکستان کے دو مقبول ترین وزرائے اعظم کے مختلف فیصلوں کو تاریخ کس نظر سے دیکھے گی؟ اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔
یہی وہ دور تھا جب بھٹو نے شراب اور جوئے پر پابندی عائد کردی۔ ان کے اس فیصلے کو ''مشروب مغرب'' سے شغف رکھنے والے اور ریس کے رسیا لوگوں نے پسند کیا۔ ممکن ہے چھپ چھپا کر تمام کام ہوتے ہوں لیکن جب بھی بھٹو کے اسلامی کاموں کا تذکرہ ہوگا تو ضرور کہا جائے گا کہ زلفی کے کھاتے میں یہ کام بھی ہیں۔ جاتے جاتے ہی سہی اور احتجاجی تحریک کے دوران ہی سہی، بھٹو کے ہاتھوں شراب اور جوئے پر پابندی لگ ہی گئی۔ آج بھٹو کے اسلامی کاموں کی اہمیت کا اتنا زیادہ احساس نہ ہو لیکن جلد ہی ہوگا۔ 2028 بھٹو کی صد سالہ سالگرہ اور 2029 پچاس سالہ برسی کے سال ہوں گے۔ ان دو برسوں میں پاکستان کی جامعات کے درجنوں طلبا و طالبات ذوالفقار علی بھٹو پر مقالات لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کی جانب بڑھ رہے ہوں گے۔
ان میں ایک مقالہ ''اسلام پسند بھٹو'' بھی ہوسکتا ہے۔ ایک کالم میں دی گئی مختصر باتوں کو تحقیق کرکے کئی سو صفحات کی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس وقت تک اگر راقم زندہ رہا اور کالم لکھتا رہا تو ''ایکسپریس'' میں کالم نگاری کی ربع صدی سے زیادہ وقت گزار چکا ہوگا۔ اگر بھٹو پر کالم لکھنے والے طالب علم یا طالبہ نے آج کے کالم سے استفادہ کیا ہوگا تو یہ خوشی کی بات ہوگی۔ یہ خوشی اس وقت دوچند ہوجائے گی جب ایک نوجوان مقالہ نگار ایک سینئر سٹیزن کو ایک کتاب ارسال کرے جس کا نام ہو ''اسلام پسند بھٹو''۔